اخوان کامیابی مصر میں اسلامی
انقلاب کی پہلی کرن۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مکافات عمل ایک اٹل حقیقت ہے ،ازّل سے قدرت کا یہی دستورچلا آرہا ہے کہ ہر
انسان کو اپنے کیے کا بدلہ ضرور چکانا ہے،تین عشروں تک مصر پر حکمرانی کرنے
والے اور مصریوں کی قسمت کے مالک بنے رہنے والے حسنی مبارک کے وہم وگمان
میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن اُسے صدراتی محل چھوڑکر عدالتوں کا سامنا کرنے
پڑے گا اور اپنی بقیہ زندگی جیل یا ایام حراست میں بستر مرگ پر گزارنی پڑے
گے،اسی طرح بارہا جیل جانے والے اور زنداں کی سلاخوں کے پیچھے اپنی آزادی
کے خواب دیکھنے والے محمد مرسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ ہوگی کہ
ایک دن جیل سے نکل کر وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب صدارت پر فائز ہوجائیں
گے،یہی مکافات عمل ہے ،سچ کہتے ہیں وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا،سیاہ رات کے
بعدروشنی کی کرن کا پھوٹناایک طے شدہ اَمر ہے۔
آج مصر میں انقلاب نو کی پہلی کرن طلوع ہوچکی ہے،60سال کے بعد یہ پہلا موقع
ہے کہ ایک غیر فوجی اور مذہبی شخصیت 51.7 فیصد ووٹ لے کر منصب صدارت پر
فائز ہوچکی ہے، جس وقت محمد مرسی کی کامیابی کا اعلان ہوا ،اُن کی آنکھوں
سے تشکر کے آنسورواں اور جبیں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز تھی ،مصر کے بازار
وقت سے پہلے بند ہوچکے تھے، تحریر اسکوائر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا
تھا اور مصر کی سڑکیں،چوک، میدان و مساجد محمد مرسی کی کامیابی پرمصریوں کے
سجدہ _¿شکرکے مناظر پیش کررہی تھیں کہ قدرت نے انہیں پہلی بار اپنی مرضی سے
اپنا لیڈر منتخب کرنے کا موقع عطا فرمایا تھا،بلاشبہ محمد مرسی مصر کی
تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہیں مصر کے عوام نے خود منتخب کیا،اُن کا تعلق اُس
اخوان المسلمون سے ہے جو 9عشروں سے مسلسل مصری حکمرانوں کے ظلم ،جبر اور
عتاب کا شکار رہی ہے،یہ وہی اخوان المسلمون ہے جسے دنیائے عرب کی سب سے بڑی
اسلامی تحریک کا اعزاز بھی حاصل ہے،جسے 1928میں حسن البناء نے قائم کیا تھا
اور جنھیں 12فروری 1949ءکوشاہ فاروق کے حکم پر رات کی تاریکی شہید کردیا
گیا تھا۔
جب رات کے پچھلے پہر حسن البناءکی شہادت کی خبر اُن کے بوڑھے والدشیخ احمد
عبد الرحمن البناءتک پہنچائی گئی توانہوں نے بے ساختہ کہا ”سبحانک وعدالتک
یاربی لقد قتلواوولدی“(اے اللہ تو ہرعیب سے پاک ہے،تیرا عدل برحق ہے، اے
میر ے ربّ ظالموں نے میرے بیٹے کو قتل کردیا ہے )، صبح طلوع آفتاب کے بعد
حسن البناءکا جسد خاکی مسلح پہرے اُن کے گھر لایا گیا، لوگوں کو جنازے میں
شرکت اور تعزیت سے روک دیا گیا،چنانچہ حسن البناءکا جنازہ اُن کے بینائی سے
محروم 90سالہ بوڑھے والد،اہلیہ بہن اور 18سالہ بیٹی نے اٹھایا،اہل خانہ نے
سنگینوں کے سائے میں جامع مسجد قیسو م میں نماز جنازہ ادا کی اور امام
شافعی کے قبرستان میں حسن البناءکو سپرد خاک کردیا، بے بسی کے اِس عالم میں
شہید کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے جواں سال بیٹی کے کہے ہوئے تاریخی
جملے”باباجان آپ کے جنازے کے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں ہے،زمین والوں کو روک
دیا گیا ہے،مگر آسمان والوں کوکون روک سکتا ہے،آپ کے جنازے کے ساتھ شہداءکی
روحوں کاقافلہ چلا آرہا ہے، آپ اطمینان کے ساتھ اپنے ربّ اعلیٰ کے پاس
جائیے،آپ نے جو پیغام ہمیں دیا ہے،وہ زندہ رہے گا،جو جھنڈا ہمیں تھمایا
ہے،وہ سربلند رہے گا۔ “ آج حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔
گو کہ حسن البناءکی شہادت کے بعد حکمرانوں نے شہید کے رشتہ داروں کو پابند
سلاسل کردیا، اخوان پر پابندی عائد کردی، جماعت سے تعلق رکھنے والے باغی
اور معتوب قرار دیئے گئے،شیخ عبدالقادر عودہ ،شیخ محمدفرغلی ،یوسف طلعت
،ابراہیم الطیب،ہنداوی دویر اور سید قطب شہید سمیت بہت سے افراد تختہ دار
پر لٹکائے گئے ،حسن اسماعیل الہضیبی کوپہلے سزائے موت سزا سنائی پھر اُسے
عمر قید میں تبدیل کردیا گیا، اسماعیل الہضیبی،محمد قطب ،استاذ صالح
ابورفیق،محمد فرید عبدالخالق،سیدہ زینب الغزالی،حسن الہضیبی کی اہلیہ ،
صاحبزادی، سید قطب کی بہن اور ہزاروں مرد و خواتین کو جیلوں میں ڈال دیا
گیا،اخوان سے تعلق کے جرم میں لوگوں کو اذیتیں دی گئیں، کوڑے مارے گئے،
املاک وجائیدادیں ضبط کی گئیں ،جلاوطن کیا گیا،اخوان المسلمون پر زندگی تنگ
کردی گئی ، بظاہر جماعت کا وجود ختم کردیا گیا ،مگرذہن و قلب سے حسن
البناءکا پیغام محو نہ ہوسکا، آمریت،ظلم استبداد اور سازش کا کوئی وار
اخوان کو اپنے نظریئے، مقصد اور نصب العین سے پیچھے نہ ہٹا سکا اور ابتلاءو
آزمائش کے مشکل ،کٹھن اور طویل دور میں بھی یہ قافلہ سخت جاں آگے بڑھتا
رہا۔
یہاں تک کہ24جون2012ءکو امیدو روشنی کی پہلی کرن پھوٹی، قید وبندشہادتوں
اور مصیبتوں کے بعد اخوان کو محمد مرسی کے حلف اٹھانے اور اقتدار سنبھالنے
کی صورت میںپہلی فتح نصیب ہوئی،اِس وقت مصر کی حکمران فوجی کونسل کے سربراہ
فیلڈ مارشل محمد طنطاوی باضابطہ طور پر اقتدار صدر مرسی کے سپرد کرچکے ہیں
،مگر اسلامی انقلاب کی حقیقی منزل ابھی بہت دور ہے،راہ_¿ پیچیدہ و دشوار
سہی مگر نو منتخب صدر پر عزم ہیں،حلف برداری کے بعد قاہرہ یونیورسٹی میں
خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُس پارلیمان کو( جسے فوج نے
تحلیل کر دیا تھا) بحال کریں گے جو ایک منصفانہ اور شفاف انتخابات کے نتیجے
میں وجود میں آئی اورجس پر ایک نئے جمہوری آئین کی تیاری کیلئے اعتماد کیا
گیا تھا،اُن کا کہنا تھا کہ فوج کو لازماً عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے
اور وہ اپنے اصل کام ملک کے عوام اور اُس کی سرحدوں کی نگہبانی سنبھالے،اِس
موقع پرانہوں نے آئین پرعملدرآمد، اداروں کے احترام اور شہریوں کے تمام
حقوق کے تحفظ کا بھی اعادہ کیا۔
سرکاری تقریب حلف برداری سے قبل محمد مرسی نے قاہرہ کے تحریرا سکوائر میں
ہزاروں کے مجمع کے سامنے اپنے منصب کا غیر رسمی حلف بھی اٹھایا اورمجمع سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں،اب مصر میں
اقتدار اور حاکمیت کا منبع عوام ہیں، تحریر اسکوائر میں جمع عوام کو محمد
مرسی نے یقین دلایا کہ وہ صدر کے کسی بھی اختیار سے دستبردار نہیں ہوں گے،
محمد مرسی نے مصری عوام سے وعدہ کیا کہ فوج کی طرف سے حراست میں لیے گئے
تمام شہریوں کو رہا کیا جائے گا اور اُن تمام لوگوں کے لواحقین کو انصاف
فراہم کیا جائے گا جو حسنی مبارک کے خلاف احتجاج میں جاں بحق ہو گئے تھے،
انہوں نے مصر ی مسلمانوں اور عیسائیوں کو خراج عقیدت پیش کیا،اِس وقت
محمدمرسی مصری معاشرے کے تمام طبقات سے مشاورت کر رہے ہیںجس کے بعد وہ
وزیراعظم اور زیادہ تر ٹیکنوکریٹس پر مشمل کابینہ تشکیل دیں گے۔
قارئین محترم ! آپ کے علم میں ہوگا کہ1952میں مصر میں جمال عبدالناصر کی
بغاوت کے بعد سے انورالسادت اور حسنی مبارک تک فوج ہی اقتدار پر قابض رہی
ہے،60 سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایک غیر فوجی شخصیت کے عہدہ صدارت پر
فائز ہو نے سے مصر میں ایک طویل دور آمریت کا خاتمہ ہوا ہے،دیکھا جائے
تومصر میں اِس طویل دور آمریت کے خاتمے کی کڑیاں تیونس کی عوامی جدوجہد سے
ملتی ہیں، اگرتیونس سے اٹھنے والے عوامی تحریک مصر کو اپنی گرفت میں نہ
لیتی اوراہل تیونس یہ نعرہ نہ لگاتے کہ”مصریو ،اب تمہاری باری ہے۔“ تو شاید
مصری عوام سڑکوں پر نہ نکلتے ،اگر وہ ہر چوک کومیدان التحریر(آزادی چوک) نہ
بناتے تومصر کی صورتحال آج تبدیل نہ ہوتی، گو حسنی مبارک نے عوامی جدوجہد
کو کچلنے اورآخری وقت تک قدم جمانے کی ہر ممکن کوشش کی،مگر جب ملک کی عوام
سڑکوں پر نکل آئے تو پھر کوئی طاقت اِس سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی، حسنی
مبارک کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہونے کے باوجود بھی وہ عوامی سیلاب کے سامنے نہ
ٹھہر سکی ،اُس نے عوامی جذبات ٹھنڈا کرنے اور اقتداراپنی مٹھی میں رکھنے
کیلئے فروری 2011 ءمیںحسنی مبارک کی برطرفی کے بعدفیلڈ مارشل کی قیادت میں
ایک فوجی کونسل بنادی۔
شاید فوجی کونسل یہ سمجھتی تھی کہ اِس طرح عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور
وہ اپنی من مانی جاری رکھے گی ،مگر ایسا نہ ہوسکا اور عوامی مطالبات کے حق
میں اُسے انتخابات کرانے پڑے جس میں اخوان المسلمون کو تاریخ ساز کامیابی
حاصل ہوئی،فوجی کونسل اِس کامیابی کو ہضم نہ کرسکی اور پارلیمنٹ کے آدھے سے
زیادہ ارکان کو فارغ کردیا گیا، دوسری طرف 16اور 17جون کو ہونے والے صدارتی
انتخابات میں رسی نے واضح اکثریت حاصل کی مگر دانستہ اُن کی کامیابی کے
اعلان میں تاخیر کی گئی، آخر کار عوام کو ایک بار پھر سڑکوں پر آنا پڑا،
التحریر اسکوائر پھر آباد ہوا اور بپھرے ہوئے عوامی طوفان کے آگے فوجی
کونسل کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ،چنانچہ بااَمر مجبوری 24جون کو محمد مرسی کی
کامیابی کا اعلان کیا گیا،اِس طرح عالم عرب کے سب سے زیادہ آبادی والے
مصرمیں پہلی بار ایک دیندار مسلمان ایوان صدر میں داخل ہوا، یوںکم و بیش
85سال بعد مصر میں لادینیت کو شکست اوراسلام پسندوں کو پہلی کامیابی نصیب
ہوئی۔
آج مغربی دنیا اور صہیونی و صلیبی حواری مصر میں اخوان المسلمون کی اِس
کامیابی پر بوکھلائے اٹھے ہیں ،وہ ایک دیندار مسلمان کی کامیابی کو”قومی
تقسیم “کا نیا رنگ دے کر اسلام پسندوں کی کامیابی کو مصر کیلئے خطرہ قرار
دے رہے ہیں،دوسری طرف فوجی حمایت یافتہ ہارنے والے امیدوار احمد شفیق اور
اُن کے حامیوں کے نزدیک یہ مصر کیلئے ایک افسوسناک دن ہے کہ ِاس ملک کی
نمائندگی محمد مرسی اور اُن کا گروپ کرے گا، اخوان المسلمون کو بدنام کرنے
کیلئے اسلام دشمن قوتیں ابھی سے یہ پروپیگنڈا بھی کررہی ہیں کہ اخوان شخصی
آزادی پر قدغن لگادے گی اور سیاست میں مذہب کا دخل ہوجائے ،ہمیںحسنی مبارک
کی شخصی آزادی سے کوسوں دور اور مذہب کو سیاست سے ہی نہیں بلکہ معاشرت سے
بھی بیدخل کرنے والی آمریت کو قبول کرنے والوں کے اِس طرز فکر پر قطعاً
کوئی حیرت نہیں ہے۔
درحقیقت یہ وہی عناصر ہیں جنھوں نے حسنی مبارک کے اپنے عوام اور خاص کر
اسلام پسندوں کے ساتھ کیے گئے سلوک پر کبھی کوئی آواز نہیں اٹھائی، کیونکہ
اُن کے نزدیک اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا،اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم پر زبان طعن دراز کرنا،اپنی ترقی کا خاکہ عہد فراعنہ کی تہذیب سے
منسلک کرنا،سابقہ حکمرانوں کی جانب سے اہل مصر کو تحتموت اور رعمسیس کے
فرزند قرار دینا،فرعونی تہذیب کے احیاءکی کوششیں کرنا،مصری کرنسی اور ڈاک
ٹکٹوں پر فرعونی عہد کے نشان”عقاب“اور فرعون کی تصویریں چھاپنا، سڑکوں،
پارکوں، گاڑیوں اور عمارتوں کے نام فرعون کے نام پر رکھنا،لادینیت ،بے
حیائی،فحاشی ،عریانی،شراب نوشی اور جسم فروشی کی سرپرستی اور فروغ دیناکوئی
جرم نہیں تھا،اِن نام نہاد سیکولر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کی آزادی
کے علمبردار عناصر نے لادین مصری حکمرانوں کے خلاف کبھی آواز نہ اٹھائی۔
مگر آج ایک دیندار شخص کے مصری صدر منتخب ہونے پراُن کے پیٹ میں اِس لیے
درد ہورہا ہے کہ محمد مرسی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے جو مصر میں اسلامی
نظام کی داعی اور مصری نظام و قانون کو شریعت اسلامیہ کی بنیادوں پر استوار
کرکے قرآن و سنت کی حکمرانی قائم کرنا چاہتی ہے ،آج یہ تحریک مصر کی
سرحدوںسے نکل کر سوڈان ،اردن،شام،عراق اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک
میں پھیل چکی ہے اورعرب ممالک کے حکمران اخوان المسلمون کے مذہبی ایکٹوزم
سے خوفزدہ اور ڈر ر ہے ہیں کہ کہیں مصر میں آنے والے تبدیلی کی لہراُن کے
ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لے،یہی خوف انہیں آمادہ مخالفت کیے ہوئے
ہے ، دوسری طرف تاریخ ساز کامیابی کے باوجود نو منتخب صدر کو ا بھی کئی اہم
چیلنجزکا سامنا ہے، جس میں سب سے اہم معاملہ اُن ایک تہائی ارکان جو پارٹی
وابستگی کی بنیاد پر منتخب ہوئے کی بحالی اورنئے اسلامی آئین کی تیاری کے
ساتھ اُس آرڈیننس کی منسوخی ہے جسے کے ذریعے فوجی سپریم کونسل نے صدر کے
اختیارات کو محدود کرکے بجٹ اور قانون سازی سے متعلق بعض اہم اختیارات اپنے
دائرہ اختیار میں کرلیے ہیں۔
یہاںیہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ محمد مرسی کی کامیابی کے باوجود
اُن کے مدمقابل کمزور نہیں ہیں،گو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے ڈھائی
کروڑ ووٹروں میں سے ایک کروڑ بتیس لاکھ نے اخوان کے امیدوار کے حق میں رائے
دی ہے مگر اُن کے مدمقابل امیدوار نے بھی ایک کروڑ تئیس لاکھ ووٹ حاصل کیے
ہیں،دیکھا جائے تو مجموعی فرق صرف نولاکھ ووٹوں کا ہے جو بہت زیادہ اہمیت
نہیں رکھتا،یہ نتائج اِس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر لبرل اور سابق صدر
کے حامی عناصر عدم تعاون پر کمر باندھ لیں تو اخوان کیلئے کامیابی سے حکومت
چلانا اور اپنے مقاصد کوحاصل کرنا آسان کام نہیں، اخوان قیادت کو بھی اِس
حقیقت کا ادراک ہے،یہی وجہ ہے کہ نومنتخب صدر نے صرف اخوان کے بجائے قومی
حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے،انہوں نے حلف برداری سے قبل ہی اخوان
المسلمون سے اپنی وابستگی ختم کرلی ہے اور اخوان کی سیاسی جماعت عدل و
تعمیر پارٹی کی صدارت سے بھی علیحدگی اختیار کرکے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے
عزم کا اظہار کیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان چیلنجز سے کس طرح عہدہ
براںہوتے ہیں اور کیونکہ سیکولر و لادین عناصر کیلئے قابل قبول بننے کی
کوشش میں دین و شریعت پر کسی سمجھوتے سے بازرہتے ہیں۔
یقینا چیلنجز سخت کٹھن اور دشوار ہونے کے باوجودصدر مرسی کے پیش نظر یہ
حقیقت بھی ہوگی کہ اخوان المسلمون کی کئی عشروں پر مشتمل جدوجہد کسی سیکولر
یا مغربی جمہوری نظام کیلئے نہیں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ صدر مرسی اخوان
المسلمون کے نصب العین، مقاصد اور اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کس
حد تک کامیاب ہوتے ہیں،قارئین محترم !اِن تمام خدشات کے باوجود اِس حقیقت
کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ آج 84سال بعدمصر میں اخوان کی بے مثال
کامیابی ایک ایسی اسلامی فلاحی جمہوری انقلاب کی علامت کے طور پر سامنے آئی
ہے جسے تجزیہ نگار مصری عوام کی عظیم فتح اور طاغوتی قوتوں کی شکست سے
تعبیر کرتے ہوئے پراُمید ہیں کہ اسلام کو تمام مسائل کا حل قرار دینے والی
احیائے اسلام کی یہ تحریک مومنانہ فراست سے بہت جلد اِن داخلی اور خارجی
مسائل پر قابو پالے گی، اُمید ہے کہ اخوان کی یہ میابی اسلام کی نشاة ثانیہ
کی ضمانت ثابت ہونے کے ساتھ عالم اسلام کی اُن تمام اسلام پسند قوتوں کیلئے
اُمید اور حوصلے کا باعث بنے گی جوظالم و جابر اور آمر حکمرانوں کے خلاف
اپنے اپنے ممالک میں التحریر اسکوائر سجانے کیلئے بے چین ہیں۔ |