جموں کشمیر یوتھ کانفرنس کا احوال اور سول سوسائیٹی کا دنیا میں کردار

ملکوں و ریاستوں کا نظام حکومت چلانے میں مدد اور عوامی سوچ و ضروریات کوحکومتوں کے بالا دست ایوانوں تک پہنچانے کیلئے سول سوسائیٹی کا متحرک ہونا ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہاہے ، سول سوسائیٹی کہ یہی نمائیندگان اپنے مطالبات و سوچ وفکر کو حکومتی مشینری چلانے والوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں اور اکثر اوقات مشاہدے میں بھی آیا ہے کہ یہی سوسائیٹیز ایک پر امن جدوجہد کے بعد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔جس کی واضح مثال فلسطین،ترکی ،مصر ودیگر کئی عرب ممالک کی موجودہ اسلامی نظریہ و فکر رکھنے والی حکومتوں کا قائم ہونا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت سے کسی کو انکار نہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں جن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ حیثیت کی حامل ریاست ہے اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کو ہی حق رائے دہی کے ذریعے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے جبکہ پاکستان اور بھارت کے ذمہ یہ اہم کام لگایا گیا کہ دونوں طرف ایسا ساز گار ماحول پیدا کیا جائے کہ جس میں ریاست بھر کے باسی آزادی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں اس کیلئے ہر گز یہ شرائط نہیں رکھی گئیں تھی کہ ریاست بھر کے باسی پاکستان یا بھارت سے اپنا الحاق کریں بلکہ یہ اختیار کشمیریوں کو دیا گیا کہ وہ آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہیں یا کسی دوسرے ملک سے الحاق کرنا چاہیں ۔لیکن کشمیریوں کی آج تک بد بختی کہیں یا بد قسمتی کے ناہی ان کیلئے بھارت آزادی حق رائے دہی کا ساز گار ماحول پیدا کر سکا اور نا ہی پاکستان ان کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق وہ ماحول میسر کروا سکا۔دونوں طرف کی کشمیری قیادت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے ریاست بھر کے باسیوں کیلئے آزادی حق رائے دہی کا جو ماحول میسر کروانا تھا وہ انہوں نے ریاست کے موجودہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے حصول اقتدار کیلئے پس پشت ڈال دیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایک طرف بھارتی مقبوضہ کشمیر(ویلی ،جموں ،لداخ) میں نہتے کشمیریوں 7لاکھ سے زائد فوج مسلط کر کہ ظلم و ستم و بربریت کی داستانیں دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہیں جبکہ دوسری جانب ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی بھی اقوام متحدہ نے ذمہ داری لگائی تھی کہ ریاست کشمیر میں بسنے والوں کیلئے آزادی حق رائے دہی کا ماحول ساز گار کیا جائے، یہاں وہ ساز گار حالات تو آج تک نہ بنائے جا سکے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ پاکستان نے کشمیریوں کیلئے بارہا جدوجہد کی جس کو عملی شکل مختلف جنگوں میں شریک ہو کراپنے لاکھوں جوان شہید کروانا بھی شامل ہے ،پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کو اپنی مرضی سے جینے کا حق نہیں چھینا گیا ۔47ئ کے بعد آزاد کشمیر میں جو حکومت قائم کی گئی اس کے اختیارات کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محدود تر کر دیا گیابلکہ ریاست کو کہیں اورحصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کی واضح مثال چین کو کشمیر کا ایک بڑھا حصہ تحفہ کے طور پر دینا ،کشمیر کے ایک بڑے حصہ گلگت بلتستان کو صوبائی شکل دے دینا بھی ہے ۔ پاکستانی زیر کنٹرول آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات کو اس حد تک محدود کر دیا گیا ہے کہ کشمیر کونسل جو پاکستانی حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ہے کو وہ سب اختیارات دےدیئے گئے جو ریاست کے اس حصے پر حکومت کرنے والے منتخب لوگوں کے پاس ہونے چاہیے تھے ۔یوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کو جو حق رائے دہی کے ذریعے اپنے مستقبل کا جو فیصلہ کرنا تھا وہ تو درکنار یہاں ریاست کے مختلف حصوں میں موجود منتخب حکومتوں میں اختیارات کی نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔آج ریاست بھر میں موجود لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ ان کا حق رائے دہی کااختیارکس نے اور کیوں چھینا ہے ،آج اختیارات کی بات ہو رہی ہے کہ جو حکومتیں قائم ہیں ان کے پاس اختیارات کیا کیا ہیں ،ایک طرف سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ریاست کشمیر جو جموں ،ویلی،لداخ ،سیاچن،گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر کنٹرول آزاد کشمیر پر مشتمل ہے کو یکجا کیے جانے کے بجائے سب میں الگ الگ نظام حکومت قائم ہیں ریاست کشمیر کے یہ باسی ایک دوسرے سے الگ ہیں ،آج گلگت بلتستان کے باسی اپنے آپ کو کشمیری قرار دینے سے جھجکتے محسوس ہوتے ہیں اس سب کی وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں جو بھی حکومتیں قائم کی گئی انہوں نے کبھی گلگت بلتستان کو اپنا حصہ سمجھا ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے باسی ہم سے دور ہو گئے ہیں ۔

ان تمام حالات میں جب اقوام متحدہ کی قراردادیں پست پشت دال دی گئی ہیں ایسے وقت میں اگر کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے تو وہ سول سوسائیٹی ، غیر سیاسی تنظیموں اوراین جی اوز کا ہے جو ان حکومتوں میں آپسی اختیارات کو متوازن کرنے کیلئے کیے جانے والے عملی اقدامات کر رہے ہیں اور عوام میں شعور پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔گزشتہ ماہ ایک غیر سیاسی تنظیم (سی پی آر ڈی ) کے زیر اہتمام حکومت پاکستان اور آزاد جموں کشمیرکے مابین مروجہ آئینی ،مالیاتی اور انتظامی انتظامات کے حوالے سے مکالمہ کروایا گیاجس نے بھرپور پذیرائی حاصل کی اس کے کچھ ہی دن بعد'' جموں کشمیر یوتھ کشمیر کانفرنس' 'کے نام سے ایک غیر سیاسی تنظیم جس کو بنے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے اس تنظیم میں ریاست کشمیر کے ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو لیا جاتا ہے جن کا تعلق خواہ کسی بھی مکتبہ فکر یا نظریہ سے ہولیکن مجموعی طور پر وہ مثبت سوچ کے حامل ہوں۔ ان پلیٹ فارم سے ایک پروگرام راولپنڈی میں کروایا گیا جس میں راولپنڈی اسلام آباد کے کالجز اور یونیورسٹیزمیں زیر تعلیم ایسے کشمیری طلباءکو شامل کیا گیا جوطلباءجماعتوں کے ساتھ منسلک رہے ہوں یا سول سوسائیٹی میں مثبت کردار ادا کرر ہے ہوں ،پہلی کانفرنس بہت حد تک کا میاب رہی مختلف نظریات کے حامل طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر بڑے مقصد کیلئے یکجا ہونے کا موقع ملا ،دوسری کانفرنس گزشتہ دنوںراولاکوٹ میںمنعقد کروائی گئی جس کا موضوع'' 24اکتوبر 1947ءکی قرار دار تھا'' اس کانفرنس میںتمام طلبہ تنظیموں کو نمائندگی کیلئے مدعو کیا گیا اور تقریباً ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ رہنماﺅں جن میں بلال شکیل خان، قیصر خان،غزالی خان سکندر،عمیر افراز، شاہد گلگتی(گلگت) ، محفوظ انقلا بی (جموں)،ناصر سرور،ساجد صادق، سبطین، احسن اسحق، راشد بخاری، طلحہٰ خان، دانش ریاض، سبغتہ اللہ ، بلال اختر، فیصل افسر، انیس کاشر، ارباز ایڈووکیٹ، اسرارلحق ، تابی تاثیر، ثاقب سعید، فیضان اعجاز، عدنان ریاض اور صدام نسیم شریک تھے، کانفرنس میں گلگت بلتستان ،جموں سمیت آزاد کشمیر ریاست بھر کو نوجوانوں نے خصوصی شرکت کی۔

اس کانفرنس کامشترکہ اعلامیہ ایک قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرنے کے بعد جاری کیا گیا کہ ریاست جموںو کشمیر کی مکمل آزادی کے لئے سیاسی ،سفارتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اگر کسی وقت عسکری جدوجہد کی بھی ضرورت پڑی تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا ۔ تقسیم کشمیر کو کسی بھی صورت میں قبول نہ کرنے کا عہد کرنے کے ساتھ تحریک آزادی کشمیر کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے انٹرنیشنل سطح پر اجاگر کرنے کے لئے جدوجہد کر نے کا اعلان کیا گیا ، کانفرنس میں کشمیریوں کو حق رائے شماری کا اختیار دیئے جانے کے بھرپور مطالبہ کے ساتھ 24 اکتوبر 1947ءکے ا علامیہ کی روح سے آزاد کشمیر کی حکومت کو چلائے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ ریاست بھر میں نافذ تمام ایسے کالے قوانین جن سے کشمیریوں کا تشخص متاثر ہو ایسے قوانین کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ریاست بھرمیں قید تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنا شامل ہے ۔

کانفرنس میں سوال اٹھایا گیا کہ 24 اکتوبر 1947 ء کو قائم کی گئی حکومت مسلم کانفرنس کی تھی اس لئے اس وقت 23 فیصد سے زائدغیر مسلم کشمیری اس حکومت میں شامل بھی نہیں تھے تب کی اس حکومت کو ریاست کشمیر کی نمائندہ حکومت کیسے مانا جا سکتا ہے ۔ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ریاست کشمیر( گلگت بلتستان ، لداخ ، ویلی، جموں اورموجودہ آزاد کشمیر )کے عوام کو ایک متفقہ نقطہ پرراضی کرنا ہو گااس کےلئے ریاست بھر کے نوجوانوں کو جدوجہد کرنے کا کہا گیا ۔ کانفرنس میںکہا گیا کہ پاکستان کے آئین میں یہ شق شامل ہے کہ آزاد کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اس لئے اس کی حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی مرتب ہوسکتی ہے ۔ کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کے 74ءکے آئین میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کر کے کشمیر کے تشخص کو برقرار رکھا جائے ۔کانفرنس میںآزاد کشمیر کے نصاب میں تبدیلی لاکراصل تاریخی حقائق کو سامنے لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔کانفرنس کے شرکاءنے آزاد کشمیر سے چیف سیکرٹری اور لینٹ آفیسران اور جی او سی مری کے اختیارات پر سخت تحفظات کا اظہار بھی کیاگیا ۔

کانفرنس میں تمام شرکاءکومتعلقہ موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع تودیا گیا لیکن مقررین کی ایک بڑی تعداد نے اس غیر سیاسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ذاتی نظریات کا کھل کر پرچار کرنے کے ساتھ ساتھ رئیس الاحرارچوہدری غلام عباس، غازی ملت ابراہیم خان جیسی قد آور شخصیات کو بھی اخلاقی اقدار کا خیال کیے بغیر ان کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا گیاجو کسی بھی طرح درست نہیں گو کہ اختلاف رائے کا حق سب کے پاس ہوتا ہے لیکن ایسی سنجیدہ علمی محفلوں میں اخلاقیات کے دائرے میں رہ کرگفتگو کرناسب کو سیکھنا ہو گا دوسرا یہ کہ جس موضوع پر گفتگو کیلئے بلایا جائے اسی پر سیر حاصل گفتگو کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ہے نا کہ اپنی سیاسی بلاغت کو دکھانے کیلئے زیادہ وقت لیا جانا چاہیے ،خیر کانفرنس ایک منفرد حیثیت کی حامل تھی، منتظمین نے کمال مہارت سے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی گفتگو سنی اور اسے اختتام تک پہنچایا ،ایسی کانفرنسز اور ایسے پلیٹ فارمزکی ریاست بھر کے کشمیریوں کو سخت ضرورت ہے تاکہ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جا سکے ،یہاں پر کانفرنس منتظمین کو مبارکباد کے ساتھ ساتھ ایک مشورہ بھی دوں گا کہ سب سے پہلے اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے اپنے اس پلیٹ فارم میں اصل غیر سیاسی لوگوں کو شامل کریں اور ان کو زیادہ ذمہ داریاں دیں کیونکہ آپ میں سے اکثرلوگ اپنی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بہت زیادہ منسلک ہیں اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ آپ تمام لوگ ایک حد سے زیادہ غیر سیاسی نہیں ہو سکتے اور کانفرنس میں شریک بہت سے لوگ منتظمین کے اپنے سیاسی تعلق پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں ،اس لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھ ایسے غیر سیاسی قابل لوگوں کو شامل کریں جن کی سرپرستی میں اپنی منزل تک پہنچنے کی جدوجہد کر سکیں وگرنہ ایک مخصوص حد سے آگے نکلنا مشکل ہو تا ہوا نظر آتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں نے ''جموں کشمیر یوتھ کانفرنس ''کی بنیاد ڈالی ان کا ریاست کشمیر کیلئے یہ ایک اہم اقدام ہے ،اس طرح کا تاریخی قدم اٹھا کر انہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے لیکن جونہی اس پلیٹ فارم کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا فائدے سے زیادہ نقصان بھی ہو سکتا ہے اس لیے اغیاروں کے اس دیس میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔منتظمین نے اس پلیٹ فارم کو مخلصانہ طور پر شروع کیا توان کے ساتھ دیگر مخلس لوگ کود بخود شامل ہوتے ہی جائیں گے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ حکمت عملی میں تبدیلی لانا بھی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ریاست جموں کشمیر کو یکجا کرنے کیلئے اور کشمیریوں کے تشخص کو بھال کرنے کیلئے ان غیر سیاسی تنظیموں کے ذریعے چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے تا کہ اصل بڑے مقاصد کو سول سوسائیٹی کی معاونت سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جدوجہد کی جا سکے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66254 views Columnist/Writer.. View More