ہماری عادت ہے کہ پردہ سکرین پر
جو جلوہ گر ہوجائے ہم صرف اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جو واقعات تھوڑی
دیر پہلے ہمیں ہیجان میں مبتلا کئے ہوتے ہیں، سٹیج سے گزر جائیں تو ہم
انہیں ایسے بھولتے ہیں کہ جیسے وہ ہوئے ہی نہ ہوں۔ اس طرح ان واقعات کے
ساتھ جڑے افراد کو بھی امان مل جاتی ہے۔ اس جدید دور میں تو اب ایسے بہت سے
علوم بھی متعارف ہوچکے ہیں جو کسی مسئلے کو اجاگر کرنے یا اسے پردہ سکرین
سے اتار کر کال کوٹھری میں دفن کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک میں ایسے بہت سے ادارے موجودبھی موجود ہیں
جنہیں کوئی تھنک ٹینک گردانتا ہے تو کوئی پبلک ریلیشننگ کانام دیتا ہے
جوکسی مسئلے میں الجھے اپنے ”کلائنٹ “ کو یہ مشورہ دیتے ہوئے یقین دلاتے
ہیں کہ اگر انہوں نے نیا مسئلہ چھیڑ دیا تو لوگ پرانے کو بھول بھال جائیں
گے اور عوام، میڈیا، اپوزیشن غرض ہر کوئی اس نئے مسئلے کی بال کی کھال
اتارنے میں مگن ہوجائیں گے۔ بعض سیاستدان تو اس طریقے کو بچنے کا چور راستہ
بھی خیال کرتے ہیں۔ پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو یہ ایسی تھیوریوں
اور مکاریوں کی تجربہ گاہ بنا نظر آتا ہے۔ ایک کے بعد ایک مسئلہ کھڑا
ہوجاتا ہے اور لوگ پچھلے کرداروں کو بھول کر نئے چہروں کی طرف متوجہ ہوجاتے
ہیں۔
پاک امریکہ تعلقات بھی کچھ اسی قسم کی تھیوری کا شکار ہوئے ہیں۔ ملک ریاض
ارسلان کیس منظر عام پر آنے کے بعد پاک امریکہ تعلقات، اور نیٹو سپلائی
لائن کا معاملہ اب اتنا گرم نہیں رہا جتنا ملک ریاض ارسلان کیس تھا۔ اب
وزیر اعظم کی نااہلی کے فیصلے نے ملک ریاض اور ارسلان کیس کو بھی پس منظر
میں ڈال دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں تیزی سے حالات تبدیل ہورہے ہیں
مگر یہ انتہائی خطرناک طرزعمل ہے کہ ہم پرانے معاملات کو نمٹائے بغیرہی
بہتے چلے جارہے ہیں۔ جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ امریکہ بھارت کے
ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتا چلا جارہا ہے اور خطے میں خطرناک کھیل کھیلنے
کی تیاریاں کررہا ہے مگر ہم اپنے اندرونی حالات میں اس قدر مگن ہیں ہمیں
لٹکتی تلوار نظر نہیں آرہی۔دہشت گردی کا عفریت ہمیں اندر ہی اندر تباہ
وبرباد کرتا جارہا ہے۔ طالبان ہمارا وہ حشر کررہے ہیں جس کی تمنا ہمارے
دشمن ہمارے خلاف رکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت اس مسئلے کی جانب توجہ دلانا
چاہتا ہوں جو اندرونی مسائل کی بدولت پس منظر میں چلا گیا ہے۔ یعنی پاک
امریکہ تعلقات اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا پر امریکہ کی برہمی ۔
امریکی اور نیٹو افواج کی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاک
امریکہ تعلقات زوال کا شکار ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ امریکہ اس واقعہ جس
میں پاک فوج کے 26سپاہیوں کی جان گئی، معافی مانگنے کو ہرگز تیار نہیں بلکہ
چوری اور سینہ زوری کے مصداق الٹا پاکستان پر دباﺅ پر دباﺅ ڈالتا جارہا ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ واشنگٹن میں موجود امریکہ کا ہر چھوٹا بڑا عہدیدار
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف نظر آتا ہے۔ غدارِ وطن اور محسن
ِامریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا نے تو جلتی پر تیل کا کام دکھایا ہے ۔ جس
کی وجہ سے اب دہشت گردی کی جنگ کے خلاف ”فرنٹ لائن اسٹیٹ“ جو دہشت گردوں سے
لڑتے لڑتے چور ہوچکی، جس کے چالیس ہزار سے زائد شہری اس جنگ کا لقمہ بن
چکے، جس کے دس ہزار سپاہی اس رہ میں اپنی جان دے چکے اور جس کی معیشت برباد
ہوچکی ۔ یہ سب قربانیاں اب امریکہ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اسے سلالہ
کے معاملے پر معافی مانگنا تک گوارا نہیں ۔ 2مئی 2011ءکو ہماری سا لمیت
پارہ پارہ کرنے اور اپنے اتحادی کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے اور اس کے اعتماد
کا ٹھیس پہنچانے میں اسے کوئی ندامت نہیں بلکہ پاکستان، اس قوم اوراپنے
قبیلے کی روایات کا غدار ڈاکٹر شکیل آفریدی اب اس کی آنکھ کا تارہ ہے اور
وہ اسے جیل کی سلاخوں سے نکالنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے
بلکہ دھمکیوں پر اتر آیاہے۔امریکہ ان دھمکیوں میں کتنا سنجیدہ ہے اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے پاکستان کو دی جانے والی اپنی
امداد میں سے 3کروڑ 30لاکھ ڈالرڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا پر بطورہرجانہ کاٹ
لئے ہیں۔ شکاگو کانفرنس میں بھی پاکستان سے جو شرم ناک سلوک روا رکھا گیا
اس کی وجہ بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہی قراردیا جارہا ہے۔ برطانوی
جریدے’اکانومسٹ‘ نے اپنے 26مئی کے شمارے میں لکھا ہے کہ پاکستان اور امریکا
بظاہر اتحادی ہیں لیکن شکیل آفریدی کے مسئلے پر دونوں ممالک کے اختلافات
کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ شکیل آفریدی امریکا کے لئے ہیرو لیکن پاکستان کے
لئے غدار سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جتنی مرضی حمایت کرے یا اسے جس قدر بڑے اعزاز
سے نواز دے، وہ غدارِ پاکستان ہی رہے گا۔ اس نے نہ صرف پاکستانی قوم کے
ساتھ غداری کی بلکہ اپنے قبیلے کی روایات پر بھی کلنک کا ٹیکہ لگادیا۔اس نے
امریکی مقاصد کے حصول کے لئے جعلی ویکسین مہم شروع کرکے اپنے پیشے کے ساتھ
بھی غداری کا ارتکاب کیا ۔ اس کی غداری کے نتیجے میں پاکستان، پاکستانی قوم
اور افواج اور خفیہ ایجنسیوں کو دو مئی کے واقعہ کے بعد شدید شرمندگی کا
سامنا کرنا پڑا ۔اس کے ان کے جرائم کے مقابلے میں اسے جو سزا دی گئی وہ بھی
کم معلوم ہوتی ہے ۔ اسے تو عبرت کا نشان بنا ڈالنا چاہئے تھا تاکہ آئندہ
کسی کو ڈاکٹر شکیل بننے کی جرات تک نہ ہو۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا پر امریکہ نے جو موقف اپنایا ہے ، ہمارے ہاں ایسے
بہت سے دانشور اور تجزیہ نگار بھی نکل آئے ہیں جو اس کی تائید و حمایت کرتے
نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے جوش و خروش سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی معصومیت کی
وکالت کررہے ہیں۔ کوئی اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردے رہا ہے اور
کوئی اور ہی رنگ دے رہا ہے ظاہر ہے انہوں نے بھی تو اپنی ”ایڈز“ حلال کرنے
کے لئے امریکہ سے وفاداری کا ثبوت دینا ہے۔ جس کے چکر میں وہ اس غدار وطن
کی حمایت میں زمین وآسمان ایک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی دانش میں یہ
کوئی چیز نہیں آتی کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں
ایسے غداروں کو تلاش کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
ان حالات میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہرگز امریکی خفیہ اداروں کا آلہ کار ہی
نہیں بننا چاہئے تھا کیونکہ کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی سے کسی بھی قسم
کے تعلقات رکھنا ہی ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ اگر اس پر کسی قسم کا کوئی
دباﺅ بھی تھا تو بھی حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ وہ اسے پاکستان کے سیکورٹی
اداروں کے علم میں لاتا۔ اگر وہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے کسی بھی قسم کی
کوئی معلومات رکھتا تھا تو اسے ضرور پاکستانی سیکورٹی اداروں کو بتانی
چاہئیں تھیں اس طرح پاکستان اسامہ تک رسائی حاصل کرکے عالمی سطح پر اپنی
نیک نامی میں اضافہ کرسکتا تھا ۔ لیکن اس نے یہ معلومات امریکی خفیہ ایجنسی
سی آئی اے کو فراہم کردیں۔جس کا نتیجہ ایبٹ آباد میں امریکی افواج کے
آپریشن کی صورت میں سامنے آیا۔
اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکہ کے کسی بھی دباﺅ میں آئے بغیر قومی
موقف پر قائم رہا جائے اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہرگز امریکہ کے حوالے نہ
کیا جائے۔ اس طرح سلالہ کے واقعہ پر امریکہ کی طرف سے باقاعدہ معافی تک
نیٹو سپلائی موخر رکھی جائے بلکہ ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز
اٹھائی جائے۔ اگر پاکستان اپنے موقف پر ڈٹ گیا اور مطلوبہ مطالبات تسلیم
کروانے میں کامیاب ہوگیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی کھوئی کریڈیبلٹی کو
بحال کرسکیں اور آئندہ کسی کو ہمارے معاملات میں مداخلت کی جرات نہ ہو۔
ہماری سلامتی اسی میں مضمر ہے کہ ہم ہر درپیش مسئلے آنکھیں بند کرنے اور اس
پس پشت ڈالنے کی بجائے اس کے حل تک ڈٹ جائیں ۔ |