ضرورت برائے انقلابی لیڈر

لیڈر، قائد یا رہنماءکسی قوم کی رہبری یا رہنمائی کرنے والا وہ عظیم انسان ہوتا ہے جو ایک عزم اور مقصد کے ساتھ کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُسکے ارادے چٹان کی طرح مضبوط ہوتے ہیں اور سوچ قوم سے شروع ہو کر قوم پر ہی ختم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب لیڈر میں دلیری، ضبط، انصاف پسندی، استقلال، منصوبہ، محنت پسندی، خوشگوار شخصیت، ہمدردی جیسی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور ایک سچا، امین، دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا دفادار بھی ہوتا ہے۔ وہ ہر آدمی کا درد اپنے سینے میں لیئے ہوئے ہوتا ہے اور حقیقی معنوں میں عام انسانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے جبکہ رشوت خوری، سفارش، کنبہ پروری، جھوٹ اور فریب جیسی لعنتوں سے ہمیشہ پاک ہوتا ہے۔ ایک عظیم لیڈر کے بولنے میں بڑی طاقت، الفاظ میں تاثیر اور جادو ہوتا ہے جبکہ اس کا مزاج اسے ایسے کام کی طرف لے جاتا ہے جو ایک عام انسان کے لیئے بے حد مفید ہوتا ہے۔

آغا شورش کاشمیری (مرحوم) 15مارچ 1965ءکے رسالہ چٹان میں لکھتے ہیں کہ ”ہمارے ہاں لیڈر بنتے ہیں دولت کی فراوانی سے، سرکار کی خوشنودی سے، وزارت کے راستہ سے، کرسی کے فضل سے، غنڈوں کی رفاقت سے، اخباروں کی پبلسٹی سے، ورکنگ جرنلسٹوں کے قلم سے، حکام کی جاسوسی سے، اکابر کی ذریت سے، بادہ خوانوں کی چھوکٹ سے، اسلام کی مجاوری سے جبکہ دوسرے ملکوں میں لیڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے، دولت کے ایثار سے، جان کے زیاں سے، خدمت کی راہ سے، علم کے کمال سے، نگاہ کی بصیرت سے، عوام کی رفاقت سے، عقائد کی پختگی سے، اُصول کی پیروی سے، نصب العین کی محبت سے اور قید خانوں کی ضرب سے۔ “جس قوم کو ایک اچھی لیڈر شپ مل جائے وہ قوم نہ صرف اپنا مستقبل محفوظ بنا لیتی ہے بلکہ دوسری اقوام کے لیئے ایک مثال بھی بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر لیڈر ہی بناتے ہیں اور وہی بگاڑتے بھی ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو میں ایک انقلابی لیڈر والی جھلک نظر آئی تھی لیکن چونکہ اُن میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ایسی خامیاں بھی موجود تھیں کہ جن کی سزا آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھٹو ایک بہترین دما غ تھا کہ جس نے شاہ فیصل اور قذافی کے ساتھ مل کر مسلم دشمن قوتوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں لیکن پھر شاہ فیصل اور بھٹو کے بعد قذافی کو بھی ہمیشہ کے لیئے راستے سے ہٹا کر اسلامی دنیا سے اس طرح کے لیڈروں کا صفایا کر دیا گیا۔تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو بھٹو نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگا کر بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نئے ملک کا وجود ممکن بنایا۔ بھٹو کے بعد عوام کو پرویز مشرف کی صورت میں اُمید کی ایک کرن نظر آئی تھی لیکن سیاست میں نابلد ہونے کی بناءپر اُن کے چند اقدامات ایسے بھی تھے جن کی وجہ سے ملک کو بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔

ہمارے سیاسی قائدین ہمیشہ خود کو ایک عظیم لیڈر کے طور پر منوانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں جبکہ قوم ایک ایسے لیڈر کی راہ دیکھتی رہتی ہے جو انقلاب کے راستے پر چل پڑے اور ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں میں جہاں بہت سی خامیاں موجود ہیں وہاں کئی بے مثال خوبیوں کے مالک بھی ہیں۔ اگر تمام سیاست دانوں کی مشترکہ خوبیاں کسی ایک فرد میں مجتمع ہو جائیں تو یقینا وہ ایک عظیم انقلابی لیڈر بن سکتا ہے۔ اگر کئی لوگ پرویز مشرف کو تاریخ ساز لیڈر سمجھتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جن کے دلوں میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن ایک لیڈر کے طور پر نقوش کر چکے ہیں۔

پرویز مشرف ایک کرشماتی شخصیت کے مالک اور عوام میں سچے، کھرے انسان کے طور پر مشہور ہیں۔ قول کے پکّے ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ پرویز مشرف، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کو اگر بین الاقوامی مسائل پر گفتگو کرنا پڑ جائے تو سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف بازی لے جائینگے کیونکہ وہ دور اندیش ہیں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں البتہ اُن میں بہت ساری خامیاں بھی موجود ہیں جن میں اُن کی مغرب نوازی، سیاست سے نابلدی اور مذہب سے دوری اُن کے عظیم انقلابی لیڈر بننے کی راستے میں رکاوٹ ہیں۔

آصف علی زرداری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک لیڈر کے شوہر تو رہے ہیں مگر خود لیڈر نہیں بن سکے کیونکہ ایک کامیاب لیڈر کا دماغ ہمیشہ ایک ہی سوچ میں مصروف رہتا ہے کہ ملک کیسے ترقی کرے گا، غربت کیسے ختم ہوگی، دنیا میں نام کیسے بلند ہوگا البتہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے جب بھی کوئی سیاسی چال چلی یاپتہ پھینکا سب محو حیرت ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس گنجلک سیاست کو پی ایچ ڈی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اُن کی طبیعت میں خاموشی اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں میں نہیں ہے لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ کرپشن اور وعدہ خلافیوں کے الزامات کی زد میں رہتے ہیںجس کی وجہ سے اُنہوں نے نہ صرف مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب پایا بلکہ وعدے کرکے مُکر جانے کو یہ کہہ کر صحیح عمل گردانا کہ معاہدے قرآن یا حدیث نہیں ہوتے۔ آصف علی زرداری ایک منجھے ہوئے سیاست دان ضرور ہیں لیکن لیڈر نہیں بن سکے۔

بہت سے لوگ میاں محمد نواز شریف کو بھی ایک تاریخی لیڈر سمجھتے ہیں بلکہ کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی لیڈر سے زیادہ چاہتے ہیں اور اُن کی شخصیت اور سیاست میں بلند مقام کے باعث اُن سے بڑی اُمیدیں وابستہ کیئے ہوئے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کی چھ دہائیاں کراس کر چکے ہیں اور اس عمر میں ان کو پختہ ذہن کا سیاست دان ہونا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ان کی طبیعت میں ٹھہراﺅ کے بجائے تلاطم اور خلفشار موجود ہے۔ اُن کی گفتگو سادگی پر مبنی ہوتی ہے تاہم انہیں الفاظ کی تلاش میں کبھی کبھار مشکل پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ میاں صاحب حساس معاملات پر بعض اوقات ایسے بیانات داغ دیتے ہیں کہ پھر مجبوراً مجید نظامی جیسے لوگ بھی اُن کے لیئے عقلِ سلیم کی دعا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اُن کی سب سے بڑی خامی ہے لیکن ایسا مرحلہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اُنہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھنے کے بجائے بہت سے ایشوز پر عوام کے ساتھ کھل کر بات کی۔ میاں صاحب میں کئی خوبیاں ایسی پائی جاتی ہیں جو ملک کو اضطرابی کیفیت سے نکال سکتی ہیں۔ وہ اس وقت عوام کی نظر میں سب سے زیادہ محب وطن تصور کیئے جاتے ہیں اور اُن کی زندگی میں مذہبی رنگ کا عنصر بھی نمایاں ہے۔

عمران خان کی سب سے بڑی خوبی اُن کے غیرت مند بیانات تصور کیئے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے باتوں کی حد تک تو قوم کو متاثر کیا ہے مگر پاکستانی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اقتدار ملتا ہے تو سارے سیاسی وعدے ایک بے وفا محبوب کے عہد و پیماں کی طرح ہَوا ہو جاتے ہیں۔ عمران نے ورلڈ کپ جیتا اور شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا تو دونوں میں سے کوئی بھی کام اکیلے نہیں کیا بلکہ یہ اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس لیئے سارا کریڈٹ عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا۔عمران ابھی سیاست میں نئے ہیں مانا کہ اُنکا جذبہ بھی نیک ہے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس وقت جو سیاست دان عمران کو سپورٹ کر رہے ہیں اُن میں سے بہت سے ایسے کرپٹ عناصر بھی شامل ہیں جو دوسری پارٹیوں میں رہ چکے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس وقت عمران نوجوان نسل میں کافی مقبول ہو چکے ہیں لیکن جس طرح کے لوگ اُن کے ارد گرد اکٹھے ہو چکے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ فی الحال وہ دیمک زدہ لکڑیوں سے تلوار بنانے میں مصروف ہیں۔ اگر عمران خان کو عوامی سیاست کرنی آ جائے تو یقینا ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکے گا جبکہ ایک کامیاب لیڈر بننے کے لیئے انہیں اپنا جذباتی پن بھی ختم کرنا ہوگا۔

الطاف حسین کی سیاسی بصیرت کی داد دینی چاہئے کہ وہ لوگوں کے جذبات کو جس طور سمجھ رہے ہیں اور انہیں زبان دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کمال ہے۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کا اعلانِ جنگ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مڈل کلاس طبقے کی نمائندہ جماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین بھی خود کو اسی طبقے کا لیڈر قرار دیتے ہیں جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو مڈل کلاس طبقے کا لیڈر ہونے کے دعوے دار الطاف حسین خود لندن کے مہنگے ترین علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیئے بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک خود پر لگا لسانی جماعت کا لیبل ختم نہیں کرا سکی۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے عوام کو ایک اعتراض یہ بھی رہا ہے کہ اسکے جلسے جلوسوں میں کبھی پاکستان، قائداعظم، قومی پرچم نظر نہیں آتا البتہ الطاف حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو بات بھی کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں لیکن لیڈر ہونے کے لیئے عوام کے ساتھ سڑکوں پر آنا پڑتا ہے جبکہ الطاف حسین ابھی تک صرف ٹیلیفونک خطاب تک ہی محدود ہیں۔

اسلام پسند طبقہ مولانا فضل الرحمن کو قومی لیڈر اور اُمت مسلمہ کا رہبر سمجھتا ہے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی بھی اُن کا عظیم مذہبی اسکالر ہونا ہے اور یہ خوبی اُنہیں دوسرے بہت سے سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا شمار پاکستان کی جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اُن کی سیاسی قلابازیوں کی بدولت یہ جماعت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا موقف ”اُصولی“ ہوتا ہے، جسے یہ بروقت ”وصولی“ کی شکل میں پاتے ہیں۔ مولانا جس حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اپنے انوکھے انداز میں اُس کا دفاع بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکمران چاہے کوئی بھی ہو ان کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ مولانا کو کسی طرح گزند نہ پہنچے۔ مولانا فضل الرحمن سیاست کی زمینی حقیقتوں کے بہترین نباض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاسی بصیرت، حکمت کاری، موسم شناسی زبان زدِعام ہے۔ وہ اپنے کارناموں کی بدولت اکثر خبروں میں موجود رہنے کے ساتھ ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔

خود کو لیڈر کہلوانے کے دعویدار درج بالا سیاست دانوں کی تمام خوبیاں اور جماعت اسلامی طرز کی عوامی خدمت کا جذبہ اگر کسی ایک شخص میں موجود ہو تو وہ یقینا ایک عظیم انقلابی لیڈر بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں آ سکا جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک روز افزوں تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ جب ملکوں میں حالات بدترین شکل اختیار کر لیتے ہیں اور قوم کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کا حل صرف اور صرف انقلاب ہوتا ہے، چاہے وہ غیر اسلامی انقلاب ہی کیوں نہ ہو۔ ماﺅزے تنگ جدید چین کا بانی اور عوام دوست انقلابی لیڈر تھا۔ اُنہوں نے چین میں وہ انقلاب برپا کیا جو آج تک دنیا کے کئی ممالک کے لاچار، غریب، مفلوک الحال اور کمزور لوگوں کےلئے مشعل راہ ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ماﺅزے تنگ کا کہنا تھا کہ یہ ایک عظیم قوم ہے اور ایک دن پوری دنیا پر حکومت کریگی کیونکہ غیبی قوت پر ان کا ایمان انتہائی پختہ ہے۔ اگر اس قوم کو اچھی لیڈرشپ مل گئی تو بہت تیزی سے ترقی کریگی۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاست دانوں میں جہاں بہت سی خامیاں موجود ہیں وہاں کئی بے مثال خوبیوں کے مالک بھی ہیں۔ اگر تمام سیاست دانوں کی مشترکہ خوبیاں کسی ایک فرد میں مجتمع ہو جائیں تو یقینا وہ ایک عظیم انقلابی لیڈر بن سکتا ہے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.