بارک اوبامہ کا حلف۔ ایک سیاہ باب کا خاتمہ

20جنوری کو امریکہ کے 44ویں صدر بارک اوبامہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ۔ پوری دنیا میں جہاں ان کے حلف پر خوشی کا سماں تھا وہیں بش کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے ۔ اور جوتا ہر طرف چھایا رہا ۔ مختلف ممالک میں مظاہرے ہوئے بطور خاص امریکہ کے قصر ابیض پر جوتوں کی بارش شاید پہلا واقعہ ہے ۔ وہائیٹ ہاﺅس بھی کیا سوچ رہا ہو گا کہ”کس شیطان کی روانگی ہے کہ جوتے پڑ رہے ہیں “۔

اس موقع پر سب سے قابل ذکر کام جو ہوا وہ اوبامہ صاحب کا بے ترتیب حلف ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ حلف اٹھانا پڑا۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو نکالے جا سکتے ہیں اور مختلف تجزیہ نگار مصروف عمل بھی ہیں۔ اس موقع پر میرے ذہن میں جو افکار موجزن ہیں وہ ذیل میں ہیں۔

اس کے مثبت پہلو تو یہ ہے کہ غلطی کا احساس ہوتے ہی ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ چیف جسٹس کو جب احساس ہوا کہ الفاظ کی ترتیب درست نہیں ہے تو انہوں نے دوبارہ تقریب کا اہتمام کیا اور غلطی پر ڈٹنے کی کوشش نہیں کی۔اگر ہمارے جج صاحب ہوتے تو فیصلہ ان ہی کے حق میں ہونا تھا۔ جہاں تک منفی پہلو کا تعلق ہے تومیرے خیال میں جب غلطیوں کے اعتراف کا موسم ہو اور ہر شخص کو اپنی غلطیاں یاد آرہی ہوں تو ایسے میں غلطی کا ارتکاب ماحول کو خراب کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بش جنہوں نے ابتدا غلط نہیں کی ، یعنی حلف ٹھیک پڑھا تھا، اپنے دور میں ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جوتوں کی بارشیں ہیں ۔ اور اوبامہ صاحب کی تو پہلی اینٹ ہی غلط ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بش اور اس کے حواریوں کو رخصتی کے وقت غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے دیکھ کر اوبامہ صاحب نے سوچا ہو کہ چلو ہم بھی آخر میں اعتراف لیں گے۔ پوچھنا تو ویسے بھی کسی نے نہیں ہے۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں “ کے مصداق ایک دن اوبامہ صاحب نے بھی اس کرسی کو الوداع کہنا ہے ۔دانشمندی تو یہ ہے کہ وہ ایسا موقع ہی نہ آنے دیں کہ انہیں جوتوں کے سائے میں رخصتی پر مجبور ہونا پڑے۔

یہ ساری باتیں تو ضمنا تھیں۔ لیکن اس حلف کے موقع پر دنیا میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ امید کی ایک کرن ابھری ، ہر کسی کو نہ جانے کیوں یہ یقین ہوچلا ہے کہ صدر اوبامہ تبدیلی لائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر بش نے اپنے دور اقتدار میں دنیا کو ظلم، خونریزی، فساد، استحصال، اقتصادی تباہی اور نفرت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ امریکہ کے خلاف جو نفرت ان آٹھ سالوں میں ابھری ہے اس سے پہلے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ خود امریکی عوام کی دلی خواہش تھی کہ کسی طرح اس سیاہ باب کا خاتمہ ہو۔ جس کا ثبوت پہلی بار تو انتخابات میں ملا جب بش کی پارٹی کا امیدوار برے طریقے سے ناکام ہوا۔ اور پھر جب صدر اوبامہ اپنے عہدے کا حلف لے رہے تھے تو جوتوں کے سائے تلے بش صاحب کی رخصتی کا منظر اسی خواہش کا برملا اظہار تھا۔

لیکن عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے صدر اوبامہ کو دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان کے پیش رو جس حالت میں ملک ان کے حوالے کر گئے ہیں اس میں انہیں سنبھلتے سنبھلتے کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے بھی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح سبز باغ دکھانے کے بعد سابقہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا، اور تبدیلی کے وعدوں کو ”کتاب مقدس “ کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا تو دنیا میں ایک بار پھر اندھیرا چھا جائے گا۔ اور اس بار اس کی شدت شاید پہلے سے زیادہ ہو۔  
Ikram ul Haq
About the Author: Ikram ul Haq Read More Articles by Ikram ul Haq: 5 Articles with 7357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.