پہلی اطلاعات رپورٹ یا ایف آئی آر اسلام آباد میں ایف آئی اے میں قائم خصوصی
تحقیقاتی یونٹ کے پاس درج کی گئی ہے۔ اس ایف آئی آر میں اس سازش کے مبینہ سرغنہ
حماد امین سمیت ذکی الرحمان لکھوی اور ضرار شاہ کے نام شامل ہیں تاہم اس میں
اجمل قصاب کا نام نہیں ہے۔ نامزد آٹھ میں سے چھ افراد حکومت کی تحویل میں ہیں۔
وزارت داخلہ میں ہونے والی ایک اخباری کانفرنس میں مشیر داخلہ رحمان ملک نے اب
تک کی تحقیقات کی تفصیل بتاتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان ملزمان میں سے چند کا تعلق
کالعدم لشکر طیبہ سے ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ اس سازش میں
ملوث کتنے افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
دلی سے بی بی سی کے خصوصی نامہ نگار شکیل اختر نے بتایا ہے ہندوستان کی وزارت
خارجہ کے ترجمان وشنو پرکاش نے پاکستان کے جواب پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے
کہا ہے ’ہم نے رحمان ملک کا بیان میڈیا کے ذریعے دیکھا ہے۔ اسلام اباد میں
ہمارے ہائی کمشنر پاکستان کے دفتر خارجہ جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا ’ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہاں ہمیں پاکستان سے باضابطہ طور پر
جواب ملے گا۔ وہ جب ہمیں مل جائے گا تو اس کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس پر اپنا
رد عمل دیں گے۔‘
رحمٰن ملک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اڑتیس سالہ حماد امین ولد محمد امین کا
تعلق جنوبی پنجاب سے بتایا گیا ہے تاہم وہ گرفتاری سے قبل کراچی میں ایک کرائے
کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی، سائبر کرائمز ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے
تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بھارت کو تحقیقات کو آگے بڑھانے اور ان افراد کے
خلاف مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے بھارت سے تیس سوالات کے جواب مانگے ہیں۔ ان کا
اصرار تھا کہ اس مقدمے میں ملوث افراد کو سزا دلانے کے لیے بھارت کا تعاون
ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ممبئی حملے میں استعمال ہونے والی کشتی کا انجمن پاکستان میں
جس دکان سے خریدا گیا تھا اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں
جس بینک سے رقم کی ادائیگی یا موبائل فون سمز استعمال ہوئی وہ بھی تلاش کر لیے
گئے ہیں۔
تفتیش کاروں کو شک ہے کہ ان ملزمان میں سے ایک جو سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث
تھا وہ اس حملے میں بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس ملزم کی شناخت نہیں
کروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ممبئی سازش کے تانے بانے سپین، اٹلی اور امریکہ سے بھی ملتے
ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سپین میں بارسلونا سے بھی انٹرنٹ ڈومین خریدا گیا جس کی
دو سو ڈالر سے زائد کی ادائیگی ایک شحض جاوید اقبال نے کی تھی۔ انہوں نے بتایا
کہ اس شحض کو کسی بہانے پاکستان طلب کرکے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
مشیر داخلہ نے کہا کہ ’دکن مجاہدین‘ کی جانب سے ای میل جس میں ممبئی حملوں کی
ذمہ داری قبول کی گئی تھی مبینہ طور پر ضرار شاہ کی تھی جو کہ اس سازش کے
موصلااتی رابطہ کار تھے۔
انہوں نے اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث دیگر افراد میں حماد کے علاوہ خان نامی
ایک اور شخص ریاض کے بھی نام لیا ہے۔ ’ان تین افراد نے اجمل قصاب اور دیگر
افراد کو سمندر کے ذریعے ممبئی پہنچنے میں مدد فراہم کی‘۔
رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ حملے میں استعمال ہونے والی تین کشتیاں اور ان کے
عملے کی شناخت بھی کر لی گئی ہے۔
بھارت کے پاکستان میں مقیم ہائی کمشنر برتا ستیاپال کو اخباری کانفرنس سے قبل
تحقیقات کے اب تک کے نتائج سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ تاہم وزارت خارجہ آج یہ
باضابطہ طور پر بھارتی حکومت کے حوالے بھی کر دے گی۔
بھارت سے مزید تعاون کی اپیل کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ ان کی تفتیش میں اب
بھی کچھ کمی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیئے بھارت سے اضافی معلومات بھی طلب کی ہیں۔
جو معلومات طلب کی گئی ہیں ان میں اجمل قصاب کا عدالتی بیان، اس کا ڈی این اے
نمونہ، اس اور دیگر نو حملہ آوروں کی انگلیوں کے نشانات، حملہ آوروں کے بیرون
ملک اور آپس میں گفتگو کا ریکارڈ، بھارت سے خریدی گئی موبائل سمز کی تفصیل اور
بڑی تعداد میں اسلحے سے لیس حملہ آور کیسے ایک ربڑ بوٹ کے ذریعے ساحل تک پہنچ
سکے شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تصاویر اور معلومات پاکستان کو مہیا کی گئی ہیں
وہ بھی مشیر داخلہ کے مطابق ان کی شناخت کے لیئے ناکافی ہیں۔
اسلحے کی فورینسک رپورٹ بھی مانگی ہے۔ ان کا کہنا کہ حملے کے دوران استعمال
ہونے والا سٹیلائیٹ فون بھی پاکستان میں نہیں مشرق وسطی میں رجسرڈ ہے۔
مشیر داخلہ نے پاکستان کے ملوث ہونے کے الزام کے جواب میں کہا کہ یہ چند افراد
کا ذاتی فعل تھا اور اسے پاکستان سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے وعدہ کیا کہ ان ملزمان کے پاکستانی ہونے اور مزید پیش رفت
کے بارے میں چند ہفتوں میں آگاہ کرسکیں گے۔
گزشتہ برس چھبیس نومبر کو بھارت کے تجارتی شہر ممبئی پر مختلف مقامات پر حملوں
میں ایک سو ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت کا الزام تھا کہ یہ سازش
پاکستان میں تیار کی گئی تھی تاہم اب تک پاکستان اس سے انکار کرتا رہا تھا۔ |