چودھویں کا چاند

ملک ریاض ایک غیر معمولی کلرک تھے جو کامیابی کے زینے تیزی سے پھلانگتے موجودہ مقام تک پہنچ گئے۔اب پاکستان کی کھرب پتی اشرافیہ کے ایک ممبر ہیں۔تیز طرار آدمی ہیں۔سیاسی ،سماجی بلکہ فوجی حلقوں میں بھی بے حد اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔دوستی گانٹھنے کے ماہراور بندے کوخریدنے کے گر خوب جانتے ہیں۔

ان کا دسترخوان بھی بڑا وسیع اور فراخ ہے۔ہرطبقہ کے لوگ یہاں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ سول اور فوج کے ریٹائرڈ کئی ایک اعلٰی افسر ان کے ذاتی ملازم ہیں۔میڈیا میں بھی ان کے چند ایک دسترخوانی خدمتگار پائے جاتے ہیں۔ان کے زرخریداور لقطہ خوروں کی ایک خوفناک حد تک طویل فہرست ہے۔اور طاقت کا سرچشمہ ایک زرداری سب پہ بھاری، یاروں کا یار،ان کا ہم پیالہ و ہم نوالہ ہوتو پھر کیا بات ہے۔ کیا بات ہے۔ایک تو کریلااور پھر نیم چڑھا اسی کو توکہا جاتا ہے ۔موصوف ملک ریاض زرداری کے ہرقسم کے سفر میںان کے ہمسفر رہتے ہیں۔اتنی اونچی شخصیت کی اناکے لیے چیف جسٹس افتخارچوہدری کا زیر دام نہ آنا بڑا دھچکا ہے۔

ملک ریاض کوئی خودرو پودا نہیں کہ راتوں رات اگ آیا ہو۔نہ ہی کوئی برساتی کھمبی ہے ۔جو ایک ہی دن میں پورے قد کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔یہ تو بڑے سامری کا ایک سازشی شعبدہ ہے۔اوراب تو یہ کوئی ڈھکا چھپا راز بھی نہیں رہا۔معاملہ طشت از بام ہو چکا ہے۔میڈیا نے چوراہے پر بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ملک ریاض کو حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی لے ڈوبی۔اللہ کو تکبرتو ہرگز پسند نہیں۔

کسی جالا بنتی ہوئی مکڑی کی پڑوسن نے تعریف کردی کہ تم تو بڑا مضبوط جالا بنتی ہو۔ایسا تو کوئی اور بنا ہی نہیں سکتا۔بس پھر کیا تھا۔ مکڑی اپنی تعریف سن کر”پھنڈ“ گئی۔بولی ہاں بہن میرے جالے کی مضبوطی کی تو سبھی تعریف کرتے ہیں۔دراصل یہ مضبوط ہی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس سے میں ہاتھی کو بھی پھانس سکتی ہوں۔پڑوسن یہ بڑھک سن کر دلمیں مسکرائی۔اور کہا بہن ،ہاتھی تو خیر بڑی چیز ہے، یہ سامنے جوگھونسلا درخت میں لٹک رہا ہے نا۔اس میں’بیا‘ ابھی اندر گیا ہے۔ ذرا اسے ہی پکڑکر دکھا دو۔ مکڑی جھٹ سے بولی ۔ لو ابھی لو۔اور گھونسلے کے منہ پر جالا بننے میں جت گئی۔ابھی تھوڑی دیرہی گزری تھی کہ جھپاک سے بجلی کا کوندا سا لپکااور’بیا‘ مکڑی اور جالے سمیت فضاﺅں میں گم ہو گیا۔

دراصل عدلیہ کی بحالی کے بعد چیف جسٹس اوراس کے ساتھیوں نے بڑی محنت کی اور جان لڑا کر کرپٹ مافیاکا ناطقہ بند کر دیااوراس طرح ملک کے اربوں کھربوں کے نقصانات کے آگے بند باندھ دیا۔عدلیہ نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا اور بڑے بڑوں کو احتساب کے کٹہرے میںکھڑا کر کے قوم کے سامنے بے نقاب کردیا۔ اوران میں سے اکثر لوگ یہی تو ہیں ۔جو اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہیں۔ خود کو طاقت کا سر چشمہ سمجھتے ہیں ۔یہ تو ان کے لیے بڑی انہونی اور عجیب بات ہے ۔ ہماری بلی اور ہمیں کو میاﺅں۔ان کے ”ڈھڈوں“ میں ”سول اور مروڑ“ اٹھ رہے ہیں۔سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیںاور اندر انگاروں کی بھٹیاں دہک رہی ہیں۔

سب دیکھ رہے ہیں کہ طاقت کے نشے میں چور حکمران عدلیہ کے فیصلوں کی پرکاہ پرواہ نہیں کرتے۔بلکہ تضحیک وتمسخر کرتے ،اور مذاق اڑاتے ہیں۔ان کے دن رات اسی ادھیڑ بن میں گزرتے ہیں کہ کسی طرح اس عدلیہ کا پتھر ان کے راستے سے ہٹ جائے اور چیف جسٹس والا کانٹا بھی نکل جائے ۔ تاکہ کوئی روک ٹوک نہ رہے اورکھلے میدان میں کرپشن کی کبڈی کھل کر کھیل سکیں۔

یہ این آر او زدہ لوگ۔سٹیل ملز۔سینڈک کے تانبے سونے کے ذخائر۔تھرکول اوردوسرے معدنی وسائل کی لوٹ سیل لگانے والے۔ یہ واپڈا،ریلوے اور پی آئی اے کو لوٹ کھسوٹ کرتباہ کر دینے والے ۔اس ”خطرناک“ عدلیہ کو ٹھنڈے پیٹوں بھلا کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ یہ عدلیہ تو ان کے گلے کی پھانس بن کر رہ گئی ہے۔میمو گیٹ والے فیصلہ سے بھی انہی لوگوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔

غضب خدا کا خلائی تسخیروالے ا س سائینسی دور میں یہ ایٹمی قوت کا حامل عجیب ملک ہے جس کے عوام بیس بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں۔اس ملک کے صنعتی سیکٹر کا بیڑہ تو غرق ہونا ہی تھا۔لوگوں کے عمومی کاروبار بھی تباہ و برباد ہوکر رہ گئے۔ جس کے نتیجہ میںبیروزگاری بڑھ گئی۔ لوگ بھوک کے مارے بچوں سمیت اجتماعی خود کشیاں کر گزر تے ہیں۔

اس جمہوری حکومت کے آغازمیں آمریت کے ستائے لوگ رات کو سونے سے پہلے اس حکومت اوراس کے سربرا ہ کے لیے اچھی دعائیں کیا کرتے تھے۔لیکن دیکھتے دیکھتے جب ان کی ا میدوں کے سارے محل مسمار ہو گئے ۔ تو اب ان بددیانت،بے ضمیر اور نا اہل حکمرانوں کے لیے لوگوں کے دلوں سے بد دعاﺅں، گالیوں،لعنت اور پھٹکار کے سوااور کچھ نہیں نکلتا۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر ایوب میں کچھ غیرت تھی۔ کچھ شرم اور کچھ حیا بھی تھی ۔ کان میں آواز پڑی ” ایوب کتا“ اور استعفا دے کر چلے گئے۔ لیکن ا ن حکمرانوں کے پلے کچھ ہے ہی نہیں۔بیشک اس سے اوپر والا نام انہیں الاٹ کر دیں، یہ ٹس سے مس ہونے والے نہیں۔ انہیں تواقتدار کے ایوانوںسے گھسیٹ گھسیٹ کر نکالناپڑے گا۔اور گیلانی کی نا اہلیت سے اس عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ گیلانی پر افسوس ہے کہ نوشتہ دیواران سے پڑھا نہیں گیا۔

انقلاب فرانس تو پرانی بات سہی۔تیونس،مصر اور لیبیا میں اکھاڑ پچھاڑتو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ حسنی مبارک کے انجام اور کرنل قذافی کے آخری لمحات والے ٹریلرسے اگر کوئی ا ٓ نکھوں والاعبرت حاصل کر سکے تو اسی کے لیے بہتر ہوگا۔اوراگرزرداری بینظیر شہید کی روح کو خوش کرنا چاہے تو خود کو رضاکارانہ قوم کے سامنے احتساب کے کٹہرے میںکھڑا کردے۔اس سے شہید بی بی کی روح تو خوش ہوگی ہی، ان کی اپنی آخرت بھی سنور جائے گی۔

ارسلان کیس ان حکمرانوں کا خود سٹیج کردہ ڈرامہ ہے توپھر ان سے کسی خیر کی توقع بھی عبث ہے۔ وہ چیف جسٹس کوتوڑ نے کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ من مانے اعترافات حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔بہتر ہوگا ارسلان کیس کو انجام تک پہنچانے کے لیے عدلیہ کا ایک خصوصی بنچ تشکیل دیا جائے۔تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔یاد رکھیں اگر یہ عدلیہ ڈھا دی گئی تو بہت بڑا ظلم ہوگا۔موجودہ نسل پر بھی اور آنے والی نسل پر بھی۔

اس گھنگھور گھٹا چھائی اندھیر نگری میںموجودہ عدلیہ اپنے چیف کی سربراہی میںچودھویں کا چاند بن کر طلوع ہوئی ہے۔دکھے ہوئے،لٹے پٹے عوام نے اپنے دلوں میں عدلیہ سے بڑ ی ا میدیںاور توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔اوراپنی آنکھوں میں آس کے چراغ جلائے سہانے سپنے سجا ئے ،عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہیں۔انشااللہ۔انشااللہ۔موجودہ عدلیہ آئندہ نہ صرف اس ملک کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرے گی،بلکہ ساری مسلم امہ کے لیے روشنی کا منارہ ثابت ہو گی۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 12272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.