تحریر:مدیحہ خاتون
تحفے دینے سے محبت بڑھتی ہے۔آپس میں محبت،پیار اوردوستی بڑھا نے کے لیئے اس
نسبتًامہنگے طریقے کارواج کب عام ہوا اس حقیقت سے میں نا آشنا ہوں۔ باہمی
تعلقات کوبام عروج تک پہنچا نے کے لیئے یہ رواج ہما ری زند گیوں کا اہم حصہ
بن چکا ہے اور تمام معاشروں میں یکساں مقبول بھی ہے۔ لینے دینے کی یہ رسم
صرف فروغ محبت کی غرض سے ہی نبھا ئی نہیں جاتی بلکہ تہواروں مثلًا
عید،کرسمس شادی بیاہ یا فوتگی کے موقعوں پر دل میں پیدا ہونے وا لے خوشی
اور غمی کے متعلقہ احساس کے اظہار کے لیئے بھی اس کا سہارالیا جا تا
ہے۔تہذیب یافتہ انسان نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں قوا نین اور قواعد
بنائے ہیں اسی طرح تحائف کے معا ملے میں بھی چنداصول و ضوابط کو مدنظر رکھا
گیا ہے۔ان میں سے کچھ اصول توانسان کے لیئے وبال جان بن جاتے ہیں جبکہ کچھ
خوشحال جان ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ کسی کا تحفہ وصول کرنے پہ ہمیں
خوشی تو بہت ہوتی ہے اور احساس محبت بھی غالب رہتا ہے مگر تحفے کا جواب
دیتے ہوئے فروغ محبت کا جذبہ بلندئی ناک کی خوا ہش تلے دب جا تا ہے اور
نتیجتًااس خوا ہش کی تکمیل کی غرض سے دو ست کو اس کے دیے ہوئے تحفے سے
مہنگا تحفہ دینے کے لیے ہمیں اپنا بجٹ آﺅٹ کرنا پڑتا ہے۔مگر تحفے کا ایک
خوشحال جان اصول یہ ہے کہ اس کو پیش کر نے سے پہلے با قاعدہ اسے مختلف
رنگوں کی شیٹ سے زیب تن کیا جاتا ہے، انگر یزی کا ایک جملہ ہےfirst
impression is the last impression.اگر تحفہ وصول کرنے و الا اس جملے کا
قائل ہو تویقینًا اس تحفے کی خوش لباسی اس کو بھا جا ئے گی اور وہ تحفہ
کھولنے سے پہلے اپنے دماغ میں خوش فہمیوں کے تانے با نے بننا شروع کر دے
گاکہ دینے والے نے اسے کسی انمول نگینے کے قابل گردانا ہے یا روزمرہ کے
استعمال کے لیئے کسی بیش قیمت چیز سے نوازا ہے اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس
دنیا میں ایک جیساتن اور من رکھنے والی اشیاءنایاب ہیں و صول کرنے والا
خیالوں ہی خیالوں میں خود کوہوا کے دوش پر تیرتا ہوا محسوس کرے گاکہ چلو وہ
کسی کی آنکھ کا نور یا کسی کے دل کا سرور توہوا بھلے تحفہ کھولنے پر اس کی
ملاقات اندر رکھے ہوئے تنکے سے ہی کیوں نا ہو وہ اپنے اندر اجاگر ہونے والی
اولین اہمیت اور برتری کے غالب احساس کے باعث کم قیمت تحفے کی حقارت کویکسر
نظر انداز کر کے ریشمی پوشاک کے رنگوں کے سحر میں اپنی محویت برقرار رکھے
گا اپنی دی ہو ئی چیز کو مقبول بنا نے کی یہ حکمت عملی صرف تحائف کے معاملے
میں ہی استعمال نہیں ہوتی بلکہ ظاہر کو با طن سے ا لگ کر کے دکھانے کا
اطلاق ہما ری زندگی کے ہر شعبے میں ہوتا ہے۔شب وروز کے اس تماشے کی واضح
مثال سیاست کا شعبہ ہے جس نے دنیاکو بازیچئہ اطفال سے بازیچئہ عمّال وحکام
بنا کے رکھ دیا ہے اس کی بنیاد ہی منافقت پر ہے اور اس ضمن میں اہلیانِ
اقتدار نے جس بندر کو سب سے زیادہ ڈگڈگی پر نچایا ہے اس کا نام جمہوریت ہے
۔حکمرانوں کی اس کھلم کھلا منا فقت کا خمیازہ براہ راست عوام کو ہی بھگتنا
پڑتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناءپراس وقت میرے ذہن میں سب سے زیادہ غیر مبہم
چیز جمہوریت بنی ہوئی ہے۔جہاں تک میری اس لفظ سے شناسائی ہے تواس کے مطابق
اس کا مطلب ہے عوام کی حکومت یا ایسا نظام جس کے مطابق حکومت کا کام یہ ہے
کہ وہ ملک کے قوانین کے مطابق عوام کو ان کے حقوق دلائے اور ریاست میں امن
و امان یقینی بنائے۔مگر میں نے موجودہ جمہو ری حکومت کوکبھی بھی جمہوریت کے
مفہوم پر عمل کرتے نہیں دیکھا۔بلکہ اس لفظ کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے
اس نے میرے ذہن میں جمہوریت کے مفہوم کو بھی مشکوک کر دیا ہے۔یہ فقط ایک
ڈور بن کے رہ گئی ہے جسے حکو مت جب چا ہے عو ام کی گردن سے باندھ کرکٹھ
پتلی کی طرح اپنے اشاروں پہ نچا لے۔میں اس وقت نہم جماعت کی طالبہ تھی جب
موجودہ حکومت جمہوریت کے نام پر اعوان اقتدار پر براجمان ہوئی اور یہی راگ
الاپے گئے کہ ملک میں ترقی کا نیا دور شروع ہو گا، تب میرے ذہن کو بہت سی
خوش فہمیو ں نے ا پنی گرفت میں جکڑ لیا کہ شاید اب اس ملک میں الٰہ دین کا
چراغ آنے والاہے جس کو رگڑتے ہی یہ ملک مسائل کی دلدل سے باہر نکل آئے گا۔
مگر افسوس کہ میں نے بھی اپنے دل کے ارمانوں کو آنسوﺅں میں ہی بہتے دیکھا
اس ملک کے عوام کی آنکھوں میں ایک بار پھر دھول جھونکی گئی اصل میں جمہوریت
کی آڑھ میں ایک نئی قسم کی آ مریت کو فروغ دیا گیااوراب تویہ جمہوریت عوام
کاخون چو سنے کا ایک آئینی طریقہ بن کے رہ گئی ہے حکومت چاہے توعوام کو
بالکل بے سروسامان کر دے،روٹی کپڑا ،اور مکا ن کا لالچ دے کر ان سے حقٍ
زندگی چھین لے انہیں آسائشوں کے سبز باغ دکھاکے دشت کا صحرا ان کا مقدر بنا
دے۔اپنے ہوش و حواس میں گزشتہ چار سال کے دوران میں نے عوام کے نام پر جو
طرز حکو مت دیکھا اس میں مجھے عوام تو کہےں بھی نظر نہیں آئے۔وہی مفلسی و
بدحالی،امیراور غریب کے درمیان پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی ہوئی خلیج رشوت،
کرپشن اور بد عنوانی کے ماحول میں پلتا ہوا معاشرہ، تعلیمی پسماندگی کے
لحاظ سے ابھرتا ہوا معاشرہ،جاگیردارانہ نظام باوج کمال اور کسان رو بہ
زوال۔یہ جمہو ریت بھی آئین پاکستان کی طرح لچکدار ہے حکمران جب چاہتے ہیں
اپنی ضرورت کے مطابق موڑ لیتے ہیںاربوں روپے کی ڈکیتی کرنے پر جب ان کا
احتساب کیا جائے تو جواب میں خود کو عوام کا منتحب نمائندہ قرار دے کر
قانون سے آزاد سمجھتے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک قزاق کو قافلے کا راہنما بنا
دینے کو جمہوریت کا تسلسل کہتے ہیں ہیںمیری تو جمہوریت کے بارے میں یہ رائے
تھی کہ اس کی ت ترقی کی علامت ہوتی ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے تو اسے تنز لی
کی ت بنا کے رکھ دیا ہے۔میں اپنے ان داتاﺅں سے سوال کرتی ہوں کہ اس جمہوریت
کا کیا فائدہ جو ہمارا سفینہ راہزن ناخداﺅں کے حوا لے کر کے ہمیں منجدھار
کے چکر میں پھنسا دے، وہ جمہوریت جس کی آڑھ میں آ مریت پل رہی ہوجس کیے نام
پر درندہ صفت انسان اپنے ہم وطنوں کی گردنوں پہ سوار ہو جائیں۔ کیا آمر صرف
فوج کا سر براہ ہوتا ہے جو غیر آیئنی طرےقے سے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک
بن جائے۔اپنے علاقوں سے موروثی جا گیر د اری اورطاقت کے بل پر اقتدار کے ا
یو انوں تک پہنچنے وا لے حکمران تو آمروں سے بھی زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں
کیو نکہ انہیں عوام کا استحصال کرنے کی عادت ہو تی ہے میں جمہوریت کے خلاف
نہیں ہوں میں بس یہی چاہتی ہوں کہ کسان کا نمائندہ بھی کسان ہو اور مزدور
کی نمائندگی کا حق بھی مزدور کو ہی حاصل ہو اور یہ لوگ ایسے مضبوط اخلاق و
کردار کے مالک ہوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی اولین ترجیح خود کو
مستحکم کرنا نہیں بلکہ اپنے جیسوں کی خدمت کرنا ہو کیوں کی قید سے آزاد ایک
حا کم سینکڑوںاپنی ذات کے پجاریوں سے بہر حال کئی گنا بہتر ہو گا۔ بس اللہ
سے دعا ہے کہ اس ملک میں آنے والے حکمران اخلاق و کردارکے پیمانے پر پورے
اترتے ہو ں طا قت کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی اولین ترجیح عوام کی
عبادت ہو نا کہ نفس پروری۔ اور ہم ایسے ظاہری خوبصورت تحفوں جن کے باطن میں
صرف حقیر راکھ ہو اور ایسی جمہوریت سے بچ سکیں جو زہر کی پڑیا پہ شہد کی چٹ
کے مترادف ہو۔آمین۔
|