نوید قمر صاحب کی خدمت میں

نوید قمر صاحب حقائق پیش خدمت ہیں

یکم فروری ٢٠٠٨ سے ہماری ویب پر نوید قمر صاحب کے خیالات آرٹیکل کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوئے، ہم نہیں جانتے کہ یہ نوید قمر صاحب کون ہیں؟ لیکن ان کی تحریروں سے ایک بات عیاں ہوتی ہےکہ جناب کا موقف انتہا پسندانہ، یکطرفہ، اور دلائل کے بغیر صرف تعصب پر مبنی ہےاور انہوں نے کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اس موضوع پر متعلقہ مواد کا بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کیوں کہ ان کے کسی بھی مضمون میں کسی بات کی کوئی دلیل نہیں دی گئی ہے بلکہ صرف اسلام اور پاکستان مخالف دانشوروں کی تقاریر،اور مضامین سے متاثر ہو کر انہوں نے یہ مضامین لکھے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان کے مضامین کا تجزیہ کر کے اصل حقائق ناظرین اور قارئین تک پہنچائیں۔ کیوں کہ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس عالمی فورم پر اسلام اور پاکستان کا دفاع کریں اور میں یہ کام فرض کفایہ سمجھ کر کررہا ہوں۔ میری اس تحریر کو پڑھنے والے قارئین اگر میری تحریر سے اتفاق کرتے ہیں تو میری حوصلہ افزائی کریں اور اگر میری باتیں حقائق کے برخلاف ہیں تو اس کی بھی نشاندہی دلیل کے ساتھ کریں تاکہ میں اپنی اصلاح کرسکوں۔اس کے ساتھ میری جناب نوید صاحب سے بھی گزارش ہے کہ اگر ان کو میرا لہجہ سخت لگے تو اس کے لیے میں یہی کہوں کہ بقول شاعر :میں چاہتا تھا کہ وفا کا عہد تجھ سے کروں میری انا نے لیکن ارادہ بدل دیا ہے میرا-میرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا ہے میرا

جناب نوید قمر صاحب نے اپنا پہلا آرٹیکل جنوبی ایشیا اور مذہبی جنون کے نام سے لکھا تھا اور اس میں اگرچہ انہوں نے کوئی واضح بات نہیں کی لیکن ڈھکے چھپے الفاظ میں آج کے ہاٹ ایشو دہشتگردی اور مذہبی جنونیت کو موضوع گفتگو بنایا یہاں ہم انہی کے الفاظ نقل کریں گے۔انہوں نے لکھا ہے کہ “کیونکہ بھارت میں تمام مذاہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں لہٰذا وہاں کے حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے شرپسند عناصر کا قلع قمع کرے۔ تاکہ نہ صرف اپنی عوام کو دہشت گردی اور مذہبی جنونیوں سے بچا سکے بلکہ خطے میں واقع دیگر ممالک کے لیے بھی ایک اچھی مثال قائم کی جا سکے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہمسایہ ملک بھی ایک معتدل اور روشن خیال معشرہ تشکیل دے سکیں۔“یہاں انہوں نے ایک طرح سے بھارت کی ظالمانہ اور مسلم دشمن پالیسی کی حمایت کی ہے کہ بھارت شرپسند عناصر کا قلع قمع کرے۔اگر موصوف تعصب پرستی کی عینک اتار کر دیکھتے تو ان کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کہ کون نہیں جانتا کہ بھارت خود ایک دہشت گرد اور مذہبی جنونی ریاست ہے جہاں صرف ہندوؤں کو آزادی حاصل ہے۔اگرچہ نام سیکولر ازم کا لیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارت ایک ہندو ریاست ہے ،یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ٢٤ جنوری کوانتہا پسند ہندوؤں نے بھارتی صوبے کرناٹک میں ایک پب میں موجود لڑکیوں کو وحشیانہ طریقے سے ذدوکوب کیا اور ان کو زمین پر لٹا لٹا کر تشدد کیا اور انکو کہا کہ آئندہ وہ ڈانس بار میں نظر نہ آئیں۔ یہ واقعہ ٢٤ جنوری کا ہے اور موصوف کا آرٹیکل یکم فروری کو لکھا گیا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کے علم میں یہ واقعہ نہ ہو لیکن انہوں نے انتہائی غیر ذمہ داری اور تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا جبکہ اپنے کئی آرٹیکلز میں انہوں اسلام پسندوں، جہاد اور جہادی لیڈروں کا نام لیکر ان کو لتاڑا ہے۔ لیکن ہندو انتہا پسندی کا نام لیتے ہوئے ان کی زبان گنگ ہوئی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد انتہا پسندی کو موضوع بنانا نہیں ہے بلکہ صرف اسلام اور جہاد کو نشانہ بنانا ہے۔

دو فروری کو موصوف نے دوغلی پالیسی۔۔۔ حل کیا ہے؟کہ عنوان سے آرٹیکل لکھا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بھی انہوں نے نااصافی بلکہ بد دیانتی کا ثبوت دیا ہے اور دوغلی پالیسی کے متعلق ان کا سوچ صرف پاکستان تک ہی محدود رہی (یہ عجیب بات ہے کے ان تمام مضامین پاکستان کے خلاف ہی لکھے گئے ہیں)اور ان کی نظر بھارت، اسرائیل، اور امریکہ کی دوغلی اور مسلم دشمن پالیسیوں پر نہیں گئی۔البتہ ان کو پاکستانی حکومت کی مبینہ دوغلی پالیسیوں کا درد محسوس ہوا اور انہوں نے اس پر ایک مضمون لکھ مارا۔

پہلی بات جو انہوں نے لکھی کہ “پاکستانی میڈیا کی طرف سے بروقت اور برحق تجزیوں اور تبصروں کی بدولت یہ جنگ ٹل گئی۔“یہ بات حقائق کے بالکل برعکس ہے کیوں کہ نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی اس معاملے کی جانچ کی تو پاکستان کو بے قصور پایا لیکن بھارتی حکومت کوئی بات سننے کو تیا ر نہ تھی بالآخر پاکستان نے اس معاملے پر واضح بیان دیا کے ہم کسی بھی جارحیت کا جواب دییں گے اور اس کے بعد پاکستان نے اپنی مغربی سرحدوں سے افواج کی منتقلی شروع کی تو ہندو بنیے کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔اس لیے موصوف کا یہ کہنا کہ میڈیا کی کی وجہ سے یہ جنگ ٹل گئی سراسر بے بنیاد بات ہے۔جہاںتک اجمل قصاب کے اس معاملے میں ملوث ہونے کا اور اس کی پاکستانی شہریت کا معاملہ ہے تو جناب اس حوالے سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ اجمل قصاب کو نیپال سے اغواء کیا گیا تھا اگر چہ اس پر مزید کوئی بات نہیں کی گئی لیکن اس بات کے سامنے آنے سے بہر حال یہ معاملہ کچھ مشکوک ہوگیا ہے۔

جہاں تک لشکر طییبہ اور حافظ سعید صاحب کا انڈین پارلیمنٹ پر حملہ کا معاملے ہے تو اول تو یہ معاملہ شروع ہی سے مشکوک تھا اور بھارت نے اس حوالے سے کوئی ثبوت مہیا نہیں کیے تھے بلکہ عالمی میڈیا کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ نےاس کو انڈیا کا ڈرامہ اور پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔ شائد نوید قمر صاحب کی نظر سے یہ خبریں بھی نہیں گزری ہیں اس کے علاوہ یہ بات بھی موصوف کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ سابر متی ایکسپریس کو انتہا پسند ہندوؤں اور متعصب بھارتی انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کے لیے خود آگ لگائی تھی اور اس کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا گیا تھا اور شائد یہ بات بھی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ ممبئی حملوں سے پہلے یہ بات سامنے آگئی تھی کہ ما لیگاؤں بم دھماکوں میں مسلمانوں کے بجائے انتہا پسند ہندؤں اور انکے آلہ کار فوجی افسران ملوث تھے بھارتی کرنل ہیمنت کرکرے نے اس سلسلے میں متعدد فوجی افسران کو گرفتار بھی کیا تھا اور یہ بات قابل غور ہے کہ مسلم دہشت گردوں نے سب سے پہلے اپنے ہمدرد ہیمنت کرکرے کو ہی نشانہ بنایا تھا۔ شائد نوید صاحب نے ان تمام حقائق کو درخورد اعتناء نہیں سمجھا۔

آگے آپ نے حافظ سعید، مولانا مسعود اظہر، اور حزب المجادین کے سپرہیم کمانڈر سید صلاح الدین صاحب کو دہشت گرد قرار دینے کا معاملہ اٹھایا ہے تو آج کل تو ہر اسلام پسند کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور بالخصوص جہاد کو ہشت گردی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے عالمی سامراجی طاقتیں اور ان کے مقامی پٹھو یہ بات جانتے ہیں کہ صرف جہادی عنصر اور جذبہ جہاد ہی ان کی طاقت اور حاکمیت کے خلاف اٹھ سکتے ہیں اس لیے کہ مغرب نے افغانستان میں روس کی شکست کے بعد یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر ان کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کل یہ لوگ ہماری نا انصافی، ظلم اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اس لیے ایک منصوبہ بندی کے تحت جہاد کودہشت گردی کہا جاتا ہےاور مقامی گماشتے ان کی ہاں میں ہاں ملا کر نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہیں۔ایک بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ جہادی لیڈرز کو افغانستان اور کشمیر میں دہشت گردی کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے لیکن کسی نے کشمیری عوام سے بھی پوچھا ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے پردے کے بارےمیں مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ اس کو عورت پر ظلم اور آزادی پر حملہ تصور کرتے ہیں لیکن کبھی کسی نے کسی پردہ دار خاتون سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کہ کیا وہ بھی واقعی پردہ کو ظلم اور آزادی میں رکاوٹ سمجھتی ہے؟ اگر بھارت اور عالمی طاقتیں یہ سجھتی ہیں کہ کشمیری عوام نے ان کو جہادی لیڈرز کو مسترد کردیا ہے تو آج تک بھارت اور اقوام متحدہ کشمیری عوام کو حق خوداردیت کیوں نہیں دیتا؟یہ بات بجائے خود بھارت اور اس کے حامیوں کو خلاف اور جہادی لیڈرز کے حق میں ایک دلیل ہے۔۔کیا نوید صاحب اس بات سے انکار کریں گے؟

جہاں تک دوغلی پالیسی کا تعلق ہے تو شاید نوید صاحب کو اسرائیل کی دہشت گردی، بھارت کا ظلم، امریکہ کا عراق اور افغانستان پر بلاجواز حملہ نظر نہیں آیا، یہاں یہ بات واضح رہے کہ آج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود امریکہ نائن الیون کا تعلق اسامہ بن لادن یا القاعدہ سے ثابت نہیں کرسکا ہے اور نہ ہی عراق میں بلا جوازقبضہ کا کوئی ثبوت دے سکا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ سابق امریکی صدر نے باقاعدہ طور پر عراق پر حملہ کو غلط اطلاعات کا نتیجہ قرار دیا ہے(شائد یہ بات بھی نوید صاحب کو ابھی تک معلوم نہیں ہے یا پھر انہوں نے یہاں بھی بددیانتی کا ثبوت دیا ہے) اور اس واضح اقرار کے بعد تو امریکہ کو عراق پر قبضہ کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے لیکن امریکہ نے حسب معمول دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق سے ابھی تک اپنی فوجیں واپس نہیں بلائی ہیں۔ محترم ذرا یہ بتانا پسند کریں گے کہ عالمی امن کو خطرہ جہاد سے ہے یا امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی دوغلی پالیسیوں سے ؟ القاعدہ اگر اس کا کوئی وجود ہے تو اس نے امریکہ یا برطانیہ جاکر کوئی حرکت نہیں کی تھی بلکہ یہ امریکہ ہے جو افغانستان اور عراق میں قبضہ کر کے بیٹھ گیا ہے، یہ بھارت ہے جو کشمیر پر ناحق اپنا حق جتاتا ہے،اور یہ اسرائیل ہے جو فلسطین کی سرزمین پو ناجائز قبضہ جما کر بیٹھ گیا ہے دوغلی پالیسی پاکستان یا اسلام پسندوں کی بلکہ ان تمام عالمی دہشت گرد مما لک کی ہے۔ جاری ہے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520242 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More