پہلی بات
بادِصبائ کیسی جان فزا خبر سنا رہی ہے کہ وہ آرہے ہیں. مگر وہ گئے ہی کب
تھے؟. جاتے تو وہ ہیں جو انسانیت کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور
جن کے احسانات تلے خلقِ خدا دَبی ہو. بھلا وہ بھی کبھی مرے ہیں؟. ’’طالبان‘‘.
خدا کے وہ نیک نام بندے جنہوں نے مادیت کے اندھیروں میں بھٹکی آدمیت کو
اُمید کی کرن دکھائی. آج پھر شدت سے یاد آرہے ہیں. اس لئے نہیں کہ وہ پھر آ
رہے ہیں. بلکہ اس لئے کہ ان کی یادوں کے انمٹ نقوش . سر زمینِ حقیقت پر پر
ایک بار پھر ابھرے ہیں اور دل انہیں اپنے من میں بسائے مچلتا چلا جا رہا ہے.!
لیجئے! یہ ان ’’دہشتگردوں‘‘. ’’تنگ نظروں‘‘. اور ’’وحشت پسندوں‘‘ کی ایک
نشانی ہے. ماضی کی ایون ریڈلی اور حال کی ’’مریم‘‘.کی کہانی.!!
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون صحافی گیارہ ستمبر ۱۰۰۲ئ کو امریکہ
میں پیش آنے والے تاریخی واقعے کے بعد پاکستان آئی. اور طالبان کی ’’وحشت و
سفاکیت ‘‘ کا لرزہ خیز یقین لئے عن قریب جل جانے والے افغانستان کی حقیقی
صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہوگئی۔
اس کا بچشمِ خود طالبان کا افغانستان دیکھنا اور پھر واپس پلٹ آنے کو دو
قدم رہ گئے تھے کہ سبز آنکھوں والے ایک طالبان سپاہی نے اسے گرفتار کر لیا۔
پھر کیا ہوا. آپ آئندہ یہی کہانی ان صفحات میں پڑھیں گے. ان شائ اﷲ .
نام داستان: طالبان کے ہاتھوں میں
برطانیہ کی مشہور صحافی ایوان ریڈلی کی خود نوشت افغانستان
ضبط و ترتیب: محمد مقصود احمد ( شہید)
قسط 1
تعارف
میرانام ’’ایون ریڈلی‘‘ ہے۔ میں شمالی برطانیہ میں پیدا ہوئی۔ تاہم بعد میں
ہمارا گھرانہ لندن میں آبسا، میری والدہ کا نام ’’جائس ‘‘ اور والد کا نام
’’الن‘‘ہے۔ میری دو بہنیں ہیں، جن کا نام ’’ویو ‘‘ اور ’’جم‘‘ ہیں۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے میرا تعلق عیسائیت کے پروٹسٹنٹ فرقے سے تھا اور
میں ایک چرچ میں ’’سنڈے ٹیچر ‘‘کے فرائض سرانجام دیتی تھی۔اتوار کے دن جو
بچے چرچ آتے میں انہیں مذہبی تعلیمات اور عبادات کے طریقۂ کار سے آگاہ
کرتی۔میں ان دنوں ایک مذہبی خاتون تھی اور ہفتے میں دو مرتبہ چرچ جایا کرتی
تھی ، یہ میری زندگی کا وہ حصہ تھا جب میں چرچ کی زندگی میں اہم کردار ادا
کر رہی تھی۔
انہیں دنوں میں ایک اخبار سے وابستہ ہو گئی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے
کام کرنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ میرے مضامین اور رپورٹوں کو اہمیت حاصل ہو
نے لگی اور مختلف اخبارات نے میری خدمات حاصل کیں۔افغانستان میں گرفتاری کے
وقت میں برطانیہ کے مشہور اخبار ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ سے وابستہ تھی اور اسی
کی طرف سے میں نے یہ سفر کیا۔سنڈے ایکسپریس کے علاوہ میں ’’نیوز آف دی ورلڈ
‘‘ اور ’’سنڈے ٹائمز‘‘ سے بھی وابستہ رہ چکی ہوں۔
قبولِ اسلام سے پہلے میری چار مرتبہ شادی ہوئی۔میرے پہلے شوہر کا نام
’’کِم‘‘ تھا۔ دوسرا شوہر ’’جِم میکن ٹوش‘‘تھا۔تیسرا شوہر ایک فلسطینی
مسلمان ’’دائود‘‘ تھا۔ جو فلسطینی تنظیم پی ایم او کے شعبۂ سراغ رسانی کا
اعلیٰ افسر تھا۔ دائود سے علیحدگی کے بعد میری شادی ایک اسرائیلی ’’رونی
موش‘‘ سے ہوئی۔
فلسطینی شوہر دائود سے میری علیحدگی خوشی کے ساتھ ہوئی اور اس سے میری ایک
بیٹی بھی ہے جو اس وقت تیرہ سال کی ہے اور اس کا نام ’’ڈیزی‘‘ ہے۔ڈیزی لندن
میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
مسلمان ہونے کے بعد میں نے اپنے سابق شوہر دائود سے رابطہ کیا اور ان کو
بتایا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔یہ خبر سن کر انہوں نے خوشی کا
اظہار کیا۔میں نے دائود سے پوچھا کہ انہوں نے مجھے کبھی اسلام کی دعوت کیوں
نہ دی تھی؟ تو ان کا جواب تھا کہ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ تم کبھی اسلام
قبول کر لوگی۔
وہ دن .
گیارہ ستمبر 2001ئ منگل کا دن تھا۔ میں اپنے اخبار ’’سنڈے ایکسپریس‘‘ کے
نیوز روم میں بیٹھی دفتری امور نمٹا رہی تھی۔ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا کہ
دفتر کا عملہ نیوز روم کے چاروں طرف رکھے ہوئے ٹی وی سیٹوں کے سامنے جمع ہو
رہاہے۔ میں بھی اس طرف مڑی تو یہ دیکھ کر مجھے شدید دھچکالگا کہ ٹی وی
سکرین پر امریکہ کی فلک بوس عمارت ’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ کا شمالی ٹاور آگ کی
لپیٹ میں ہے۔
یہ تقریباً دو بجے کا وقت تھا۔میں نے فوراً اپنی بڑی بہن ویو کو فون کیا
اور اس سے کہا کہ فوراً ٹی وی لگائے اور دیکھے کہ نیویارک میں جہاں آج سے
تین ہفتے پہلے ہم دونوں سیر سپاٹا کر رہی تھیں آج کیا ہو رہا ہے۔میں نے
اپنی بہن سے کہا کہ شاید ٹاور سے ٹکرانے والے کے پائلٹ کو دل کا دورہ پڑ
گیا ہو یا کوئی اور مرض لاحق ہو گیا ہو جس کی وجہ سے طیارہ اس کے کنٹرول
میں نہ رہا ہو اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جا ٹکرایا ہو۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی
تھی کہ اس کے سوا اس حادثہ کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
ویو کو فون کرنے کے بعد میں ایک بار پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی اور خوب
متوجہ ہو کر وہ وحشت ناک ڈرامہ دیکھنے لگی۔اس وقت تک میں اس بات سے بالکل
بے خبر تھی کہ امریکن ائیر لائن کی فلائٹ نمبر 11جو بوسٹن کی لوگن ائیر
پورٹ سے لاس اینجلس جاتی ہے، اسے نیویارک کے وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر
اڑتالیس منٹ پر ’’زبردستی ‘‘ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف روانہ کر دیا گیا
تھا۔چند لمحے بعد میں نے دیکھا کہ ایک اور طیارہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جنوبی
حصہ سے جا ٹکرایا۔ یہ بوئنگ طیارہ 767تھا۔ جو یونائیٹڈ ائیر لائن کی فلائٹ
نمبر 170کی حیثیت سے پرواز کر رہا تھا۔پے درپے یہ حادثات دیکھ کر میں کچھ
بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھی۔میں نے مایوس ہو کر ادھر اُدھر دیکھا لیکن
مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا جس سے میں تبادلہ خیال کر سکتی۔ میں اس کوشش میں
تھی کہ جلدسے جلد میرا نیویارک رابطہ ہو جائے تاکہ میں جان ایف کینڈی کے
واقعے کے بعد امریکہ میں پیش آنے والے اس خوفناک ترین حادثے کے متعلق کچھ
جان سکوں۔
مگر وہاں سب کچھ درہم برہم تھا۔نیویارک شہر میں تمام پُل اور سرنگیں بند کر
دی گئیں تھیں اور سب رابطے ختم کر دئیے گئے تھے۔کہا جا رہا تھا کہ کسی نے
امریکہ کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے۔ سہ پہر دو بجکر پچیس منٹ پر امریکی صدر
بش کہہ رہے تھے :
’’ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہمارے ملک پر دہشتگردوں کا حملہ ہے۔‘‘
ٹی وی پر نیویارک کی تباہی دیکھنے کے بعد میں مسلسل سنڈے ایکسپریس کے نیوز
ایڈیٹر ’’جِم مرے‘‘ اور ایڈیٹر ’’ٹائونسنڈ‘‘ سے بذریعہ فون رابطے کی کوشش
بھی کر رہی تھی، کیونکہ میراخیال تھا کہ مجھے تازہ ترین حالات کی خبرلینے
کیلئے فوراً نیویارک روانہ ہو جانا چاہئے۔
ابھی میں اسی سوچ و بچار میں تھی کہ دو بجکر پینتالیس منٹ پر امریکن ائیر
لائن کی فلائٹ 77 جو ڈلس ائیر پورٹ کی طرف سے آ رہی تھی، پینٹاگون کی عمارت
سے جا ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی پانچ کونوں والی اس عمارت کا ایک حصہ
منہدم ہو گیا۔چند منٹ بعد ہی وائٹ ہائوس خالی کروا لیا گیا۔یہ سب کچھ دیکھ
کر ہمیں یقین ہو گیا کہ بس اب امریکہ پر حملہ ہو نے ہی والا ہے۔ ٹی وی
سکرین پر بہت سے امریکی ہیجانی انداز میں باتیں کرتے نظر آ رہے تھے، وہ کہہ
رہے تھے کہ کم از کم ایک طیارہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وائٹ
ہائوس کی طرف ہی جارہاہو۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر انتہائی خوفناک منظر پیش کر رہا تھا۔ اس عمارت میں قائم
دفاتر کے ملازمین اوپر کی منزلوں سے خود کو نیچے گرا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر
ہمارے منہ حیرت اور خوف سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ یہ انتہائی بدحواسی کا
عالم تھا۔
کچھ دیر بعد سنڈے ایکسپریس کے ایڈیٹر مارٹن ٹائونسنڈ اور نیوز ایڈیٹر جم
مرے نیوز روم میں داخل ہوئے۔مارٹن نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے فوری طور پر
نیویارک بھیجنا چاہتا ہے۔ جبکہ جم کا خیال تھا کہ مجھے مشرقِ وسطیٰ جانا
چاہئے کیونکہ امریکہ میں پیش آنے والے ان واقعات کا تعلق اسی خطے سے ہو
سکتا ہے۔ میراذاتی خیا ل یہ تھا کہ مجھے دمشق یا لبنان جانا چاہئے۔ جہاں
میرے کئی ایسے جاننے والے لوگ موجود تھے جو مجھے اس سلسلے میں کام کی
معلومات فراہم کر سکتے تھے۔فلسطین اور لبنان میں جاری تحریکوں کے کئی اہم
افراد سے میرا رابطہ رہ چکا تھا۔
بالآخر فیصلہ مارٹن ٹائونسنڈ کی رائے کے مطابق ہوا اور مجھے فوری طور پر
نیویارک روانہ ہونے کیلئے کہہ دیا گیا۔اس فیصلے کے بعد جب میں تیز تیز قدم
اٹھاتی نیوز روم سے نکلنے لگی تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا جنوبی ٹاور گر کر ملبے
کا ڈھیر بن چکا تھا اور اس میں سے نکلنے والی راکھ کے مرغولے چاروں طرف
پھیل رہے تھے اور نیویارک سے سان فرانسسکو جانے والی یونائیٹڈ ائیر لائن کی
فلائٹ نمبر 93 جو اب تک لاپتہ تھی پٹس برگ سے تقریباً 80میل دور سمر سیٹ
کائونٹی کے شمالی علاقے میں گر کر تباہ ہو چکی تھی۔
میں دوڑتی ہوئی گھر پہنچی۔ضروری سامان اور کپڑے اُٹھائے اور سیدھی ہیتھرو
ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئی۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر
کا جنوبی حصہ ملبہ کا ڈھیر بن چکاہے۔ٹکٹ لینے کیلئے ایک گھنٹے کی تگ و دو
کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کم از کم ایک دن کیلئے بحراوقیانوس کے اوپر سے ہر
قسم کی پرواز ممنوع قرار دے دی گئی ہے۔یہ بھی بتایا گیا کہ میکسیکو اور
کینیڈا کی طرف سے امریکہ سے ملنے والی سب سرحدیں بھی بند کر دی گئیں ہیں۔اب
نیویارک جانے کے لئے میرے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا، وہ یہ کہ میں آج سے
تیسرے دن یعنی جمعرات 13ستمبر کی نیویارک کیلئے ٹکٹ خرید لوںاور میں نے
ایسا ہی کیا۔
جاری ہے |