طالبان کی قید میں ۰قسط 4

جلوزئی کیمپ میں داخل ہونے کے بعد میں ایک طرف جا رہی تھی کہ اتنے میں سامنے کا ایک منظر دیکھ کر مجھے اپنی سانس رُکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایک بچی چولہے کے پاس بیٹھی کیتلی میں سے اُبلتے ہوئے پانی میں پتلی سی چھڑی باربار ہلا رہی تھی۔ وہ اپنے کولہوں کے بل اس طرح بیٹھی تھی کہ اس کا زردی مائل سانولا بے داغ چہرہ اس کے میلے کچیلے گھٹنوں پر ٹکا ہوا تھا، اس کی بڑی بڑی اور گول گول بھوری آنکھیں چہرے پر بہت نمایاں تھیں۔ اس کی خمیدہ زُلفوں کی بکھری ہرئی لٹیں اس کے اداس خدوخال کو مزید نمایاں کر رہی ہیں اور وہ آگ اور اُبلتی ہوئی کیتلی کے خطرناک حد تک قریب بیٹھی تھی۔

یہ تو کسی بھی سانحہ کیلئے ایک دعوت تھی، لیکن میری سانس اس کیو جہ سے نہیں رُک رہی تھی، یہ بچی تو میری ڈیزی ہو سکتی تھی، دونوں تقریباً تقریباً ایسی جیسی تھیں۔ میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور گلا بھینچ گیا۔

میری بچی اس وقت ایک صاف ستھری اور استری شدہ یونیفارم پہنے اپنی دوستوں کے ساتھ اس سکول میں ہو گی جو بیٹرکس پاٹر کے مضافات میں لیکن ڈسٹرکٹ کی خوبصورت پہاڑیوں میں بنا ہوا ہے اور وہاں سے جھیل ﴿لیک ونڈر میئر﴾ کا حسین منظر دکھائی دیتا رہتا ہے۔ وہ ہر رات دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے بعد گرم پانی سے غسل کرکے اجتماعی خواب گاہ میں جاتی ہے اور سونے سے پہلے ان کے ساتھ ایک دوسری پر تکیے پھینکنے کی لڑائی کا شوق بھی پوری کر لیتی ہے۔

ہر صبح اُٹھنے کے بعد گرم گرم ناشتہ کرتے ہوئے بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس کا ہنچی مذاق اور چھیڑ چھاڑ جاری رہتی ہے۔ ڈیزی آدھی فلسطینی ہے اور دوسرے فلسطینی بچوں کی بہ نسبت اسے مراعات بھی زیادہ حاصل ہیں۔

پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس یہ ننھی افغان بچی، اکیلی اور ناخوش بیٹھی ہوئی تھی، اس کی کوئی تعلیم نہ ہو سکی، نہ اس کے پاس کھلونے تھے اور نہ اس کی آنکھوں میں اُمید کی کوئی جھلک تھی۔ اس کی واحد تفریح یہ کیتلی تھی جس میں کھولتے ہوئے پانی کے چھینٹے کسی بھی وقت اُڑ کر اس کی خالص زردی مائل جلد پر آبلے ڈال سکتے تھے۔ اسے کوئی پتہ نہیں تھا کہ اس کے لئے اگلے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا، اور وہ اس دوزخ نما کیمپ میں مایوسیوں میں گھری بیٹھی تھی۔

زندگی کی ناانصافیوں کا کوئی شمار ہی نہیں۔ اس بے چاری سے کون سی غلطی سرزَد ہوئی تھی کہ یہ اس قسم کے حالات کی سزا وار ٹھہری؟ ان باتوں سے کسی وقت تو انسان اپنے ایمان کو مشکوک سمجھنے لگتا ہے، خواہ آپ کا مذہب کوئی بھی ہو۔ اس من موہنی ، بچی کی یہ کیفیت پتہ نہیں کب تک مجھے پریشان رکھے گی۔

عجیب اتفاق ہے کہ آپ خواہ کتنے ہی صرف اپنے پیشے سے مطلب رکھنے والے ہوں کبھی نہ کبھی ایساہوتاہے کہ کوئی واقعہ آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ جب بھی اس پیاری سی بچی کا خیال آتا ہے تو میں گلو گرفتہ ہو جاتی ہوں۔

جب ہم کیمپ کے مختلف حصوں میں گھومنے لگے تو ہم غفّار بیگ کے ذریعے ہر کسی سے کچھ نہ کچھ پوچھتے رہے وہ افغانی بولی ، پشتو میں گفتگوکرتا تھا۔ پھر پاکستان کی زبان اُردُو میں پاشا کو بتاتا ۔ جو مجھے انگلش میں مطلب سمجھا دیتا۔ اس طرح ہم ایک بڑی ٹیم بن گئے، پشتو، اُردُو اور انگلش تینوں زبانیں چل رہی تھیں۔ جس سے ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ کا قیام عمل میں آگیا۔

اس روز ہمیں سویرے سویرے پتہ چلا کہ بعض افغان مہاجرین نے بی بی سی کے عملے پر پتھرائو کیا ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ برطانیہ ان کے ملک پر فضائی حملے کرنے والا ہے ، وہ دوسرے مغربی جرنلسٹ بھی اس پتھرائو کی زِد میں آئے۔ میرا خیال ہے کہ مہاجرین کے اندر یہ احساس پیدا ہونے لگا تھا کہ ان کی چڑیا گھر کے جانوروں کی طرح نمائش لگا دی گئی ہے، جو کوئی بھی باہر سے آتا ہے، اسے خیمہ بستیاں دکھائی جاتی ہیں۔ مہاجرین نے میڈیا کی ’’مداخلت‘‘ پر اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا، میں ان کے احتجاج کو ناجائز نہیں سمجھتی۔

میں نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ امدادی ایجنسیاں ، اب وہاں نہیں تھیں، ان کے دفاتر خالی پڑے تھے۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ انہیں پاکستانی حکام نے کیمپوں سے چلے جانے کا کہا تھا کیونکہ انہیں یقین نہیںتھا کہ افغانستان امریکی اور برطانوی بمباری کی صورت میں افغان مہاجرین کا ردّ عمل کیسا ہوگا۔ یہ شبہ بھی تھا کہ ممکن ہے کہ مہاجرین نے کیمپوں کے اردگرد اسلحے کی بھاری مقدار چھپا رکھی ہو اور اس صورت میں وہ دوبارہ لڑنا شروع کر دیں۔

افغان پیدائشی طور پر لڑاکا ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر تیرہ چودہ سال کی عمر کو پہنچتے ہی خود کار ہتھیار یا کلاشنکوف خرید لیتے ہیں۔ لڑائی بھڑائی ان کی قومی تفریحی ہوتی ہے اور صدیوں سے ایسا ہی چلا آ رہا ہے ، کبھی آپس میں لڑتے ہیں اور کبھی مداخلت کاروں کے خلاف صف آرائ ہو جاتے ہیں۔ لیکن مجھ پر یہ انکشاف بعد میں ہونے والا تھا کہ ان کی عورتوں کا خمیر، ان کے مردوں کی مٹی سے بھی زیادہ سخت جگہ سے اُٹھایا گیا ہے۔

پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں لاکھوں افغان رہتے ہیں اور پشاور کو کئی پہلوئوں سے توسیع شدہ افغانستان سمجھا جاتا ہے۔مجھ پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان پر بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا تو ان کی اِس مہم کو ملک کے اس حصے سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔

جلوزئی مہاجر کیمپ سے واپس آکر اگلے دن میں پاشا کے ساتھ افغان سفارت خانے گئی اور ویزہ کیلئے درخواست دی۔سفارتخانے جاتے ہوئے میں نے سرپر سکارف لگا رکھا تھا اور میرا پورا بدن ماسوائے پائوں کے ڈھکا ہوا تھا۔ لباس کا یہ اہتمام کرکے میں افغان سفارتکاروں کو یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ میں ان کی تہذیب اور ثقافت کا احترام کرتی ہوں۔ لیکن سفارتکار میرے اس حلیے سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا اور اس نے میری درخواست بھی کاغذوں کے اس ڈھیر پر ڈال دی جہاں پہلے ہی کم وبیش پچاس اور درخواستیں رکھی ہوئی تھیں۔مجھے اُمید تھی کہ اگلے روز نو بجے تک میرا ویزا تیار ہو جائے گا۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.