سپریم کورٹ نے گیلانی صاحب
کونااہل کیا قراردیا موبائل فونز پر مبارکبادی پیغامات کاتانتاہی بندھ گیا
یوں محسوس ہورہاتھاجیسے اس بار رمضان شریف سے پہلے ہی عیدآگئی ہوہرکوئی
گیلانی صاحب کے دورکی بدترین کرپشن،بیڈگورننس اور اقرباءپروری پرملامت ایک
فرض سمجھ کے کررہاتھا اوراس کے ساتھ خوش بھی تھاکہ اب کم ازکم صورتحال پہلے
سے کچھ بہتر ہوجائے گی لیکن ان مبارکبادی پیغامات کے جھرمٹ میں ایک پیغام
ایسا تھا جوان سب سے مختلف تھا اور اس میں گیلانی صاحب کی رخصتی پر بڑی
پریشانی ظاہر کی گئی تھی یہ پیغام مجھے ظفرصاحب کی طرف سے موصول ہوا
تھااوکاڑہ کے رہائشی ظفر صاحب حقیقی معنوں میں ایک سوشل ورکراورمحب وطن شخص
ہیں خصوصاََ معذورافراد کے حوالے سے اُن کی خدمات کا میں ہمیشہ دل سے معترف
رہا ہوں خیرمجھے اس مختلف پیغام پر کچھ حیرت ہوئی جس کا اظہار میںنے جوابی
پیغام میں کیا توفوراََ اُن کی کال آگئی جس میں انہوں نے اپنے پیغام کی
وضاحت یوں کی کہ''ایک گدھے نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ یااللہ میرامالک
بہت سخت ہے مجھ سے کام بہت لیتا ہے لیکن میری خوراک بہت کم ہے تو رحیم و
کریم ہے تو میرا مالک بدل دے اللہ تعالی نے اس کی دعاکو شرفِ قبولیت بخشا
اور اس کا مالک تبدیل ہو گیا اب وہ ایک کمہار کے پاس تھا جو پہلے سے بھی
سخت تھا گدھے نے چنددن تو گزاراکیا لیکن جب بات اس کی برداشت سے باہر ہونے
لگی تو وہ پھر اللہ کے حضور یوں گویا ہوا کہ یاباری تعالیٰ یہ مالک تو پہلے
سے بھی جابر ہے دن بھر مجھ پر برتن ڈھوتا ہے اور رات کو چارا بھی نہیں
ڈالتا یااللہ رحم فرماتے ہوئے میراایک بار پھر مالک بدل دے اللہ تعالیٰ نے
پھر اس کی دعا قبول فرمائی اور گدھا ہنسی خوشی چنددنوں میں نئے مالک کے پاس
تھا لیکن اس کی یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب اسے پتہ چلا کہ اس کا نیا
مالک تو ایک موچی ہے جو پہلے دونوں سے بڑھ کے ظالم ہے کہ پہلے والے تو چلو
زندگی میں تکلیف دیتے تھے لیکن یہ موچی صاحب تو مرنے کے بعد بھی میری کھال
اتار کے جوتیاں بنا ڈالیں گے لیکن اب کی بار اس نے اللہ سے فریاد کرنے کی
بجائے اس کی حکمت و رضا کے سرتسلیم کرلیا کہ اگراب دعاکی تو نہ جانے
نیاآنیوالامیرے ساتھ کیاسلوک کرے گا''ظفرصاحب نے کہاکہ ہماری مثال بھی اس
گدھے جیسی ہی ہے جو ہر نئے سربراہ مملکت کو اپنے لئے مسیحا سمجھ کر خوشی سے
پھولی نہیں سماتی لیکن جلد ہی اس کا اصل چہرہ اور داغداردامن دیکھ کر اس سے
بددل ہوکر اس کے جانے کی دعائیں کرنے لگتی ہے لیکن ہرآنیوالا پہلے والے سے
بڑھ کر ستم گر ہوتا ہے ظفر صاحب نے آخرمیں یہ کہہ کرفون بندکردیاکہ ہمارے
ساتھ ایسا اس وقت تک ہوتارہے گا جب تک ہم خود کو سدھار نہیں لیتے کیوں کہ
یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جیسے تم ہوگے ویسے ہی تمھارے حکمران ہوں گے ''ظفر
صاحب کی یہ بات اس وقت حرف بحرف درست ثابت ہوئی جب سابق وزیرِ لوڈشیڈنگ
راجہ پرویزاشرف المعروف راجہ رینٹل کو وزارت عظمیٰ کیلئے چن لیاگیا جن کے
بارے میں 30مارچ کو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور منصوبوں میں 455ارب روپے کے
گھپلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کا حکم دیا تھا یہ موصوف
وہی ہیں جنہوں نے 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے آتے ہی یہ فرمان جاری
کیا تھا کہ'' ہم نے کالا باغ ڈیم منصوبہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا ہے اور مردے
کبھی زندہ نہیں ہوتے''حالاں کہ ملک کی ایک بڑی اور اکثریتی پارٹی ہونے کی
وجہ سے پی پی پی حکومت کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کرکے اس عظیم
منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی تھی جس سے نہ صرف ہمیں سستی بجلی ملتی
بلکہ یہ قوم اس طرح خوفناک اندھیروں کا شکار بھی نہ ہوتی لیکن لگتا ہے قوم
کو اندھیرے میں رکھنا ہی راجہ صاحب کا ٹارگٹ تھااور بڑی منصوبہ بندی کے
ساتھ قوم کے سامنے رینٹل پاور پروجیکٹ کاراگ الاپا گیا جس کا نتیجے میں قوم
کو بجلی تو نہ ملی البتہ وقتاََ فوقتاََ بجلی کی قیمتوں کے بڑھنے کی صورت
میں بجلی کے جھٹکے ضرور لگتے رہے اور آخر کار ان منصوبوں میں455ارب روپے کی
ہوشربا کرپشن کا بھانڈا سپریم کورٹ نے پھوڑ دیا۔اب راجہ صاحب وزارت عظمیٰ
کے منصب پر پہنچے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس وقت ملک کو درپیش گھمبیر
مسائل سے نکالنے میں کیا کردار اداکرتے ہیں جن میں سب سے پہلے تو سوئس حکام
کو خط لکھنے کا معاملہ ان کے سامنے آئے گا اس کے لود شیڈنگ بحران پر قابو
پانا بھی ان کی اولین زمہ داری ہونی چاہئے اگر وہ ان دو بحرانو ںسے حکومت
اور عوام کو نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اُن کی وزارت عظمیٰ
بھی چند دنوں کی مہمان ہی ثابت ہوگی۔ |