64سال سے ایک تو یہ بحث جاری ہے کہ فوجی
حکومتوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا یا سیاست دانوں نے تباہی و بربادی کا سامان
کیایا بیورو کریٹوں نے اپنا منفی کردار نبھایا۔
1947 سے لیکر ابتک کے طویل عرصہ میں 23 وزرائے اعظم 3 گورنر جنرل 7 صدور
اور4 فوجی سربراہوں نے حکومت کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے یعنی 31 سال تک
مکمل جمہوری حکومتیں اور 33 سال تک فوجی حکومتیں اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر
عوام کے مسائل کے حل اور ملک کے معاشی حالات درست کرنے کی سعی میں مصروف
رہیں ۔اس دوران سیاستدان جب اقتدار سے فارغ ہوتے تو فوجی حکومتوں کو مورد
الزام ٹھہراتے کہ یہ لوگ ہمارے کام میں رخنہ ڈالتے ، فوجی حکمران جب اقتدار
سنبھالتے تو یہی الزام سیاستدانوں پر عائد کرتے کہ ہم حکومت نہ سنبھالتے تو
ملک خانہ جنگی کا شکار یا معاشی طور پر دیوالیہ ہو جاتا ۔اس ملک کے سیاسی
لیڈروں اور فوجی حکمرانوں نے 64 سال مختلف سیاسی و معاشی نظاموں کو رائج
کرنے کے تجربات میں گزار دیے کبھی پارلیمانی نظام نافذ کیا جاتا کبھی
صدارتی نظام حکومت متعارف کرایا جاتا۔6 مرتبہ ملک کا آئین بنایا گیا لیکن
اس آئین پر آج تک کسی بھی حکومت یا سیاسی پارٹی نے عمل درآمد نہیں کیا ۔آج
قومی اسمبلی کا الیکشن 10 سے20 کروڑ سے کم سرمایہ پر نہیں لڑا جا سکتا جبکہ
اس ملک کے الیکشن کمیشن نے حد 5 سے 10 لاکھ مقرر کی ہوئی ہے مگر پچھلے 40
سال سے مسلسل نابینا چلا آرہا ہے۔
آج تک پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج نہ ہوسکا۔اصل میں ہمارے حکمران
اتنے چالاک و ہشیار ہوتے ہیں کہ ہمیں سوچنے کا موقع بھی نہیں دیتے ہمارے
حکمرانوں نے منطق سے خالی ،سمجھ سے بالاتر اور سوجھ بوجھ سے فارغ بیانات کے
طفیل بڑا نام کمایا تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر جبکہ ہمارے لیئے
ناقابل فراموش ہے -
یہاں المیہ یہ ہے لوگ 5 سال تک اس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غیظ و غضب
کو پالتے رہتے ہیں اور اپنے دشمن کو پہچاننے کی کوشیش کرتے رہتے ہیں تاکہ
آئیندہ ان سے نجات حاصل کریں مگر بد قسمتی سے جوں ہی 4 یا 5 سال پورے ہوتے
ہیں ،اُن کا وہی دشمن نئے انداز سے دوستی ،وفاداری،ہم دردی اور محبت کا
لباس اوڑھ کر سامنے آجاتا ہے اور اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی یہ بد
نصیب قوم پھر اُنہی رہزنوں کو اپنا دوست اور مسیحا سمجھ کر اگلے 5 سال کے
لیے منتخب کر لیتی ہے۔اور پھر سے عوام 5 سال تک اپنے دشمن کو پہچاننے کے
لیے جدو جہد کرتی رہتی ہے اور 5 سال مکمل ہونے پر پھر میلہ لگتا ہے اور
کروڑوں روپے خرچ کرنے والے وہی لوگ ،کبھی ان کے بیٹے،کبھی بیٹیاں،کبھی
بھتیجاں ،کبھی بھانجے بھانجیاں اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ
نظام(الیکشن سسٹم) صرف اور صرف وڈیرہ اور جاگیردارانہ ہے۔اگر برصغیر پاک و
ہند کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1934 ء میں جب سندھ بمبئی
کا حصہ تھا تو جو لوگ اسوقت اس بمبئی کی حکومت کے وزیر تھے ،سندھ کی سیا ست
اُس دن سے لیکر آج تک اُنہی خاندانوں میں منتقل ہوتی آرہی ہے، اسی طرح 1906
ء میں بہالپور میں جو لوگ وزیر تھے اُنہی خاندانوں کے پاس آج تک سیاست و
انتخابات کی اجارہ دری ہے ۔تاج برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیڑھ غازی خان
میں جو بڑے بڑے خاندان آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسند اقتدار پر فائز تھے
،جن کے پاس 1930ء کے اقتدار کی مسند تھی آپ کو اُن ہی شخصیات کی نسلیں آج
اقتدار پر بیٹھی نظر آرہی ہوں گئی اس دوران میں الیکشن ہوتے رہے ،حکومتیں
بدلتی رہیں،جمہوریت کے نام پر ادوار بدلتے رہے ،کبھی فوجی آمرتیں آئیں اور
کبھی سیاسی آمرتیں ،مگر اسمبلیاں اور اقتدار ان خاندانوں سے باہر کبھی نہیں
گئی ۔اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد علی جناحؒ کے
بعد 6 شخصیات ایسی آئیں جو اس ملک کی تقدیر بدلنے،عوام الناس کی حالت
سدھارنے اور ان کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے سب کچھ کر سکتے تھے ان
میں جنرل ایوب خان،زوالفقار علی بھٹو،بینظیر،جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز
مشرف،اور نواز شریف شامل تھے۔ان میں 4 شخصیات تو نہایت جرات
مند،زیرک،قابلیت اور بصیرت سے بھرپوراور انتہائی متحرک تھیں۔جن میں جنرل
ایوب خان ،جنرل مشرف،زوالفقار علی بھٹواور بینظیر کی شخصیات شامل ہیں۔2
شخصیات جنرل ضیاء ا لحق اور نواز شریف کی صورت میں اوسط درجے کی شخصیات
تھیں ضیاء الحق کو کام کرنے کیلئے بہت لمبا عرصہ موقع ملا اور نواز شریف کو
عوام کی طاقت کا سہارا تھا جبکہ زوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کو ہر قسم کے
کام کرنے کیلئے عوام کی بہت بڑی طاقت کی مکمل حمایت حاصل تھی اور حالات بھی
بھٹو کے حق میں تھے مگر بھٹو عوام کو روٹی،کپڑا ،مکان تینوں چیزیں فراہم
کرنے میں بڑی طرح ناکام رہے اور پاکستان میں عورت کے پہلی دفعہ وزیر اعظم
بننے کے باوجود اس ملک میں عورت مظلوم ہی رہی اور عورت پر مسلسل ظلم جاری
رہا بلکہ سب سے زیادہ ظلم و ستم ان کے اپنے صوبہ سندھ میں ہوتا رہا جس کا
قلعہ قمع کرنے کے لیے وہ کچھ نہ کر سکیں۔عملاََ ایک وقت تک بھٹو خاندان نے
اسلامی دنیا کا بلاک بنانے کی کوشیش ضرور کی لیکن اس کو پائیہ تکمیل تک نہ
پہنچا سکے اس کا مطلب ہے اس کام کو کرنے کے لیے بھٹو سے بھی بڑی شخصیت
درکار تھی -
تاریخ یہ نہیں دیکھا کرتی کہ یہ ہوتا تو وہ ہو جاتا ۔فلاں شخص کو اتنا موقع
یا وسائل مل جاتے تو وہ فلاں کارنامہ انجام دے دیتا ۔تاریخ صرف یہ دیکھتی
ہے کہ فلاں شخص نے فلاں کام انجام دیا کہ نہیں بس اس کا یہی کام ہی تاریخ
کا حصہ بن جاتا ہے۔کسی شخص کی عظمت کی بلندی جانچنے کے لیے تاریخ میں کیا
گیا اس کا کارنامہ ہی اسے اس درجہ پر فائز کرتا ہے۔ہمارے بعد آزاد ہونے
والی اقوام چین،کوریا وغیرہ پوری دنیا کو للکار رہے ہیں اور ہم ابھی تک ایک
دوسرے کو للکارنے میں اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں سیاسی
جماعتوں کو،فرقے فرقوں کو،صوبے صوبوں کو للکار رہے ہیں قوم کے پڑے لکھے 40
لاکھ افراد ڈگریاں پکڑے روزگار کی تلاش میں دربدر ہو رہے ہیں 30 لاکھ افراد
نشے کی علت کا شکاراور35 لاکھ معصوم بچے اور بچیاں پھول سی نازک عمر میں
محنت مزدوری پر مجبور ہیں 36 حکومتوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہماری حالت
اپنے ملک کے عوم کو زندہ درگور کرنے والی ہو چکی ہے۔ہماری قوم منتشر ہو چکی
ہے،یہ کروڑوں افراد کا بے ہنگم ہجوم بن چکا ہے ہماری قومیت گم ہو چکی ہے-
بہرحال اس ملک میں آمریت، جمہوریت، سوشلزم مارشل لاء،کنڑولڈجمہور یت سمیت
تمام نظام آزما لیے گئے مختلف معاشی پالیسیا ں بھی اپنائی گئیں لیکن مجموعی
طور پر 95 فیصد حکومتیں ناکام ثابت ہوئیں۔ آج پاکستانی قوم کو بے شعور بنا
دیا گیا ہے انصاف اس وقت مقتدر طبقات کی لونڈی ہے،جمہوریت ان کی عیاشی
ہے،انتخابات ان کا کاروبار ہے اور عوام ان کے غلام ہیں جنہیں 5 سال بعد
جمہوریت کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے ۔لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو کر
خودکشیوں پر مجبور ہیں ۔جان و مال کی ہلاکت اور دہشت گردی،قتل و غارت اور
لوٹ مار ان کا مقدر بن چکا ہے۔لوگ بجلی ،سوئی گیس،پانی جیسی بنیادی ضروریات
سے محروم ہیں بے روزگاری نئی نسل کو چور ڈاکو بننے کی ترغیب دے رہی ہے ۔ ۔
اب وقت کی اہم ضرورت ایک یسی تبدیلی کی ہے جو سیاسی و معاشی تمام برائیوں
سے پاک ہو جس کے تین ممکنہ راستے ہیں اول فوج کے زریعے یعنی آمریت ( مارشل
لاء) جو ہم پہلے سے آزما چکے ہیں 47 ء سے ابتک 4 فوجی سربراہ
احتساب،اسلام،گڈگورننس اور جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے کا اعزاز حاصل کر
چکے ہیں مگر ملکی مسائل کو حل کرنے میں بڑی طرح ناکام رہے بلکہ اس سے خود
فوج کے ادارے کی قوم کے دلوں میں ساکھ ختم ہو گئی لہذا اب بزریعہ فوج
تبدیلی ممکن نہیں ۔دوئم تبدیلی کا راستہ بزریعہ مسلح طاقت سے ہے ،
جودہشتگردی کا راستہ ہے ہم اس ملک کو پہلے ہی دہشتگردی کی آگ میں جلتا دیکھ
چکے ہیں اور اب اس ملک کو دہشتگردی سے نجات دلانا چاہتے ہیں اس لیے مسلح
طاقت سے بھی تبدیلی ممکن نہیں ویسے بھی یہ راستہ مسلم ممالک میں نہ اسلام
میں ہے۔ تیسرا اور آخری راستہ بزریعہ انتخاب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے آزاد ہو
کر اپنے لیڈر کو ووٹ دے کر منتخب کریں لیکن یہ راستہ اب کرپٹ ہو چکا ہے اس
راستے میں کروڑوں روپیوں سے لوگ خریدے اور بیچے جاتے ہیں ۔اس راستے میں صرف
جاگیردار ہی منتخب ہوتے ہیں اور ان کے بعد انہی کے بھائی اور بیٹے اقتدار
پر بیٹھے نظر آتے ہیں ۔اس راستے میں قوم ہر پانچ سال بعد بیوقوف بن کر نئی
حکومت کا انتظار کرتی ہے مگر قوم یہ بھول جاتی ہے یہ نظام انتخابات
جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام ہے یہاں صرف چہرے بدلتے ہیں خون وہی رہتا
ہے۔لہذا اب کے 64 سال بعد تمام تجربات اور نظام آزمانے کے واحد راستہ بغاوت
کا ہی نظر آتا ہے کہ آج کے کرپٹ ترین نظام انتخابات کے خلاف بغاوت کر کے سب
ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہو جائیں ۔ اپنے ووٹوں کو قیمتی جانتے اور اپنی آنے
والی نسلوں کی امانت جانتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق کسی کو نہ دیں۔چونکہ اب اس
نظام کے خلاف تبدیلی کا واحد راستہ بغاوت ہی ہے۔اگر ہم یہ سوچتے رہے کہ کون
ہمارا لیڈر ہو گا یا کون ایسی تحریک برپا کرے کہ ہم اس کا ساتھ دیں تو یاد
رکھیے! مصر میں کوئی لیڈر نہ تھا ،لیبیا میں کوئی لیڈر نہ تھا ،تیونس میں
کوئی لیڈر نہ تھا۔لیڈروں کا انتظار نہ کریں وہ خود بخود قوم میں پیدا ہو
جائیں گے ۔خوف ،پریشان،تذبذب ،افراتفری اور بزدلوں کی موت سے بہتر ہے کہ ہم
اب کے اس کرپٹ الیکشن سسٹم کیخلاف سڑکوں پر آجائیں۔بعقول حضرت امام زین
العابدینؓ ’کہ کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ اک خاموش اُمت کا نام ہے جہاں
ظلم ہو اور اُمت خاموش رہے وہ کوفی ہیں‘ ۔گر ہم اب بھی نہ سمجھے تو بقول
شاعر
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں |