﴿ایون ریڈلی اسلام آبادمیں ﴾
اسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ برطانوی اخبار ’’میل آن سنڈے ‘‘کا نمائندہ بھی
پاکستان آنے کیلئے سفر میں ہے، لیکن ابھی تک وہ دوبئی ائیر پورٹ پر پھنسا
ہوا ہے۔یہ رپورٹر ’’ایان گلاگر‘‘ تھا،جس سے میں پرانی واقف تھی۔
گلاگر کے پاکستان پہنچنے کے بعد اتوار کے دن وہ اور میں ،دونوں صوبہ سرحد
کے ضلع نوشہرہ میں واقع مشہور اسلامی یونیورسٹی میں گئے۔اس یونیورسٹی کا
نام ’’دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک‘‘ ہے۔ دارالعلوم جانے سے پہلے جب میں نے
پاشا کو بتا یا کہ میں ایک اسلامی مدرسہ دیکھنا چاہتی ہوں تو اس نے مجھے سر
پر دوپٹہ لینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ہم راولپنڈی چلے گئے اور ایک دوکان سے
سیاہ رنگ کی پشمینہ شال خریدلی۔ میں نے پاشا سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ
یہاں کے مقامی ثقافتی مسائل اور تہذیبی معاملات میں میری صحیح صحیح
راہنمائی کرے ورنہ اگر مجھ سے کوئی غیر تہذیبی حرکت یا بات صادر ہوئی تو اس
کی ساری ذمہ داری پاشا پر ہی ہو گی۔ میں نے پاشا سے کہا تھا کہ پوری
دیانتداری بلکہ سخت دیانتداری سے میری راہنمائی کرنا کیونکہ میں اس سے پہلے
تمہارے ملک میں کبھی نہیں آئی ۔ پاشا کی راہنمائی کے مطابق میں نے ایک سیاہ
لمبا لباس اور پیروں میں اونچی اَیڑی والے سینڈل پہن لیے۔
جب ہم صوبہ سرحد کے شہر نوشہرہ میں اس ’’یونیورسٹی‘‘ ﴿جامعہ دارالعلوم
حقانیہ اکوڑہ خٹک﴾ کے قریب پہنچے تو ایک غیر نمایاں قسم کی چونے سے سفید
شدہ عمارت دکھائی دی جس کے اوپر ایک جانب سادہ سا گنبد بنا ہوا ہے۔ اسے
دیکھ کر مجھے یہ بمشکل ہی یقین آ سکا کہ یہ مسلم دنیا کے نمایاں ترین دینی
اداروں میں سے ایک ہے۔ تاہم مجھے پتہ چلا کہ ہر سال ہزاروں باریش نوجوان
یہاں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور ان میں سے 90فیصد اپنے ہیرو اُسامہ بن
لادن اور طالبان کو دیکھنے کیلئے افغانستان پہنچتے ہیں۔ بن لادن کے پاس اس
انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری بھی ہے، اس یونیورسٹی کو
’’جامعہ حقانیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سیاسی طور پر بھی بہت اہمیت اختیار کر
گئی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ امریکی اسے ’’اسکول برائے دہشتگردی‘‘ کہیں گے ، لیکن جہاں
تک اساتذہ کا تعلق ہے یہ ’’مرکز علوم عالیہ‘‘ (Centre Of Academic
Exellence) اور ہارورڈ، آکسفورڈ یا کیمبرج کے بالکل مساوی سطح کا علمی
ادارہ ہے۔یہاں کا آٹھ سالہ کورس اسلامی علوم کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے،
دنیا بھر کے مسلم نوجوان اس کی طرف مقناطیس کی مانند کھنچے چلے آتے ہیں، اس
کے سربراہ مولانا ﴿پروفیسر﴾ سمیع الحق ہیں، جو دفاع افغانستان و پاکستان
کونسل کے چیئر مین بھی ہیں، انہیں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مولانا سمیع الحق ان دنوں اکوڑہ خٹک سے باہر تھے۔ لہٰذا ہماری ملاقات ان کے
بیٹھے حامد الحق حقانی سے ہوئی اور مختلف حالات پر بات چیت ہوئی۔
دارالعلوم حقانیہ سے روانگی کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ طالبان نے پاکستان کو
خبر دار کیا ہے کہ اگر اس نے مغرب سے تعاون کیا تو سخت نقصانات سے دوچار ہو
گا۔چند دنوںبعد ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان نے روسی ساخت کا چار
خوفناک سکڈ میزائل لانچر پاکستان سے ملنے والے افغان علاقے طورخم میں مسخ
کر دئیے ہیں اور ان کا رُخ پاکستان کی طرف ہے۔
اب میر ا ارادہ افغانستان جانے کا ہے اور جب میرے اس ارادے کی خبر’’ ڈیلی
ایکسپریس‘‘ کے نیوز ایڈیٹر ڈیوڈ لی کو ہوئی تو وہ اس پر بہت ہنسا۔اس نے مجھ
سے کہا کہ تمہیں افغانستان جانے سے کیا ملے گا؟ اسے چھوڑو اور افغان
مہاجرین کے کیمپوں میں جائو دیکھو وہاں سے کیاکیا خبریں ملتی ہیں۔
ڈیوڈ لی کے کہنے کے مطابق میں نے افغان مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کا بھی
پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں ایک مقامی فوٹو گرافر اورصحافی کے ساتھ میں نے
ایک افغان مہاجر کیمپ کا رُخ کیا ۔ میں اس کیمپ میں داخل ہوئی تو بچوں کی
ایک پوری فوج میرے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔جب میں ٹھہرتی تو وہ بھی ٹھہر جاتے
اور جب میں چلتی تو وہ بھی چلنے لگتے یہ سب مہاجر بچے تھے اور پر تجسس
انداز میں میرا پیچھا کر رہے تھے۔ میں نے چاہا کہ میرا تعاقب چھوڑ دیں لیکن
انہوں نے میری درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
میں اس کیمپ میں ایسے افراد کی تلاش میں تھی جو حال ہی میں تازہ صورتحال سے
متاثر ہو کر افغانستان سے یہاں پہنچے ہوں۔لیکن میرے ہمراہیوں نے بتایا کہ
میرا یہ مقصد پشاور کے قریب واقع جلوزئی کیمپ میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ
پاکستان کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ تھااور جب ہم لوگ اس میں پہنچے تو وہاں
بہت سے دلگداز مناظر دیکھنے کو ملے۔بعض افغان مہاجرین انتہائی کسمپرسی کے
عالم اور ناگفتہ بہ حالت میں دکھائی دے رہے تھے۔ اس کیمپ میں مہاجروں کے
گھر گارے اور کچی اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔
جاری ہے |