اگر چاہیں تو میاں شہباز شریف وافر بجلی پیدا کرسکتے ہیں

تحریر : محمد اسلم لودھی

یہ درست ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کی خدمات اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ان کی کاوشوں کا اعتراف ان کے دشمن بھی کرتے ہیں ۔ بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھی یہ کہتے سنا گیا ہے کہ کاش شہباز شریف ان کے وزیر اعلی بھی ہوتے ۔ اس وقت جبکہ پنجاب سمیت پوری قوم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہوکر خود کشیوں پر اتر آئی ہے تو وزیر اعلی ا پنے ائیرکنڈیشنڈ دفترکو چھوڑ کر عوام سے یکجہتی کے لیے کیمپ آفس آ بیٹھے ہیں جہاں نہ صرف پنکھوں کی ہوا میں کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں بلکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہونے پر وزیر اعلی سمیت تمام وزیر پسینے سے شرابور ہاتھ کے پنکھے جھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بات تو میاں شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ سکول ، کالج ، فیکٹریاں ، دوکانیں ، گھر ، بنگلے ، زراعت ،صنعت ، مواصلات ، دفاتر ، عدالتیں حتی کہ ہر جگہ اور ہر چیز بجلی کی محتاج ہوکر رہ گئی ہے اور بجلی ہی اس ملک میں ناپید ہوچکی ہے ۔جن علاقوں میں بائیس بائیس گھنٹے بجلی بند رہتی ہے ان علاقوں کے لوگ کیسے زندہ رہیں گے یہ تصور کرکے ہی کلیجہ مونہہ کو آتا ہے ۔اگر وزیر اعلی چاہیں تو پنجاب بجلی کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہوسکتا ہے بلکہ ملک بھر کی ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرسکتا ہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ جنوبی پنجاب کا تین سو مربع کلومیٹر رقبہ ریگستان کی شکل میں موجود ہے جو منڈی یزمان سے شروع ہوکر رحیم یار خان تک جاتا ہے ۔ جہاں موسم گرما میں 50 سنٹی گریڈ سے زائد گرمی پڑتی ہے اور اس علاقے میں گرمی کی شدت اور سورج کی تپش کی وجہ سے پینے کا پانی بھی خشک ہوجاتا ہے اگر اس وسیع رقبے پر پھیلائے ہوئے صحرا میں سولر انرجی کے بڑے بڑے یونٹ نصب کرلیے جائیں تو 25 ہزار میگا واٹ سے بھی زیادہ بجلی پیداکی جاسکتی ہے ۔اگر وفاقی حکومت بجلی کی پیداوار میں ناکام ہوئی ہے تو پنجاب کے ہر دلعزیز وزیراعلی کو تو ناکام نہیں ہونا چاہیئے ۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ جن یورپی ممالک میں سورج 15 سنٹی گریڈ سے زیادہ تپش نہیں دیتا وہاںسولر انرجی سے ہزاروں میگا واٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے تو پنجاب کے صحرائی علاقوں سے فائدہ نہ اٹھا نا سمجھ سے بالاتر ہے ۔جہاں سورج 14 گھنٹے آگ برساتا ہے ۔ سنٹرل پنجاب کے میدانی علاقوں میں بھی درجہ حرارت 45 ڈگری تک چلاجاتاہے اگر پنجاب کے گاﺅں اور شہر کی سطح پر سولر انرجی کے بڑے بڑے یونٹ نصب کردیئے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ کم سے کم بجلی کے حوالے سے خود کفیل ہوا جاسکتا ہے ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں 50 لاکھ گھروں کو سولر انرجی سے بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔جو قابل تحسین بات ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ کیمپ آفس لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام کو تڑپتا دیکھ کر کسی کو سکون مل سکتا۔بہتر ہوگا کہ بزنس کیمونٹی یا کسی بھی دوست ملک کے تعاون سے ( جو سولر انرجی کی ٹیکنالوجی بھی فراہم کرسکے ) رابطہ قائم کرکے فوری طور پر پنجاب کے صحرائی علاقوں کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے شہروں ، دیہاتوں اور صنعتی یونٹوں کے ساتھ سولر انرجی کے یونٹ لگانے کی منصوبہ بندی کی جائے ۔ پنجاب کے لوگ ریپڈٹرانسپورٹ سسٹم اور لیپ ٹاپ کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن بجلی کے بغیر زندگی موت سے زیادہ بدتر ہوتی جارہی ہے ۔پھر بجلی کی قلت کی بنا پر ہی پنجاب کے 10 ہزار صنعتی یونٹ فیکٹریاںاور کارخانے جو بند ہوچکے ہیں اور پچاس لاکھ افراد بے روزگار ہوکر جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ بن کے چوری ڈاکوں کی وارداتیں کررہے ہیں جو ایسا نہیںکرسکتے وہ خود کشی کرلیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میاں شہباز شریف کو اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ جو کام کرنے کی ٹھان لیتے ہیں مکمل کرکے چھوڑتے ہیں ۔سردست کوئی بھی کام یا منصوبہ بجلی سے زیادہ اہم نہیں ہے بلکہ بجلی معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ تمام مسائل اور پریشانیوں کی ماں بن چکی ہے اس لیے تمام جاری دیگر منصوبوں کو روک کر صرف اور صرف بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔اگر سندھ کے صحرا میں کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوسکتے ہیں تو پنجاب کے صحرائی علاقوں میں بھی کوئلہ اور دیگر قیمتی معدنیات نکل سکتی ہیں ضرورت اس امر کی کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے ذہین ، محب وطن اور باصلاحیت سائنس دان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے اور بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے ان سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ وفاقی حکومت کی تغافلانہ پالیسی کی بدولت پنجاب کے تما م دریا خشک ہوچکے ہیں اور زراعت کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہے اس لیے سیلابی پانی کو محفوظ بنانے کے لیے پنجاب بھر میں چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے خدا نخواستہ اگر ایسانہ کیا گیا تو پنجاب کی سونا اگلتی زمینوں کو بنجر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔میاں شہباز شریف کو اس مقصد کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا وگرنہ تباہی اور بربادی پنجاب کا مقدر بن کر رہ جائے گی ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126874 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.