مزارشریف میں
اس دوران ائیر پورٹ پر یہ افواہ پھیلی کہ مزار شریف میں بعض مقامات پر گڑ
بڑ ہورہی ہے اور چند نامعلوم افراد نے دو طلبہ کو جو شہر میں گشت کررہے تھے،
شہید کردیا ہے۔ اس خبر کو سن کر بہت سے افراد نے اپنے نام کٹوا دئیے اور
خود واپس چلے گئے۔ ہم نے بھی اپنے بعض ساتھیوں سے جو بیمار تھے، کہا کہ وہ
واپس چلے جائیں ،معلوم نہیں آگے کن حالات کا سامنا کرنا پڑے؟ لیکن وہ نہ
مانے اور پھر ہم سب نے طے کرلیا کہ کچھ بھی ہو ،ہماری تشکیل چونکہ مزار
شریف کی ہے، لہٰذا ہم ضرور جائیں گے۔ اتنے میں پھاٹک کی طرف سے اعلان میں
ہمارا نام لیا گیا اور ہم چاروں ساتھی اپنا سامان اٹھائے پھاٹک پر پہنچ گئے۔
جہاں ہماری بھی تلاشی لیکر ہمیں جہاز کی طرف بھیج دیا گیا۔
اس وقت میدانِ ہوائی پر تین چار فوجی طیاروں کے علاوہ افغانستان کی اکلوتی
انٹرنیشنل ’’آریانا ائیر لائن‘‘ کے دوطیارے روانگی کیلئے تیار کھڑے تھے۔
ہمیں آریانا ائیر لائن کے ایک بڑے جہاز میں جگہ ملی۔ اپنی حالت اور سہولیات
کے لحاظ سے یہ جہاز کسی طرح بھی پی آئی اے کے جہاز سے کم نہ تھا۔ بہرحال
ہمارے سوار ہونے کے تقریباً پندرہ منٹ بعد جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا
اور تھوڑی دیربعد فضا میں بلند ہو کر مزار شریف کی طرف پرواز شروع کردی۔ اس
دوران آریا نا ائیر لائن کی طرف سے قہوے سے ہماری تواضع کی گئی۔ پورے سوا
گھنٹے کا سفر ہم نے افغانستان کے مختلف علاقوں کے خوبصورت مناظر کی دلکشی
اور رعنائی میں کھوئے ہوئے گزارا۔ اچانک پائلٹ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ
کچھ دیر بعد ہمارا جہاز مزار شریف کے میدان ہوائی پر اترنے والا ہے۔پائلٹ
کے الفاظ کان میں پڑے تو ذہن اس طلسماتی دنیا سے نکل کر سوچ وفکر کی وادیوں
میںکھو گیا۔
مزار شریف اگرچہ میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا پھر بھی میرے لئے یہ کوئی
اجنبی نام نہ تھا۔ افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ کا یہ مرکزی شہر انتہائی
تاریخی شہرت کا حامل ہے۔ میری اس شہر سے خصوصی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ
یہ شہر دریائے آمو﴿دریائے جیحون﴾ کے کنارے واقع ہے، جبکہ اسی دریا کے اس
پار سرزمین ِبخارا ہے ﴿جسے آج کل ازبکستان اور تاجکستان کہاجاتا ہے اور جو
تاریخ کا طالب علم ہونے کے لحاظ سے میرا پسندیدہ موضوع تھا۔﴾ میں تصور ہی
تصور میں مزار شریف کی سیر میں مگن ہوگیا کہ نجانے وہ شہر کیسا ہوگا جس کی
تاریخ میں اتنی شہرت ہے؟ ابھی ان خیالات میں گم ہی تھا کہ اچانک گڑ گڑ کی
آواز کے ساتھ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کردیا۔
کچھ دیر بعد جہاز رُکا تو تمام طلبائ فرط مسرت سے دروازے کی طرف لپکے اور
پھر باری آنے پر ہم بھی باہر نکل آئے۔ ہمارے ذہن میںمزار شریف کی جدّت و
ترقی کا حال سن کر مزار کے میدان ہوائی کا جیسا نقشہ تھا ،حقیقت اس کے
بالکل برخلاف پائی۔
مزار شریف کے جنوبی پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع یہ میدان ہوائی اگرچہ
قندھار کے مقابلے میں کافی وسیع و عریض ہے، لیکن شکستہ حال عمارت قندھار کے
میدان ہوائی سے بدرجہا بدتر تھی۔ میدان میں ہر طرف کالے، سفید عمامے باندھے
طالبان دکھائی دے رہے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ ہم اندر جا کر انتظار کریں ۔تھوڑی
دیر بعد گاڑی آئے گی تو اس میں سوار ہو کر مزار شریف کے قول اردو﴿چھائونی﴾
میں چلے جائیں گے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھوڑی دیر میدان ہوائی میں
چکر لگایا اور پھر اُن سے کہا کہ نہیں معلوم گاڑی کب آتی ہے، چلو پیدل ہی
چلتے ہیں۔ میری با ت سن کر چار اور ساتھی بھی ہمارے ساتھ ہوگئے۔ ہم آٹھ
آدمیوں نے اپنا سامان اٹھایا اور باہر نکلنے لگے۔
مرکزی دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں جنرل عبدالمالک کا ایک فوجی پہرہ
دے رہا ہے۔ ہم اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوئے کہ سرنڈر ہونے کے بعد اس کا
یہاں بیٹھنا چہ معنی دارد؟ بہرحال میں آگے بڑھا اور اس سے پوچھا:
’’رودِآموکجا است؟‘‘﴿دریائے آمو کہاں ہے؟﴾
ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ قریب کھڑے ایک طالب علم نے ہمیں اس سے
بات کرنے سے منع کردیا اور باہر چلے جانے کو کہا۔ چنانچہ ہم باہر نکلے اور
مرکزی دروازے کے بالکل سامنے سے جو سڑک شہر کی طرف جاتی ہے، اس پر چلنا
شروع کردیا۔ ابھی ہم چند قدم ہی آگے چلے تھے کہ سامنے شہرکی طرف سے طالبان
کو لینے کیلئے ایک ٹویوٹا ہائی ایس گاڑی آگئی۔ ڈرائیور نے گاڑی ہمارے سامنے
روکی اور ہم اس پر سوار ہوگئے۔ گاڑی واپس مڑی اور دوبارہ شہر کی طرف جانے
لگی۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور ڈرائیور سے جو مقامی باشندہ معلوم ہورہاتھا،
معلومات حاصل کرنا شروع کردیں۔ میں نے اس سے دریا آمو کے بارے میں پوچھا تو
اس نے بتایا کہ مزار شریف کے باہر سے ایک روڈ دریا کی طرف جاتا ہے۔ میرے
پوچھنے پر اس نے مزید بتایا کہ گاڑی میں دریا تک ایک گھنٹے کا راستہ ہے۔
ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ مزار شہر سے پانچ کلو میٹر باہر واقع پہلی
چھائونی آگئی۔ جہاں صبح سے ابھی تک پہنچنے والے طالبان ٹھہرے ہوئے تھے۔ہم
سے پہلے پہنچے ہوئے ان ساتھیوں نے بتایا کہ چونکہ اندرون شہر کافی تعداد
میں طالبان بھیجے جا چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف شبرغان سے بھی ہزاروں کی
تعداد میں طالبان شہر میں داخل ہوئے ہیں، لہٰذا آج صبح سے اندرونِ شہر کے
لئے کسی کی تشکیل نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں چونکہ اسلحہ بھی محدود مقدار میں
تھا، لہٰذا صرف انہی مجاہدین کو اسلحہ دیا گیا ہے، جو شہر کے اندر گئے ہیں۔
باقی تقریباً سبھی لوگ چھائونی میںنہتے تھے۔
ہمارے لئے یہ صورتحال کافی تشویشناک تھی، لیکن کر بھی کیا سکتے تھے؟ لہٰذا
خاموش ہورہے۔ یہ چھائونی جہاں ہم رکے تھے دراصل اسلحہ ڈپو تھا جہاں اب صرف
بھاری اسلحہ کا ایمونیشن موجود تھا، جبکہ اسلحہ میں سے صرف وہی باقی رہ گیا
تھا جو چھائونی کے ارد گرد حفاظتی مورچوں میں نصب تھا۔ |