دنیا ایک حقیقی تبدیلی کی منتظر

آج کل سیاستدان، عالمی رہنما سمیت عام افراد لوگ بھی ایک تبدیلی کےمنتظر ہیں ۔ لفظ تبدیلی کسی صورت پرانا نہیں ہے تاہم اسکا استعمال یقنیناً آج کچھ بدلا بدلا اور نیا لگ رہا ہے۔امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوباما نے صدراتی انتخابات میں تبدیلی کا جو نعرہ لگایا تو پوری دنیا بیک وقت پکار اٹھی ہاں ہم بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔ پاکستان میں صدر زرداری بھی زور دے رہے ہیں کہ ہاں تبدیلی کا صحیح وقت آگیا ہے نظام بدل کر رکھ دیں گے۔نواز شریف، قاضی حسین احمد، الطاف حسین، تمام ملکی و سیاسی مذہبی جماعتوں نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ یقنیناً انہیں بھی تبدیلی چاہیے اور وہ اس کے منتظر ہیں۔ تبدیلی کی عظیم خواہش کے اظہار کی اس سے بڑھ کر اور مثال کیا پیش کی جاسکتی ہے کہ جب اوباما نے امریکہ میں صدارتی انتخابات کا میدان مار لیا تو روشنیوں کے شہر کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقے لیاری کے باسی بھی فرط جذبات اور خوشی کے مارے سڑکوں پر آگئے اور لیوا۔اور دوچانپی کی دھن پر رقص کیا۔ ایک عجیب بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ لوگ گدھے سجا کر لائے تھے جبکہ اوباما کے ہمشکل ہمارے کچھ مکرانی بھائی شائد رنگ کی نسبت سے بھی اپنی خوشیوں کا اظہار کر رہے تھے اور عین ممکن کہ وہ اس میں خوشی میں یہ بھلا بیٹھے کہ گئے وقتوں میں کراچی اور سندہ سے ہوکر جانے والا اوباما شاید ان کی آواز تک بھی سن سکے یا نہیں۔

بات ہورہی تھی تبدیلی کی تو یقیناً آج کے موجودہ دور میں تبدیلی کی جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ ہوگی۔انقلاب ایران کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صدرمحمود احمدی نژاد نے بھی کہا کہ ہاں وقت آگیا ہے کہ اب حقیقی تبدیلی آئے تاہم چالیں نہ چلی جائیں اور حقیقت پسندی کو سامنے رکھا جائے۔

یقیناً یہ عام فہم بات سیدھی دل کو بھاگئی۔ تبدیلی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ شکر دے کر لوگوں کو مارا جائے۔ ایک عام مقولہ ہے کہ جو شکر سے مر جائے اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دنیا کےسیاستدان رہنماء اور بالخصوص معاشرے کے عام لوگ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو یہ تبدیلی اپنے آپ سے شروع کریں۔ مان لیتے ہیں کہ بارک اوباما نے ایک اسکول میں جاکر دیوار پر رنگ کیا اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی وہ اس دن کو یاد رکھتے ہیں کہ انکا باپ بھی ایک ہوٹل میں کام کیا کرتا تھا اور وہ اس دن کو نہیں بھولے اسی لیے چاہتے ہیں کہ دنیا میں تبدیلی آئے۔ایک نئی دنیا سامنے آئے جہاں لوگوں کے لیے خوشیوں سامان میسر ہو ، غم دور دور تک نہ ہو اور بھائی چارگی کی اور محبت کا دور دورہ ہو۔

کہتے ہیں کہ انسان اگر کرنے پر آجائے تو ناممکن کچھ نہیں ہوتا اور برطانیہ کے اپنے وقت کے معروف وزیر اعطم چرچل نے یونہی نہیں کہا تھا کہ میری ڈکشنری میں نا ممکن کا لفظ نہیں ہے۔ نیت سچی ہو اور کام کرنے کی ٹھان لی جائے تو یقیناً اس بات میں ایک سو ایک فیصد سچائی نظر آتی ہے لیکن بات تو یہ ہے کہ نفرتوں کو مٹا کر دلوں میںمحبتیں بھری جائیں، بات تو یہ ہے کہ دکھی انسانیت کا جذبہ آئے اور بات تو یہ ہے کہ حقیقت میں کچھ کر دکھایا جائے ورنہ باتوں سے پھول تو جھڑتے ہی رہتے ہیں۔ دنیا کی نظریں بھی اس وقت سپر پاور کے طاقتور ترین شخص پر لگی ہوئی ہیں کہ جس کی زباں سے پھول جھڑتے ہیں کہیں وہ بھی بر صغیر اور بالخصوص پاکستان کے سیاستدانو کی طرح اقتدار میں آنے کے بعد کانٹے برسانے اور دنیا بھر میں ڈرونز بر سانے پر نہ اتر آئے۔

یہ بات بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ ایک معاشرہ اور اسلامی و فلاحی مملکت کے باسی ہونے کے ناتے ہمیں وہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہیں کہ آنے والا کوئی کرے گا اوباما ہمارا کام کرے گا اور اگر یہی سوچتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ملک کی تمام سیاسی و سماجی جماعتیں کہتی ہیں کہ ہاں وہ بھی تبدیلی چاہتے ہیں وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اتنی بڑی جماعتیں اتنا کام بھی نہ کرسکیں جو صرف ایک غریب عبدالستار ایدھی نے اکیلے کر کے دکھایا۔انہوں نے ملک سمیت بیرون ملک بھی ثابت کردیا کہ وہ کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ تبدیلی چاہنے والوں اور اس کی بات کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں جن کی تقلید یقیناً ایک خوشگوار تبدیلی پر ہی منتج ہوسکتی ہے۔آیا یہ ہماری سیاسیی و مذہبی جماعتیں عوام کی فلاح کے لیے اتنا کام نہیں کرستی ہیں جتنا ایدھی نے کیا ہے۔ آیا ہمارے ارب پتی، کھرب پتی سیاستدان اپنے محلوں سے نکل کر گلیوں میں نکل کر واقعی عوام کے لیے سوچیں گے۔یہ تبدیلی کے لیے چند ضروری سوالات میں سے ایک ہے جن کا جواب شاید ہی مل سکے کیونکہ تبدیلی کی خواہش تو ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے عملی اقدامات اٹھانا دوسری بات ہے۔

انتہائی اہم بات جو میں برسوںسے اپنے دل میں لیے اس آرزو کے ساتھ جی رہا ہوں کہ کاش ایسا ہو جائے تو اسلام کے سنہرے اصولوں سے مزین ہمارا معاشرہ سنور کر رہ جائے اور وہ یہ ہے کہ لوگ خود انفرادی، اجتماعی، گلی محلوں، قصبوں دیہاتوں، شہروں کی سیج پر آپس میں محبت کو فروغ دیں۔ وہ زمانے گئے جب لوگ ملتے تھے تو ایک دوسرے کو دیکھتے تھے تو ان کے چہروں سے خلوص اور حقیقی محبت کا عنصر جھلکتا تھا، آج کیا ہوا کہ مادیت نے ہم لوگوں کو اتنا گھیر لیا کہ سوائے مطلب کے کوئی کسی کو پوچھنے کو تیار نہیں۔ یہ انسانیت اور اسلام کے اصولوں سے متصادم رویے ہیں جن میں تبدیلی لانے کے لیے معاشرے کے ہر شخص کو انفرادی کام کرنا ہوگا اور اگر ایسا ہوجائے تو یقیناً تبدیلی آکر رہے گی۔ کیونکہ سیاستدان، رہنماء، ارکان پارلیمنٹ سے لیکر تمام افراد ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں، معاشرے سے ہی ہوکر وہاں تک پہنچتے ہیں۔ایک ٹریفک پولس اہلکار سے لیکر صدر پاکستان تک تمام افراد ہمارے معاشرے کا ہی حصہ ہیں اور اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر تبدیلی کو اپنےاندر محسوس کرتے ہوئے معاشرے کو سدھارنا ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو یقیناً شاعر تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
Muhammad Abdul Azeem
About the Author: Muhammad Abdul Azeem Read More Articles by Muhammad Abdul Azeem: 12 Articles with 13141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.