پاکستانی، من حیث القوم، کام کو
کِس قدر اہمیت دیتے ہیں اِس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ بہت سے لوگ کام
پر جانے ہی کو کام سمجھتے ہیں! اور یہی سبب ہے کہ وہ دفتر، فیکٹری یا دُکان
پر پہنچنے کے بعد مزید کام کرنے کو اپنے لیے عار جانتے ہوئے ایک طرف پڑے
رہنے کو ترجیح دیتے ہیں!
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دلیپ کمار کی شاندار المیہ اداکاری دیکھ کر آپ غم
کی اصل کیفیت کا جامع ترین حالت میں مشاہدہ کرچکے ہیں تو آپ کی سادگی پر
قربان جائیے۔ بہتوں کا یہ خیال ہے کہ غم کی شدت کو چہرے اور لہجے کے ذریعے
بیان کرنے میں نیر سلطانہ کا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ سب لوگ اب تک حقیقت
سے باخبر نہیں۔ شاندار المیہ اداکاری تو ہمارے ہاں کام کے مقامات یعنی
دفاتر، فیکٹریز اور دُکانوں وغیرہ میں دکھائی دیتی ہے۔ کام پر جانا اب
پاکستانیوں کے لیے ایک ایسی کیفیت جس کے بیان کے لیے المیہ اداکاری پوری
تفصیل کے ساتھ رگ و پے میں سمونا پڑتی ہے! چھوٹے بچوں کو مدرسے یا اسکول
بھیجتے وقت والدین کو جس نوعیت کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بس کچھ
ایسی ہی کیفیت سے ہم روزانہ کام پر روانہ ہوتے وقت گزرتے ہیں! فرق صرف یہ
ہے کہ بچپن میں تو والدین دھکّے مار مار کر اسکول یا مدرسے پہنچایا کرتے
تھے، اب دھکّے سیلف سروس کے نام پر مارنے پڑتے ہیں! اِس نقطہ ¿ نظر سے
دیکھیے تو پوری قوم ہی ”دَھکّا اسٹارٹ“ ہے!
ایک زمانہ تھا جب فلمیں ہیرو کی انٹری کے حوالے سے بھی یاد رکھی جاتی تھیں۔
پُرانی فلموں میں ہیرو کی انٹری یعنی فلم میں اُس کا پہلا سین کچھ یوں ہوا
کرتا تھا کہ ماں کپڑے سی رہی ہوتی تھی، بیٹا دوڑ رہا ہوتا تھا۔ دونوں سین
ایک دوسرے میں گڈمڈ کئے جاتے تھے اور پھر سلائی مشین کا پہیہ گھومتا جاتا
تھا اور بچہ دوڑتے دوڑتے بڑا (یعنی ہیرو) ہو جاتا تھا اور سنیما ہال کی
فضاءتالیوں سے گونج اٹھتی تھی! زمانہ بدلا تو ہیرو کی انٹری بھی تبدیل ہوئی۔
اب چند ڈائیلاگ چل رہے ہوتے ہیں جن میں ہیرو کا ذکر ہوتا ہے اور پھر اچانک
ہیرو اسکرین پر نمودار ہوتا ہے۔ پاکستان کے بیشتر دفاتر اور فیکٹریز میں
ایسے ہیروز کی کمی نہیں جن کی انٹری روزانہ ایک یادگار منظر کو جنم دیتی ہے!
جو لوگ یہ تصور اپنے ذہن میں راسخ کرچکے ہیں کہ اللہ نے اُنہیں کام کرنے کے
لیے پیدا ہی نہیں کیا وہ روزانہ کام پر جاتے وقت کئی صدیوں کا دُکھ اپنے رگ
و پے میں سمایا ہوا محسوس کرتے ہیں! اُردو شاعری میں جس برہن کے دُکھڑوں کا
رونا رویا گیا ہے وہ ہمیں اپنے دفاتر کے بہت سے ہیروز میں پورے جوبن پر
دِکھائی دیتی ہے! یہی وہ لوگ ہیں جو گھر سے کام پر روانہ ہونے اور دفتر میں
داخل ہونے کو دُنیا کا سب سے بڑا بوجھ اور زندگی کی سب سے بڑی آزمائش
گردانتے ہوئے اپنے چہروں پر غم کی ایسی کیفیت طاری کرلیتے ہیں کہ شہنشاہِ
جذبات دلیپ کمار بھی دیکھیں تو شرما جائیں اور اُنہیں اپنی اداکاری پر جو
تھوڑا بہت مان اور ناز ہے وہ جاتا رہے! میر تقی میر، خواجہ میر درد اور
فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں غم اور حُزن و ملال کی دِل کھول کر تشریح
کی مگر وہ بھی اندرونی کرب کی وہ کیفیت پوری طرح بیان نہ کرسکے جو ہمارے
ہاں خاسی مُردہ دِلی اور پژمُرگی کے ساتھ کام پر جانے والے ڈیوٹی شروع کرتے
وقت پلک جھپکتے میں بیان کر جاتے ہیں! مصوّر غم کا لقب پانے والے علامہ
راشد الخیری بھی اگر اِنہیں دیکھتے تو نئے جوش و جذبے کے ساتھ غم کی تصویر
یوں کھینچتے کہ پڑھنے والوں کی آنکھیں چھلک اُٹھتیں!
بعض دفاتر میں ہیرو کی انٹری ایسی دھانسو ہوتی ہے کہ لوگ اُس کے انتظار میں
بیٹھے رہتے ہیں! ہر دفتر کو ایک آدھ ہیرو ضرور ملتا ہے جو کام کو اپنی شان
کے خلاف سمجھتے ہوئے دفتر میں داخل ہوتے وقت تاثرات، چال اور حرکات و سکنات
سے ظاہر بلکہ واضح کردیتا ہے کہ خبردار! اِس وقت کوئی بے تکلف ہونے کی کوشش
نہ کرے کیونکہ ”نہ چھیڑ ملنگاں نوں“ والی کیفیت طاری ہے! ہمارے ہاں بیشتر
دفاتر میں ہیروز کی انٹری کچھ یوں ہوتی ہے کہ دفتر میں داخل ہوتے ہی وہ
سارے زمانے کا کرب چہرے پر سجا لیتے ہیں۔ یہ اہتمام اِس لیے ہوتا ہے کہ
ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آنے پر انچارج اول تو کوئی پوچھ گچھ ہی نہ کرے اور اگر لیٹ
ہو جانے کا سبب پوچھنے کی غلطی کر ہی بیٹھے تو چہرے پر ایک نظر ڈالنے کے
بعد مزید کچھ پوچھنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہ کر پائے! اِس شاندار انٹری
کو دیکھ کر ”دِل لگی“ کا آخری سین یاد آتا ہے جس میں اُجڑے چمن کی تصویر
بنا ندیم بکھرے بالوں اور دس دِن کی شیو کے ساتھ شبنم کو یاد کرکے گاتا ہے....
ہم چلے اِس جہاں سے! ذرا دفتر کے ہیرو کی شان ملاحظہ فرمائیے کہ انٹری ہی
میں کلائمیکس دِکھا دیتا ہے!
دھانسو قسم کی انٹری مارنے کے بعد ہیرو نڈھال سا، تقریباً لنگڑاتا ہوا اپنی
سیٹ پر بیٹھتا ہے۔ اگر کوئی خیریت پوچھنے کی غلطی کر بیٹھے تو بس یہ سمجھ
لیجیے کہ بھرے ہوئے گٹر کا ڈھکن ہٹادیا! غیر معمولی صلاحیت کے حامل فِکشن
رائٹرز کے ذہن میں بھی جو آئیڈیاز نہیں سماتے اُن آئیڈیاز کا دریا ہمارے
ہیرو کی زبان سے بہنے لگتا ہے! جواز کہیے تو جواز اور بہانہ کہیے تو بہانہ۔
دیر سے آنے، گزشتہ روز کام مکمل نہ کرنے اور آج کام کا مُوڈ بالکل نہ ہونے
سے متعلق جو بہانے ہمارا ہیرو تراشتا ہے وہ اگر جُغادری قسم کے ڈرامہ نگار
بھی سُن لیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبالیں، بلکہ چبالیں! دیر سے آنے اور
نڈھال ہونے کی وضاحت ایسی تفصیل اور جزئیات کے ساتھ کی جاتی ہے کہ زور بیاں
پر رشک آنے لگتا ہے! بس یہ سمجھ لیجیے کہ چارلس ڈکنز اور ٹامس ہارڈی جیسے
ناول نگاروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے! آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ ابھی کچھ دیر
پہلے آپ جن راستوں سے گزر کر آئے ہیں وہی راستے میدان جنگ بن چکے ہیں،
ہاتھا پائی ہو رہی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو ”ٹپکانے“ کے فراق میں ہیں!
صدیوں پہلے لوگوں کا دِل بہلانے کے لیے داستان گو ہوا کرتے تھے جو دنیا بھر
کی داستانیں اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے اور مجمع لگاکر سُناتے اور داد
پاتے تھے۔ اب وہ روایتی داستان گو ہماری حاجت نہیں رہے۔ روز ایک نئی داستان
سُنانے والے جو موجود ہیں! یہی وہ داستان گو ہیں جو کام سے یکسر گریز کرکے
دفتر کے ماحول میں اپنی باتوں سے نیرنگی پیدا کرتے ہیں ہیں تاکہ لوگ کام کے
بوجھ تلے دب کر بیزاری محسوس کرنے سے محفوظ رہیں! |