جمعرات کی ٹکٹ خریدنے کے بعد میں
دوبارہ دفتر پہنچی اور اگلے دن ہمارے پورے عملے نے مل کر گیارہ ستمبر کے
واقعات پر مشتمل سنڈے ایکسپریس کا ضخیم شمارہ تیار کیا۔جس میں تمام حالات
کی بھرپور رپورٹنگ کی گئی تھی۔
جمعرات کی صبح تین بجے میں پھر گھر پہنچی، اپنا ضروری سامان اُٹھایا اور
ہیتھرو ائیر پورٹ چلی گئی۔ وہاں انکشاف ہوا کہ فلائٹ ایک مرتبہ پھر منسوخ
ہو چکی ہے اور اب امید ہے کہ میں اگلی صبح نیویارک کیلئے روانہ ہو سکوں
گی۔اگلی صبح جمعہ کے دن میں پھر ہیتھرو میں تھی،جہاں مجھے بتایا گیا کہ
نیویارک جانے کیلئے سیٹ حاصل کرنا چاہوں تو مجھے ایک طویل قطار میں کھڑا ہو
نا پڑے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس قطار میں جا لگی۔ کافی دیر بعد میں
کائونٹر کے پاس پہنچ چکی تھی اور جلد ہی میرا نمبر آنے والا تھا کہ میرے
موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔ یہ میرا نیوز ایڈیٹر جم تھا ۔جم نے مجھے یہ بتا
کر حیران کر دیا کہ اب مجھے نیویارک کی بجائے سیدھی اسلام آباد جانا ہے۔جم
کے اس فیصلے کا محرک کیا تھا میں اس سے بے خبر تھی لیکن مجھے سخت افسوس ہو
رہا تھا کہ میں ان حالات میں نیویارک جانے سے رہ گئی اور اس کے بجائے مجھے
ایشیائ جانا پڑ رہا ہے۔ میں نے جم کے فیصلے پر اعتراض کرنا چاہا تو اس نے
فوراً کہا کہ اصل داستان اب افغانستان اور پاکستان سے شروع ہو نے والی ہے۔
لہٰذا اب ہمیں وہاں موجود ہونا چاہئے۔
’’اچھا جاتی ہوں، اسلا م آباد کا ٹکٹ لینے۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا اور اسلام آباد کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے چل
دی۔ مگر وہاں جا کر بھی معلوم ہوا کہ برٹش ائیر ویز نے اس روز اسلام آباد
کیلئے اپنی تر پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔اس طرف سے مایوسی کے بعد میں امارات
ائیر لائن کے ڈیسک پر پہنچی۔وہاں سے لندن تا لاہور براستہ دوبئی ٹکٹ حاصل
کیا اور جہاز میں جا بیٹھی۔ دوبئی تک سارا سفر کمپیوٹر پر مختلف گیمز
کھیلتے گزرا اور آخر میں جب میں نے ایک کھیل ختم کرتے ہوئے کمپیوٹر کو شکست
دے دی تو ہمارا جہاز دوبئی ائیر پورٹ پر اُتر رہا تھا۔دوبئی پہنچتے پہنچتے
مجھے احساس ہو چکا تھا کہ حالات کا رُخ واقعی اب اسلام آباد اور افغانستان
کی طرف مڑنے والا ہے۔ لہٰذا مجھے اس وقت وہیں ہونا چاہئے۔
دوبئی سے میں لاہور پہنچی۔ جہاں سے اندرون ِ ملک کی ایک پرواز کے ذریعے
اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئی۔اسلام آباد پہنچ کر مجھے اپنے اخبار کے دفترسے
اطلاع ملی کہ میری رہائش کیلئے ’’بیسٹ ویسٹرن ہوٹل‘‘ میں ایک کمرہ بُک کروا
دیا گیا ہے اور نقل و حرکت کیلئے کرائے کی ایک کار کا انتظام بھی کر دیا
گیا ہے۔ائیر پورٹ سے میں بیسٹ ویسٹرن ہوٹل پہنچی تو استقبالیہ پر موجود شخص
نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ میرے کمرے کی بُکنگ منسوخ کر دی گئی ہے۔
پھر اس نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے ایک دوسرے ہوٹل ’’کرائون پلازہ‘‘ بھیج
دیا ۔یہ ہوٹل دنیا بھر کے صحافیوں سے بھرا ہوا تھا مگر ان میں برطانیہ سے
تعلق رکھنے والا کوئی ایک بھی صحافی نہ تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر مجھے خوشی
ہوئی کہ اپنے ملک سے آنے والی میں ابھی تک اکیلی صحافی ہوں جس نے اس خطے کا
رُخ کیا۔
کرائون پلازہ میں اپنے کمرے میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں نے ہوٹل
استقبالیہ سے رابطہ کر کے کہا کہ مجھے ایک ایسے ڈرائیور کی ضرورت ہے جو
اچھی طرح انگریزی سمجھ اور بول سکے۔ہوٹل استقبالیہ نے فوراً ہی ایک ڈرائیور
کو بلایا اور میں اس کے ساتھ چل پڑی۔لیکن بہت جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ
یہ شخص صرف OKکی حد تک انگریزی جانتا ہے۔ میں واپس ہوٹل میں لوٹ آئی اور
انتظامیہ سے بڑی شائستگی کے ساتھ درخواست کی کہ مجھے انگریزی کی سمجھ بوجھ
رکھنے والا ڈرائیور چاہئے۔ اب کی بار وہ میری بات سہی سمجھے اور انہوں نے
مجھے ایک ڈرائیور کا بندوبست کر کے دیا جو خوب روانی سے انگریزی بول سکتا
تھا۔اس کا نام ’’پاشا‘‘ تھا اور یہ کافی ملنسار اور خوش مزاج قسم کا آدمی
تھا۔
سنڈے ایکسپریس کی طرف سے مجھے جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں یہ بات بھی
شامل تھی کہ میں مقامی ہوٹلوں کی مالکان سے ملوں اور ان سے بھی حالات کی
سُن گن لینے کی کوشش کروں۔میں اس سلسلے میں چند ایک ہوٹل منیجروں سے ملی
اور ضرورت کے مطابق ان سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کی اسٹوری بنا کر
اخبار کو بذریعۂ فون لکھوا دی ۔ یہ کوئی خاص رپورٹ نہ تھی لیکن اس لحاظ سے
میرے لئے انتہائی اہم تھی کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ اخبار میں میری خبر چلنے
کے ساتھ ساتھ اس کے اوپر نمایاں طور پر یہ الفاظ لکھے گئے:
"Yvonne Ridley in Islamabad"
جاری ہے |