والی وارث

پارلیمنٹ کو عوام کی آواز کہا جاتا ہے اور وزیرِ اعظم اس آواز کا نمائیندہ ہوتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں اس نمائندہ آواز کو نااہل قرار دے کر وزارتِ عظمی سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ایسا توہینِ عدالت کے جرم کی پاداش میں کیا گیا ہے جو ہمارے آئین کا حصہ بھی نہیں ہے ۔ کئی سال قبل ایک آمر نے ایک آرڈنینس ضرور جاری کیا تھا جو زمانہ ہوا ختم ہو چکا ہے لہذا اس آرڈیننس پر جو کہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا ملک کو منتخب وزیرِ اعظم کو کیسے سزا سنا ئی جا سکتی ہے؟ ایک بڑا اہم سوال ہے جو کہ قانونی ماہر ین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کہ ایک آمر کے کالے قانون کے تحت کسی کو کیسے سزا دی جا سکتی ہے جب کہ ہم نے آمریت کی ہر نشانی کو مٹانے کا عزم کر رکھا ہے؟ کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ اس کا سب سے بالا تر اور آزاد ادارہ ہو تا ہے کیونکہ و ہی سارے ادارے تخلیق بھی کرتا ہے اور آئین سازی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے۔ یہ حق صرف پارلیمنٹ کے پاس ہو تا ہے کہ وہ آئین میں تبدیلی کر کے مختلف اداروں کے لئے نئی راہِ عمل تجویز کرے۔ کوئی دوسرا ادراہ نہ تو آئین میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تحر یف کر سکتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ عدالت آئین کی تشریح کر سکتی ہے لیکن وہ کسی شق کو آئین سے خارج نہیں کر سکتی ایسا کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں پارلیمنٹ کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق ہے۔ ماضی میںفوجی جنتا کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی جو درگت بنی اس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اپنے عہدے سے ہٹانا اتنا بڑا فیصلہ ہے جس کے اثرات آنے والے دنوں میں ہماری سیاسی اور عدالتی زندگی پر بڑے گہرے نتائج مرتب کریں گئے ۔ ہمیں اس وقت اس کے اثر ات کا صحیح ادراک نہیں ہو رہا کیونکہ ہم اس وقت حاسدانہ اور جذبا تی کیفیت سے دوچار ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ فیصلہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات اور نفرتیں چھوڑ جائے گا۔ جس وقت کوئی بھی شخصیت اپنی کرسی پر بیٹھی ہوتی ہے اسے بہت سی چیزیں اپنے اصلی تناظر میں نظر نہیں آتیں کیونکہ کرسی کی طاقت ان چیزوں کو ان کے حقیقی روپ میں دیکھنے سے عاری کر دیتی ہے لیکن جب وہ بندہ اپنی کرسی سے ہٹ جاتا ہے تو پھر کھلے آسماں تلے اسے زمین و آسماں میں موجود حقائق اپنی اصلی حالت میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسے اپنی ساری زیادتیاں اور اپنے سارے تعصبات ایک ایک کر کے یاد آنا شرع ہو جاتے ہیں لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ وقت کا بے رحم تیر چل چکا ہو تا ہے اور وہ تیر ہر اس شخص کے سینے میں پیوست ہو کر اسے عبرت بنا دیتا ہے جو تعصب اور بد نیتی پر اپنے مخالفین کو سزائیں اور اذیتیں دیا کرتا تھا ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہے یا صحیح ہے اس پر بحث تو کی جا سکتی ہے لیکن اس فیصلے پر عمل در آمد کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ دار ہوتی ہے اور شائد ر یا ست کی اسی ذمہ داری کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے بہت سے تحفظات کے ساتھ اس فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے اور نئے وزیرِ اعظم کے نام پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر د ی ہیں دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔۔۔

اس طرح کی حر کتیں ہم اکثرو بیشتر کرتے رہتے ہیں جس سے ہما ری جگ ہنسا ئی ہو تی رہتی ہے لیکن ہم پھر بھی کو ئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔۴ اپریل 1979 کو ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی طرح وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی بھی پاکستانی سیاست میں ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی۔ وہ لوگ جو اس وقت جوشِ جذبات میں افتحار محمد چوہدری کی منصفی کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ایک دن جب ان کے ذہنوں سے تعصب کی عینک اتر جائے گی تو انھیں احساس ہو گا کہ اس فیصلے نے پاکستان کی سالمیت پر کتنا گہرا وار کیا تھا اور جمہوریت کو کتنا بڑا نقصان پہنچے کا احتمال پیدا ہو گیا تھا ۔ اصل میں کچھ قوتوں کو پی پی پی کا اقتدار برداشت نہیں ہو تا اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس جماعت کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتی ہیں ۔ کبھی کوئی طا لع آزما مارشل لاءکی صورت میں وارد ہو جا تا ہے اور کبھی عدالتی بالادستی کے نام پر اس جماعت کے ساتھ نا انصافی کر لی جاتی ہے لیکن یہ ہر بارظا لم سے ظالم وار کو ہنس کر سہہ جاتی ہے۔ ہر چیز کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اب کچھ ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرتے جا رہے ہیں جس سے ملک عدمِ استحکام کا منظر پیش کر رہاہے۔ مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ بھی ہم نے کئی سالوں تک یہی رویہ اپنائے رکھا تھا۔ وہ 24 سالوں تک اس کو برداشت کرتے رہے لیکن پھر نتیجہ کیا نکلا ۔ مشرقی پاکستان کے سارے سیاست دانوں نے خفیہ اتحاد کر لیا اور پاکستان سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر لی جس کی خبر مغربی پاکستان کے منصوبہ سازو ں کو نہ ہو سکی اور یوں 1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی ساری نشستیں جیت کر علیحد بنگلہ دیش کے قیام کی داعی بن گئی ۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار پھینکنے کا میلہ سجایا گیا اور دنیا کی سب سے بہادر فوج کے ہتھیار پھینکنے کا منظر پور ی دنیا کو دکھا کر پاکستان کی جو تذلیل کی گئی اس منظر کو کوئی بھی با غیرت پاکستانی کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔ پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ اور نوے ہزا ر فوجی بھارت جیسے کمینے دشمن کی قید میں چلے گئے اور کئی سالوں تک بھارتی قیدو بند کی اذیتیں برداشت کرتے رہے۔ ان کی صعوبت انگیز اوردرد ناک اور پر آشوب زندگی نے اس وقت کے وزیرِ اعظم کو انتہائی پریشان کر دیا لہذا اس نے اپنے فوجی قیدیوں کی رہائی تک ز مین پر سونے کا اعلان کر دیا۔1973میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے کے تحت ان فوجی قیدیوں کو وطن واپس لانے کا عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا لیکن اسی فوجی جنتا نے اس نابغہ روزگار شخصیت کو دھاندلی کے الزامات لگا کر اقتدار سے علیحدہ کیا اور ملک پر مارشل لاءمسلط کر کے اسے ایک جھوٹے مقدمے میںسزائے موت دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اس موقع پر پی پی پی کی مخالف قوتوں نے مٹھا ئیاں تقسیم کیں ، ڈھول ڈھمکوں اور آتش بازیوں سے اپنی بے پایاں خوشی کا اظہار کیا اور ایسا کرنے والے سفاک اور بے رحم جنرل ضیا الحق کو امیر المومنین کے لقب سے سرفراز کیا۔ گیارہ سالوں تک جنرل ضیا الحق کی آمریت کے سائے میں سیاسی یتیم اس کی قدم بوسی کرتے رہے ، اس کی منتیں کرتے رہے ، اس کے ہاتھ چومتے رہے کہ کسی طرح اس عوامی جماعت پی پی پی کو ہمارے راستے سے ہٹا دو۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے پورے جاہ و جلال اور ریاستی طاقت سے پی پی پی کو ختم کرنے کی سر توڑ کوششیں کی لیکن وہ دھرتی کے اس جری بیٹے ذولفقار علی بھٹو کی محبت کو عوام کے دلوں سے نہ نکال سکا۔ پی پی پی کے جیالوں نے وفاﺅں کی نئی تاریخ رقم کی۔ کوڑے پھانسیاں اور جیلیں ان کا مقدر بنیں لیکن انھوں نے اپنے قائد کی محبت سے بے وفائی کرنے سے انکار کر دیا۔

تاریخ کا ستم یہ ے کہ تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے کو ئی آمر کو ئی ڈکٹیٹر اپنی مرضی کی تاریخ مرتب نہیں کر سکتا اور اگر کوئی آمر تاریخ مرتب کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کی لکھی ہو ئی تاریخ کوڑے دان میں پھینک دی جاتی ہے اور وہ تاریخ جو سچ کی آئینہ دار ہو تی ہے وہی معتبر ٹھہرتی ہے۔ تاریخ میں جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں مصلوب ہونے والا منتخب وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو آج ساری قوم کا ہیرو ہے اور اسے مصلوب کرنے والے وقت کی بے رحم عدالت میں مجرموں کی مانند سر جھکائے کھڑے ہیں ۔وہ اس بے رحم لمحے میں اپنے حمائیتوں کو بھی آوازیں دے رہے ہیں لیکن کو ئی ان کی صدائیں نہیں سنتا ۔ وہ راندائے درگا ہ ہیں اور عبرت کی ایسی مورت بنے ہوئے ہیں جس سے آنے والے حکمرانوں کو عبرت حا صل کرنی ہے لیکن اقتدار کا بے رحم کھیل اپنی پوری بے رحمیوں سے آج بھی کھیلا جا رہا ہے اور پی پی پی کو ایک دفعہ پھر تختہِ مشق بنا یا جا رہا ہے۔ پی پی پی ایک انتہائی مشکل وقت میں ہے ۔ اس وقت تحمل ،صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہے اور مجھے امید ہے کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اپنی روائیتی مفاہمانہ روش سے اس م مشکل صورتِ حال سے عہدہ براءہو کر ملک اور جمہوریت کی حفاظت کریں گئے۔ وار بڑا کاری ہے لیکن اسے حکمت سے ہی کندھ کیا جا سکتاہے۔

ایک وقت تھا جب فوجی جنتا جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹا کرتی تھی اور عدالتیں ان پر مہرِ تصدیق ثبت کیا کرتی تھیں لیکن اب ماشا للہ عدالتوں نے مارشل لا ئی منصب سنبھال لیا ہے اور حکومتوں کی برخاستگی کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ۔آزاد عدلیہ کے بے شمار کارناموںمیں ایک اعزاز کا مزید اضافہ ہو گیاہے کہ ایک منتخب وزیرِ اعظم ان کی انا کی سولی پر شہید ہو گیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں وہ سید یوسف رضا گیلانی پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنھیں کسی عدالت نے اپنے عہدے سے سبکدوش کیا ہے ۔ ان کا قصور صرف یہی ہے کہ ان کا تعلق پی پی پی کے ساتھ ہے اور انھوں نے اپنی جماعت سے بے وفائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے عہدِ وفا کی وجہ سے ان کا وجود عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں بڑی طرح سے کھٹک رہا ہے جس کی سزا دی جانی ضروری تھی ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جس دن سے پی پی پی کی یہ حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے اسی دن سے اس کی رخصتی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن آصف علی زرداری نے کسی نہ کسی طرح سے سازشیوں کو کامیاب نہیں ہو نے دیا تھا لیکن اب جمہوریت پر بڑا کاری وار ہو گیا ہے لیکن اس وار کو وار کہنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ اسے بہترین انصاف سے تشبیہ دینے کی روش اپنائی جا رہی ہے ۔ کاش کوئی مجھ کو یہ بتا دیتا کہ اگر یہ انصاف ہے تو پھر قتل کس کو کہتے ہیں؟ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ملک میں سب سے بڑا انتظامی عہدہ خالی ہو گیا ہے اور کوئی بھی شخص پاکستان کے بارے میں ہنگامی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ فرض کریں کہ نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کا مرحلہ کچھ مزید طویل ہو جا تا ہے تو پھر قوم کو بتا یا جائے کہ اتنے دن قوم کے مقدر کا فیصلیہ کون کرے گا ؟ آئین کی روح سے قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف وزیرِ اعظم کے پاس ہو تا ہے اور بد قسمتی سے اس وقت پاکستان میں کوئی شخص وزارتِ عظمی کی عہدے پر فا ئز نہیں ہے ۔ وزیرِ اعظم کا ہونا آئینی تقاضا ہے لیکن ہم ذاتی سکور برابر کرنے میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ آئینی ضرورتوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ طالع آزما قوتیں سارے منظر کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہی ہیں کہ ملک میں انارکی کی کیفیت ہے اور کوئی بھی انتظامی سر براہ نہیں ہے اور اگر انھوں نے اس خلاءسے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر ایک دفعہ پھر قبضہ کر لیا تو پاکستانی عوام کا والی وارث کون ہو گا ؟
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.