رمضان کیسے گزاریں!

تحریر: حضرت مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالی
الحمد للہ رمضان المبارک آیا ہی چاہتا ہے۔
گناہوں کو جلانے والا مہینہ، شیطانوں کی شامت والا مہینہ، رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں کے نزول کا مہینہ، قرآن والا، جہاد والا، بدر والا اور روزوں والا مہینہ۔ سبحان اللہ۔

اللہ تعالیٰ اسے ہم سب کے لیے مبارک بنائے اور ہم سب کو خوب برکتیں، رحمتیں اور بخشش عطائ فرمائے۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لیے اسے کیسے گزارا جائے؟ کن اعمال کی کثرت کی جائے؟ کن چیزوں سے بچا جائے، اس کا مذاکرہ ضروری اور ہم سب کے لیے کام کی چیز ہے۔ اور اس مقصد کے لیے گذشتہ چھ سالوں میں رمضان المبارک کے حوالے سے لکھے گئے ’’رنگ و نور‘‘ پڑھ لیے جائیں تو انشائ اللہ کافی ہوں گے۔ اب آپ کہیں گے کہ وہ تمام رنگ و نور کہاں سے حاصل کیے جائیں؟ تو جناب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں اور نیٹ پر بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ مگر ان لوگوں کے لیے سوال پھر بھی باقی رہے گا جنہوں نے کتاب ابھی تک خریدی نہیں اور انٹرنیٹ چلاتے نہیں۔ تو ایسے لوگوں کی خدمت کے لیے ہم ہیں ناں!
اصل مزہ اور فائدہ تو اسی میں تھا کہ وہ تمام مضامین مکمل پڑھ لیے جائیں مگر اخباری کالم کی وسعت کے مطابق ہم اپنے لیے اور آپ سب کے لیے ان مضامین کا خلاصہ پیش خدمت کرتے ہیں۔

ادب، احتیاط اور عاجزی سے رہیں
رمضان المبارک کا پورا مہینہ. عبادت اور رحمت والا ہے. اس مہینے کے دن بھی بابرکت. اور اس کی راتیں بھی پرنور. اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے. اس لیے اس مہینے کے داخل ہوتے ہی. ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے. ادب، عاجزی اور احتیاط کی کیفیت. ایسا نہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی. نفس کا جن بوتل سے باہر آجائے. اور گناہ کے کام اور شرارتیں شروع ہوجائیں.

الٹی چھلانگ سے بچنا چاہئے
انسان کا ’’نفس ِ امارہ‘‘ اور شیطان. اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے. رمضان المبارک کا اصل مطلب ہے قربانی. یعنی کم کھانا، کم پینا، کم سونا. زیادہ مال خرچ کرنا. اور خوب جہاد کرنا. اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے. خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے. خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے. خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آجائے. اور خوب مال کمانا کہ ہر وقت بازار کے فسادزدہ ماحول میں بیٹھنا پڑے.

کچھ کام بڑھا دیں
رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ. عبادات میں محنت کرنی چاہئے. اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے. رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر. آخری دن سورج غروب ہونے تک محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے. چنانچہ فوری طور پر یہ کام بڑھادینے چاہئیں.
﴿۱﴾ نماز: یعنی فرائض وواجبات کا خوب اہتمام اور نوافل کی کثرت. رمضان المبارک میں ’’تراویح‘‘ بہت بڑی نعمت ہے. کوئی مسلمان اس نعمت سے محروم نہ ہو. اور تہجد کا بھرپور اہتمام کیا جائے.
﴿۲﴾۔ تلاوت: کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو.
﴿۳﴾۔ صدقات: یعنی خوب سخاوت کی جائے. خوب مال خرچ کیا جائے. ان مسلمانوں تک افطار اور کھانا پہنچایا جائے جو دشمنان اسلام سے ٹکر لے رہے ہیں. یا اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں.
﴿۴﴾۔ جہاد: رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے. غزوہ بدر اسی مہینے میں پیش آیا. اس لیے غزوہ بدر کی ہر یاد تازہ کرنی چاہئے. جان کی قربانی، مال کی قربانی. جہاد کی دعوت. مجاہدین کے لئے ضروریات کی فراہمی. یا جس کام پر تشکیل ہوجائے.
﴿۵﴾۔ آخرت کی فکر: ہم نے اس دنیا میں نہیں رہنا. اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے. یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لئے لازمی ہے. اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور مذاکرہ کیا جائے. تب فضول کوٹھیاں بنانے، مال جمع کرنے اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے . نجات مل جائے گی. اور اعمال میں اخلاص پیدا ہوگا.

یہ پانچ کام زیادہ کرنے ہیں. مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ. ہر عمل کی جان اخلاص اور ذکر میں ہے. یعنی ہر عمل اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے اور ہر عمل میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد کا نور بھرا ہوا ہو. تب وہ عمل قبول ہوتا ہے.

کچھ کام بند کردیں
﴿۱﴾۔ بدنظری. اپنی آنکھوں کی خوب خوب حفاظت کرنی چاہئے . ورنہ رمضان المبارک کا نور حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا.
﴿۲﴾۔ ٹی وی. بالکل بند کردیں، نہ خبریں نہ کچھ اور
﴿۳﴾۔ گناہ والی مجلسیں. وہ مجالس جن میں بے حیائی کی باتیں. غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو. ان مجالس میں بیٹھنا بند کردیں.

چند کام کم کردیں
﴿۱﴾۔ کھانا
﴿۲﴾۔ پینا
﴿۳﴾۔ سونا
﴿۴﴾۔ جائز لذت حاصل کرنا
﴿۵﴾۔ گفتگو کرنا
﴿۶﴾۔ دنیوی اخبارات ورسائل پڑھنا

یہ تمام کام عام دنوں سے کم کردینے چاہئیں.

روزانہ کا سوال
روزانہ بلاناغہ. دو رکعت نماز صلوٰۃ حاجت پڑھ کر دعا کیا کریں. یا اﷲ اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت، جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا. ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن پر تیرا فضل ہے. اور جن کی بخشش ہوئی ہے. اور ہمیں اپنی پناہ عطائ فرما. ان لوگوں میں شامل ہونے سے. جو رمضان تو پاتے ہیں مگر ان کی بخشش نہیں ہوتی.

آخری عشرے کی حفاظت
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے. عید کے لئے نیا جوڑا بالکل ضروری نہیں ہے. اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے مل جاتی ہیں. رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میں ضائع کرنا افسوسناک ہے. اس لیے جس طرح بھی بن پڑے. آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے. اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں. افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر. اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواج. مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے. ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو. اس لیے ہم اسے قیمتی بنالیں. ہم اسے پالیں. یا ارحم الراحمین توفیق عطائ فرما!.

چار اعمال کی کثرت
بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں چار کاموں.کی کثرت کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعہ تم اپنے پروردگار کو راضی کرو گے اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے ہو. وہ دو کام جن سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی
﴿۱﴾’’لا الہ الااﷲ‘‘ کاورد رکھنا
﴿۲﴾ اﷲ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہنا. یعنی استغفار کرنا. اور وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں رہ سکتے ہو یہ ہیں
﴿۱﴾ جنت کا سوال کرنا
﴿۲﴾ جہنم سے پناہ مانگنا . ﴿الترغیب والترہیب﴾

رمضان المبارک میں روزانہ اگر پچیس سو مرتبہ ’’لا الہ الااﷲ‘‘ کا معمول بنا لیں تو. اُنتیس دن میں ستّر ہزار کلمے کا نصاب بھی پورا ہو جائے گا. بلکہ کچھ تعداد زیادہ ہو جائے گی. بہت سے اﷲ والوں نے ستّر ہزار کلمے کو مغفرت کے لئے بہت مؤثر عمل قرار دیا ہے. اور رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی ستّر گنابڑھ جاتا ہے. ضروری نہیں کہ آپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر پڑھیں. چلتے پھرتے، کھانا پکاتے، کپڑے دھوتے. ہرو قت زبان پر ذکر اور درودشریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے. اسی طرح استغفار روزانہ تین سو کا معمول ہو جائے. حضرت گنگوہی(رح) فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی کثرت تین سو سے شروع ہوتی ہے. اور جنت کے سوال اور جہنم سے پناہ کی دعائ بھی تین سو بار ہو جائے.
لَا اِلٰہَ اِلَّااﷲُ، اَسْتَغْفِرُاﷲَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ

افادات ہجویری(رح)
’’ہر روزے کے لیے صحیح نیت اور سچی شرط ضروری ہے، تاہم نفس کو روکنے کی شرائط بہت سی ہیں، چنانچہ کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ دار ہوگا جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے بچائے اور اپنی آنکھ کو شہوت کی نظر سے، کان کو غیبت کے سننے سے، زبان کو بیہودہ اور فضول گفتگو کرنے سے اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے، کیونکہ رسول اﷲ öنے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ ’’جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان، تیری آنکھ، تیری زبان، تیرا ہاتھ اور تیرا ہر عضو روزہ رکھے‘‘۔ اور نیز فرمایا: ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوکا اور پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘

افطار پارٹیوں سے بچیں
رمضان المبارک میں شیطان کا ایک پھندا. غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں. ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص، فضول گپ بازی. اور قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے. نہ آپ کسی کو پارٹی دیں نہ کسی کی پارٹی میں جائیں. ہاں کوئی دینی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کرسکتے ہیں. افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے. اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے. غریبوں کے گھر، شہدائ کرام کے ورثائ کے گھر، علمائ اور دین کے خدمتگاروں کے گھر افطاری. اور کھانا بھجوادیں. افطاری کی رقم مجاہدین اور مہاجرین کو بھجوادیں. اگر کسی کو افطاری پر گھر بلائیں تو فضائل اعمال. اور فضائل جہاد کی تعلیم کا اہتمام کریں. ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں. بلکہ. اپنے وقت کو قیمتی بنائیں. اور افطاری کا کھانا بھجوادیا کریں.

ہم امۃ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرد ہیں
جب کسی انسان کو اﷲ تعالیٰ. عبادت، خلوت اور ذکر کی توفیق عطائ فرماتا ہے تو. اس انسان کو عجیب مزہ آنے لگتا ہے. تب خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوجائے. اس لیے بھرپور عبادت وتلاوت کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے کہ. ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہیں. ہمارے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم خود میدانوں میں نکل کر. تلوار اٹھاتے اور جہاد فرماتے تھے. اس عظیم اور بہترین امت کا فرد ہونے کی وجہ سے. ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں. اور ہم پرانی امت کے صوفیوں کی طرح. صرف خلوت، عبادت اور تنہائی کے مزے نہیں لوٹ سکتے. اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمارا دل فلسطین، افغانستان، عراق، کشمیر. اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے. ہم ان مجاہدین کے لئے دعائ کریں جو ہمارے سرکا تاج ہیں. اس لیے کہ وہ میدانوں میں لڑ رہے ہیں. ہم ’’دشمنانِ انسانیت‘‘ کی جیلوں میں قید ’’اسیرانِ اسلام‘‘ کے لئے بلک بلک کر دعائیں مانگیں. ہم حضرت امیر المؤمنین اور ان تمام مجاہدین کے لئے دعائیں مانگیں. جن پر دین کی خاطر زمین تنگ کردی گئی ہے. ہم مجاہدین کے غلبے، اور دشمنانِ اسلام کی ناکامی کے لئے رو رو کر دعائیں کریں. اور ہم اپنے دل کو. حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے امتی کا دل بنائیں.
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.