انقلاب مصر کا تھرڈ راؤنڈ

 ٹیگور کا قول ہے کہ غلطی کو غلطی جان کر اس کی اصلاح نہ کرنے والا ایک اور گھمبیر ترین غلطی کررہا ہوتا ہے جو قوموں کو تباہی و بربادی کے گڑھوں میں درگور کردیتی ہے۔پچھلے چندمہینوں میں مشرق وسطی اور عرب دنیا میں انقلابی طوفانوں کا ایسا برق رفتار سلسلہ شروع ہوا کہ نامور بادشاہوں کے تخت الٹ گئے۔ مصر میں عوامی اژدہام نے ایک طرف حسنی مبارک کی آمریت کا دھڑن تختہ کرڈالا تو دوسری طرف مصریوں نے صدارتی الیکشن میں ماضی کی جہادی تنظیم اخوان الامسلیمین کے سربراہ ڈاکٹرمرسی کو51.70 فیصد ووٹوں سے صدارت کے سنگھاسن پر فروکش کرکے مغرب میں ہلچل پیدا کردی۔ ڈاکٹر مرسی کو مصر کے کل رجسٹرڈ ووٹرز 5 کروڑ میں سے1کروڑ32 لاکھ43 ہزار121 ووٹ ملے جبکہ مد مقابل امیدوار حسنی مبارک کے مقرب ترین سابق وزیراعظم احمد شفیق کو ایک کروڑ21 لاکھ اور47 ہزار ووٹ نصیب ہوئے۔ ووٹ ڈالنے کی شرح51.8 فیصد رہی۔ حسنی مبارک کی گوشمالی کے بعد ریاستی اختیارات فوجی کونسل کے سپرد تھے جنہوں نے صدارتی اختیارات میں کمی لانے اور نیو بجٹ بنانے کا کام اپنے ہاتھوں لے لیا۔ جرنیلوں نے آئین و بجٹ کی تشکیل کے لئے سو رکنی پینل کے قیام کا اعلان کردیا کہ وہ سو اراکین نامزد کرنے میں مکمل خود مختیار ہوگی۔ فوجی کونسل مصری افواج کے جرنیل اور اہم ترین بیوروکریٹس حسنی مبارک کی باقیات کی نشانیاں ہیں جنہیں نکالے بغیر نہ تو انقلاب مصر کا منشور عملی شکل ڈھال سکتا ہے اور نہ ہی مصری قوم کے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونگے جو انہوں نے حسنی مبارک کی30 سالہ خونخوار ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کی جدوجہد اور تحریک کے دوران دیکھے تھے۔ اسلام پسندوں کی کامیابی پر فلسطینی خوشی سے باغ باغ ہوگئے کیونکہ مصر عرب لیگ اور مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جس کے معزول اور سزا یافتہ سابق صدر مبارک نے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرکے تحریک آزادی فلسطین کی لاثانی جہد مسلسل پر نہ صرف منفی اثرات مسلط کئے بلکہ امریکی کٹھ پتلی سابق آمر مبارک نے تل ابیب کا دورہ کرکے دراصل اسرائیلی وجود کو تسلیم کرنے کی سند جاری کردی۔ مبارک نے اسرائیلی مظالم پر ہمیشہ خود غرضانہ و مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی جس نے یہودیوں کو فلسطینیوں کے خلاف سفاک ترین درندگی کا جواز بخشا۔ ڈاکٹر مرسی کا تعلق شہرت یافتہ تنظیم الااخوان المسلمین سے رہا ہے۔ اخوان کی عظیم اور دیدہ زیب فتح پر لاکھوں مصری التحریر چوک پر جشن منارہے تھے۔یہ وہی چوک ہے جہاں سے اٹھنے والی انقلابی تحریک نے عالم عرب کا پانسہ پلٹ دیا۔ مصریوں کا جشن ہر مسلمان کی خاطر باعث اطمینان آسودگی اور نازاں و فخراں تھا مگر راقم الحروف کو مصریوں کی سادہ لوحی پر رنج ہوا اور ساتھ ہی دل کے نہال خانوں میں یہ سوال ٹھاٹھیں مارنے لگا کیا انقلاب مصر مکمل ہوچکا؟ کیا امریکہ کی اندھی آنکھوں میں کھٹکنے والی جہادی جماعت اخوان سامراجی سازشوں کی بھرمار میں ریاستی معاملات کو ہینڈل کرسکے گی؟ڈاکٹر مرسی کی کامیابی خطے پر یورش کرنے والے اثرات کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ اخوان المسلمین کس چڑیا کا نام ہے؟ اسکی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے مصر کا مستقبل حقیقت بنکر ہمارے سامنے اسکتا ہے۔ اخوان کی بنیاد معمولی استاد سمجھے جانیوالے معلم حسن النبا نے1928 میں رکھی۔ سادہ لوح دکھائی دینے والا استاد ہمت جنون اور جرات کا کوہ گراں تھا اسکی بلاغت جنون پادہ پیمائی اور دانشوارانہ اور فلسفیانہ فکر و اگہی نے اخوان کو گراس روٹ لیول اور گلی کوچوں تک پہنچادیا۔ یہ وہ دور تھا جب مصر میں اسلام سے بیزاری اور روشن خیالی کا دور دورہ تھا۔ مصریوں کو خدائی تعلیمات کی طرف راغب کرنے اور بیت المقدس کی ازادی کے نعرے لگانے پر حسن النبا پر بدترین ریاستی تششدد کیا گیا۔وہ ریاستی اور سامراجی فرعونوں کے سامنے ڈٹ گیا۔آخر کار انہیں شہید کردیا گیا۔ تینوں مصری صدورجمال ناصر انور سادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان کے کارکنان پر پھانسیوں قید و بند کی صعوبتوں اور جان لیوا تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔حسن البنا کے قریبی ساتھیوں اور سکالرز کو پھانسی گھاٹ کی سزائیں دی گئیں۔ اخوان کے کارکنوں کی تربیت دیگر اسلامی آرگنائزیشن کے مقابلے میں مختلف انداز میں ہوئی۔اخوان نے عوامی بھلائی کے شعبوں میں خوب نام کمایا۔اخوان کی میڈیکل ٹیم ٹرسٹ بن چکی ہے جس نے روئے ارض کے ہر کونے پر انسانیت کی آواز و صدا پر اپنی خدمات کا لوہا منوا یا۔ اخوان نے اقتدار تک رسائی کو اپنا ہدف نہیں بنایا بلکہ اخوان نے نئی نسل کی تعلیم و تربیت دعوت دین اور احترام انسانیت کا بیڑہ اٹھایا جس نے اخوان کو ہر مصری کے دل کی دھڑکن بنادیا۔اخوان کے ترجمان نے بتایا کہ جیت میں سیاسی جدوجہد صرف پانچ فیصد تھی جبکہ بقیہ95٪ کامیابی دینی تعلیم و تربیت اور عوام الناس کی تعمیری اور فلاحی کاوششوں کا طرہ امتیاز ہے۔ حسنی مبارک کے بعد پہلے پارلیمانی جمہوری الیکشن میں اخوان بڑی پارٹی بن گئی اور ڈاکٹر مرسی اخوانی صدر بن گئے۔ مسلم دنیا کی ہسٹری میں پہلا موقع ہے کہ کسی مسلمان ملک کے اندر کوئی اسلامی تحریک الیکشن جیتنے میں بامراد ٹھری۔ اخوان کی جیت اپنی جگہ مگر ایسٹیبلشمنٹ جرنیل اور بیوروکریسی منتخب حکومت کو زیادہ پاورز دینے کی راہ میں مزاحم ہیں۔ دوسری طرف اخوان بھی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے جب تک اخون کے سارے دھڑے یکسو نہیں ہوتے تب تک کسی نیک شگونی کا اظہار دیوانے کی بڑ ہوگا۔ ڈاکٹر ابو منعم ایک گروپ کے مہاراج ہیں۔ اخوان سے الگ ہونیوالہ ایک دھڑا سلفیوں کا ہے جو شدت پسند سمجھے جاتے ہیں۔سلفیوں نے النور کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا اور 25 نشستیں جیت کر ہر کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ایک گروہ حسنی مبارک کے مقربین اورخوشہ چینوں کا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر مرسی ان منقسم گروہوں کو کب اور کیسے جوڑ پاتے ہیں؟ ڈاکٹر مرسی کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ معیشت کا پہیہ ڈانواڈول ہے۔ سیاسی انتشار افراتفری زوروں پر ہے۔ مہنگائی بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ سنگین چیلنج ہے۔ڈاکٹر مرسی نے منتخب ہونے کے فوری 20 منٹ بعد اپنی جماعت کو چھوڑ دیا کہ وہ اب پورے مصر کے صدر ہیں۔منتخب صدر کو مغرب اور اسرائیل اور عالمی قاتل امریکہ سے کسی قسم کے تعاون کی نہ تو امید کرنی چاہیے اور نہ ہی ڈالروں کی خیرات کے لئے سامراجیوں کے سامنے جھولی پھیلانا چاہیے۔ مصری صدر کو رابرٹ فسک کی اس پیشین گوئی پر دھیان دینا ہوگا کہ وائٹ ہاؤس مرسی کو صدر تسلیم نہیں کرتا۔امریکہ اخوان حکومت کو گرانے کا مکروہ دھندہ ضرور کرے گا۔ انقلاب مصر ابھی مکمل نہیں ہوا مصریوں کو جرنیلوں بیوروکریٹوں کے خلاف ایک اور جدوجہد کا راونڈ کھیلنا ہوگا۔یاد رہے ۔ فوجی عسکری دفاعی اداروں پرحسنی مبارک کے مریدین کی وافر مقدار مسلط ہے جنکو نکالے بغیر انقلاب کی تعبیر کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکتا۔ امریت کی باقیات جرنیلوں افسر شاہی اورسرمایہ دارں کے خلاف ٹیگور کے محولہ بالہ قول کی روشنی میں مصریوں کو فائنل راونڈ کھیلنے کی تیاری کرنی ہوگی اگر تیسرا راونڈ ملتوی کرنے کی غلطی کی گئی تو پھر انجام گلشن وہی ہوگا جسکا تذکرہ ٹیگور نے سالوں قبل اپنے قول میں کردیا تھا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.