محبت

کافی دنوں سے کچھ اس طرح کی مصروفیات نے گھیرا ہوا ہے کہ نہ اخبارات پڑھ سکا، نہ ہی ٹی وی دیکھ سکا، ایک تشنگی کے ساتھ اطمینان کی کیفیت چھائی رہی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے۔ کبھی کبھار ایسی کیفیت بھی اچھی لگتی ہے کہ آپ ہر منٹ بعد ”بریکنگ نیوز“ نہ سنیں اور کئی دن اخبار یا ٹی وی نہ دیکھ سکیں اور ظاہر ہے کہ آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ ہم اس وقت گراوٹ کی کن انتہاﺅں کو چھو رہے ہیں، اس سے بڑی گراوٹ کیا ہوگی کہ وہ شخص وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوچکا ہے جس نے اس قوم کو اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا اور جس کی کرپشن کے چرچے دنیا جہان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنی ذاتی مصروفیات کی بناءپر پوری قوم کی طرح وزیر اعظم کے اس الیکشن پر مایوسی کے اندھیروں میں نہیں بھٹکا، کسی حد تک اثر ضرور لیا لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ ”غم روزگار نے غم جاں بھلادیا“ اس کے ساتھ ساتھ مسیحاﺅں کو ہڑتال پر دیکھ کر اور ان کی ہڑتال سے مریضوں کو بلکتا اور مرتا دیکھ کر، خصوصاً ننھے اور معصوم بچوں کو، طبیعت کا بوجھل ہونا ایک فطری عمل تھا، تو کچھ ایسا ہی حال تھا میرا آجکل، اسی لئے قارئین سے معذرت کہ کچھ دنوں سے لکھ نہ پایا۔

سب کچھ دیکھ کر اور محسوس کرکے یوں لگا جیسے اب ہم کسی سے محبت نہیں کرتے، یہاں تک کہ اپنی ذات سے بھی نہیں۔ جو معاشرہ محبت سے محروم ہوجائے وہاں امن و سکون ہو بھی کس طرح سکتا ہے۔ محبت ایک ایسا لفظ ہے جس میں واضح طور پر شیرینی محسوس ہوتی ہے، ایک مٹھاس کا احساس ہوتا ہے۔ ایک انسان اپنی پیدائش سے لیکر لحد میں اترنے تک بہت سی محبتیں وصول کرتا ہے اور بہت سی محبتوں کی ادائیگی بھی۔ ایک بچے کے والدین اس پر دنیا جہان کی محبتیں نچھاور کردیتے ہیں، اس کے باقی عزیز و اقارب، دوست احباب، شادی کے بعد میاں یا بیوی....! اس کے علاوہ ہم اگر اپنے کام سے محبت کریں، اپنے ملک سے محبت کریں، اپنے معاشرے سے ، انسانیت سے اور بطور مسلمان اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم ﷺ سے محبت رکھیں تو ہم سکون کی زندگی بھی گذار سکتے ہیں اور دوسروں کو آسانیاں بھی فراہم کرسکتے ہیں، لیکن آج میں اس محبت کی بات کرنے جا رہا ہوں جو دو مخالف جنس کے لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب دو دلوں کے مابین محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اگر ملاپ نہ ہو، سنگم نہ ہو اور مہذب الفاظ میں شادی نہ ہو تو محبت ناکام ہوجاتی ہے، دل ٹوٹ جاتے ہیں، دنیا ویرانہ لگنے لگتی ہے، جنگلوں اور بیابانوں میں جانے کو دل کرتا ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا، آدمی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے، کئی لوگ خودکشیاں کرلیتے ہیں یا ایک خول اپنی ذات پر اس طرح چڑھا لیتے ہیں کہ خود بھی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے ماں، باپ اور دوسرے قریبی عزیزوں کے لئے بھی دکھ اور تکلیف کا سامان کردیتے ہیں۔

یہ محبت میں ”ناکامی“ کا ایک نتیجہ تو ہوسکتا ہے لیکن میری ایک ایسے شخص سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی جو ایسی محبت کو محبت نہیں سمجھتا جس میں شادی نہ ہونے سے دل ٹوٹ جائیں اور محبت کو ناکام قرار دیدیا جائے۔ وہ بھی ”کسی“کی محبت میں مبتلا ہوگیا تھا، نہ ملنے کی کسک اس کی باتوں سے عیاں تھی لیکن اس نے اس محرومی کو اپنے اوپر سوار نہیں کیا اور نہ ہی اپنی ناکامی سمجھا بلکہ اس نے دو دلوں کی اس دوری کو اپنی کامیابی بنا لیا اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اکثر شعرا جب محبوب کی اور اس کی ذات کی باتیں کرتے ہیں تو ان میں کتنا دکھ اور اذیت ہوتی ہے لیکن ان کی وہی اذیت اور حساسیت دوسروں کے جذبات کی ترجمانی بھی کرتی ہے اور محبت کرنے والوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے احساسات کو کسی نے زباں دیدی ہو۔ اسی طرح کی حالت اس ”مجنوں“ کی تھی۔ اس کے محبوب کی شادی کسی اور کے ساتھ ہوگئی تھی اور وہ خاتون شادی کے بعد بیرون ملک جا چکی تھی، ان کا رابطہ ای میل کے توسط سے ممکن ہوسکا لیکن وہ عجیب شخص بہت اچھی شاعری صرف اس خاتون کے لئے کرتا ہے اور دوسرے بھی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ شائد یہ شاعری ان کے احساسات کی ترجمانی کرتی ہے، وہ شخص بھی اب شادی شدہ ہے اور ایک اچھی گھریلو زندگی گذار رہا ہے، میں نے جب کرید کرید کے اس کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بہت کچھ بتایا، مجھے لگا کہ وہ خوبصورت شاعری کرنے کے لئے علاوہ بھی ایک کامیاب اور مطمئن شخص ہے لیکن ذرا غور کیا تو یہ بھی محسوس ہوا کہ محبوب کے دور جانے سے ایک عجیب طرح کی کسک بہرحال ہے اس کے اندر۔ مجھے یہ خوشی تھی کہ اس نے محبت کی ناکامی کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا، خانگی زندگی کی کامیابی کے ساتھ وہ اپنی طرف سے محبت بھی نبھا رہا ہے، شائد کسی کی سوچ میں وہ دوہری زندگی گذار رہا ہو لیکن ہمارے معاشرے میں کون ایسا شخص ہے جو یہ کام نہیں کررہا۔ میں نے اصرار کرکے اس سے اس کی تازہ شاعری سننے کی فرمائش کی جس کے جواب میں اس نے ایک آزاد نظم میرے حوالے کردی، میں نے اپنے کالم میں شائع کرنے کی اجازت مانگی تو اس نے کمال مہربانی سے اپنے نام کے بغیر کالم میں شامل کرنے کی اجازت دیدی، بغیر کسی تبصرے کے میں قارئین کی نظر کررہا ہوں، نظم کا عنوان ہے ”مرنے سے ذرا پہلے“
یہ ہو نہیں سکتا کہ تمہیں بھول جاﺅں میں
لمحات وہ جو میں نے تیرے سنگ گذارے
وہ زندگی سے بھی مری جاں لگتے ہیں پیارے
یہ کامیابیاں مری اپنی جگہ پہ ہیں
جو مل رہی ہیں مجھ کو
صبح شام، روز و شب
لیکن میں یہ کہوں گا، میری جان آرزو
جانے سے تیرے، زیست میں جو ایک کمی ہے
جانے سے تیرے جاں پہ جو میری جان بنی ہے
یوں لگتا ہے یہ زندگی
جنجال بنی ہے
جو باقی میری عمر اب گذرے گی دلربا!
یوں لگتا ہے
گذرے گی اب یادوں کے سہارے
وہ لمحہ بھی اب دور نہیں
جن اے جان من
میں زندگی سے روٹھ کے بس جاﺅں کہیں اور
لیکن یہ پاگل
دل مرا
کہتا ہے بار بار
وہ لمحہ
جب آئے
تو تیری بانہوں میں آئے
اک دوسرے میں گم ہوں
یوں پیوست ہوں دونوں
نہ تو ہی تو رہے
نہ میں ہی میں رہوں
یہ سر ہو میرا گود میں تیری
اے مہہ جبیں
آنسو ترے بھگو دیں مرے قلب و جگر کو
تیرے وہ لب
گلاب کی مانند جو دکھیں
بھر دیں وہ زندگی
مرے ہونٹو ں میں یک بہ یک
وہ حسرتیں، وہ آرزوئیں عمر بھر کی جو
دل میں ہی رہ گئیں
وہ ساری باتیں
سارے وہ شکوے اے ہم نشیں
جن میں
بس ایک تو ہی تھی
بس تو ہی جان من
سب تم سے کہہ سکوں
وہ ایسی گھڑی ہو
خوشیاں ہوں ہر طرف
میں خاک اوڑھنے سے قبل دیکھ لوں تجھے
اور محسوس کرسکوں
اور چھو سکوں تجھے
تجھ بن جو میری خواہشیں پوری نہ ہو سکیں
منزل انہیں ملے
اور تیرا یہ دیوانہ
مرنے سے ذرا پہلے
مر جائے خوشی سے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206993 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.