جاوید میاں دادنے آخری گیند پر
چھکا مار کراپنی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کیا اورکرکٹ کی تاریخ میں اپنا
منفرد مقام بنا لیا ۔ آخری گیند کھیلنے کا موقع ہر کھلاڑی کو نصیب نہیں
ہوتااور پھر ایسا موقع بھی شاذو نادر ہی آتا ہے کہ ایک گیندباقی ہو اور
چھے رن درکار ہوں لیکن ہر کھلاڑی کوجو میدان میں اترتا ہے پہلی گیند کھیلنے
کا موقع ضرور ملتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد مورسی کو جب وہ موقع ملا تو انہوں نے
پہلی ہی گیند پر چھکا اچھال دیا ۔ شاٹ اس صفائی سے کھیلا گیا تھا کہ گیند
نہ صرف باؤنڈری لائن بلکہ اسٹیڈیم کے باہر تحریر چوک میں جاکر گری ۔جاوید
میاں داد کا چھکا اسکی مجبوری تھی اور اس کے پاس گنوانے کیلئے کچھ بھی نہیں
تھا ایےئ میں خطرہ مول لینا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن مورسی کیلئے نہ صرف
کوئی مجبوری نہیں تھی بلکہ گنوانے کیلئے کرسیٔ صدارت تھی اس کے باوجود
انہوں نے اس خطرے کو انگیز کیا اورسرزمین ِمصر پر اپنے آپ کو ناقابلِ
تسخیر سمجھنے والی فوجی کونسل کے چھکے چھڑا دئیے ۔ پارلیمان کو بحال کرنے
کا جرأتمندانہ فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عظیم تبدیلیاں بڑے خطرات سے
کھیلنے کی تقاضہ کرتی ہیں ۔
سیاست کو شطرنج سے اس لئے تشبیہ دی جاتی ہے کہ نہ صرف اس میں شہ اور مات
ہوتی ہے بلکہ چال ایسی چلی جاتی ہے جس سےدشمن نفسیاتی طور پر مغلوب ہو جائے
۔ سیاست اور جنگ میں جو اقدام کرتا ہے اسکی فتح کے امکانات روشن ہوتے ہیں
اور جو مدافعت کرتا ہے اس کیلئے اپنے آپ کو شکست سے بچا لینا ہے بھی فتح
کے مترادف ہوتا ہے ۔اقدام کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ جب دشمن اپنی
مدافعت کررہا ہوتا ہے اس دوران نئے اقدامات کی منصوبہ بندی کا نادر موقع
ہاتھ آجاتا ہے ۔نیز ہرپیشقدمی نہ صرف براہ راست بلکہ بلا واسطہ بھی اپنے
گوں ناگوں اثرات مرتب کرتی چلی جا تی ہے ۔ فوجی کونسل نے صدارتی انتخاب کے
دوسرے مرحلہ سے قبل ایک نہایت شاطرانہ پانسہ پھینکا اور پارلیمان کو شہ دے
کرتحلیل کردیا ۔اس ایک چال سے کئی فائدے مطلوب تھے ۔ مثلاً پارلیمنٹ کے
سارے اختیارات کو اپنے قبضۂ قدرت میں لے لینا اور من مانی دستوری تر میمات
کر کے منتخب ہونے والے صدر کے پر کتر دینا لیکن سب سے بڑا مقصدتذبذب کا
شکار رائے دہندگان کوبلا واسطہ یہ پیغام دینا تھا کہ اگر وہ اخوانی امیدوار
کو کامیاب کرتے ہیں تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا جو پارلیمان کا ہوا ہے اس
لئے بلاوجہ اس پر اپنی رائے کو ضائع کرنے کی غلطی نہ کی جائے ۔
اس حکمت ِ عملی کے ممکن ہے کچھ ا ثر انتخاب پر پڑا ہو لیکن اس کے باوجود یہ
شجر ِ فتنہ پروربار آورنہ ہوسکا اور شہ مات میں بدل گئی ۔ انتخاب میں
کامیابی کے بعد اخوان کی باری شہ دینے کی تھی اورصدر محمدمورسی نے فوجی
کونسل کو ایسی شہ دی کہ وہ چاروں شانے چت ہوگئی ۔وقت کا انتخاب بالکل اسی
طرح کا تھا ۔ عدالت میں ایوان کی تحلیل پر سماعت پیر کے دن ہونی تھی اور
حکم نامہ اتوار کی رات جاری ہوگیا تاکہ عدالت کو پہو چل جائے کہ اب اپنے
قدیم آقاؤں سے خوفزدہ ہو کر ان کو خوش کرنے والے فیصلے کرنے کی چنداں
ضرورت نہیں ہے ۔ اب ملک میں ایک ایسامقبول اور جرأتمند سربراہ موجود ہے جو
عدل و انصاف کا علمبردار اور حق پسندوں کا حامی و ناصر ہے ۔ اسی لئے فوجی
کونسل اوراعلیٰ آئینی عدالت ہنگامی اجلاس بلا کر غورو خوض کرنے اور عمومی
قسم کے بیانات جاری کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکی۔
اتوار کی شب یہ حکم نامہ جاری ہوا اورپیر کو اعلیٰ آئینی عدالت نے ایک
اجلاس کے بعد کہا کہ اس کے فیصلے اور فرمودات حتمی ہیں اور ان کے خلاف کوئی
اپیل نہیں کی جا سکتی۔ تمام ریاستی اداروں کے لیے ان کی پابندی لازمی
ہے۔اعلٰی آئینی عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ پارلیمانی انتخابات
میں ایک تہائی اراکین غیر قانونی طور پر منتخب ہوئے تھے اور آزاد امیدواروں
کے لیے مختص نشستوں پر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے مقابلہ کیا اس لیے
تمام پارلیمان کی ہئیت ترکیبی غیر قانونی ہے۔اس فیصلے کے بعد اس وقت مصر کی
حکمران مسلح افواج کی سپریم کونسل نے اپنے ایک انتظامی فیصلہ کے ذریعہ
ایوانِ زیریں کو تحلیل کردیا ۔لیکن تیس جون کو صدر مورسی کو اختیارات
سونپنے کے بعد جو انتظامی اختیارات فوجی کونسل نے زبردستی ہتھیا لئے تھے وہ
صدرِ مملکت کو منتقل ہو گئے ہیں اور وہ ان اختیارات کواستعمال کرتے ہوئے
ایک اور انتظامی فیصلہ نافذ کر نے کا حق رکھتے ہیں ۔صدرِ مملکت کے دفترنےیہ
واضح کیا کہ آئینی عدالت سے ان کا تصادم نہیں ہے بلکہ فوجی کونسل کے
انتظامی فیصلے کو تبدیل کیا گیاہے ۔
ایوانِ زیریں کے اسپیکر سعد الکتاتنی نے اسمبلی کا منگل کو اجلاس بلایا
لیا۔انو ں نے کہا صدر مورسی کا فیصلہ قانون اور سرکاری اداروں کی بالادستی
کے لیے قابل احترام ہے۔فوجی کونسل اور اعلیٰ آئینی عدالت کی ناراضگی کے
باوجود ایوان کا اجلاس ہوا جس میں آئینی عدالت کافیصلہ نافذ کرنے کی
خاطرانتظامی عدا لت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔جس عدالت میں یہ مقدمہ
۱۷ جولائی کو پیش ہوگا اس ایک سابق رکن احمد مکی نے گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو
میں کہا تھا کہ صدر مورسی کو آئینی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا
آئینی حق حاصل ہے اور وہ ایسا کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوجی کونسل نے
پارلیمان کو تحلیل کرا کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا اور اس کی مصر کی
تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ ان کے بہ قول صرف عوامی ریفرینڈم کے
ذریعے ہی پارلیمان کو تحلیل کیا جاسکتا ہے۔آئینی عدالت نے ۱۹۸۳ میں خود
ایک فیصلے میں اقرار دکیا تھا کہ منتخب پارلیمان کو صرف عوام ہی تحلیل
کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا۔مصری آئینی عدالت کے نو منتخبہ صدر جسٹس
ماہر بحیری نے الجزیرہ چینل سے گفتگو میں اعتراف کرلیا کہ صدر کا حکم نامہ
پوری طرح جائز ہے اور وہ آئینی عدالت کے فیصلہ سے نہیں ٹکراتا بلکہ وہ تو
فوجی کونسل کے ایوان ِ زیریں کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتا ہے ۔
مغرب کو اسلام پسندوں سے یہی پریشانی ہے کہ وہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں اور
پھر بلاخوف و خطرجرأتمندانہ فیصلہ کرتے ہیں ۔ یہی وہ مومنانہ فراست ہے جس
کی بابت حضور اکرمﷺ کا فرمایامومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور
سے دیکھتا ہے۔
اس اقدام کے دوررس اثرات انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی پڑے ہیں ۔مصر
کی عوام میں گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر آج بھی ایک بڑی تعدادایسے لوگوں
کی ہے جو نہ صرف اخوان بلکہ اسلام کو بھی ناپسند کرتی ہے۔ ایسے نام نہاد
روشن خیال الحاد پسند لوگ اسلام کی مخالفت کرنے کی خاطرحریت ، جمہوریت اور
انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہیں ۔ اب وہ بیچارے ایک عجیب و غریب دوراہے پر
کھڑے کر دئیے گئے ہیں ۔ ان کےایک طرف اسلام پسند ہیں جو ان اصولوں کا تحفظ
کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ فوجی ہیں جو ان اصولوں کو پامال کر رہے ہیں ۔
اب ان کے سامنے دوہی متبادل ہیں اول تو یہ کہ ان اصولوں سے دستبردار
ہوجائیں جن کا زور شور کے ساتھ دعویٰ کیا جاتا ہے یا پھر اسلام پسندوں کی
حمایت کی جائے جو انہیں ناگوار ہے ۔
اس فیصلہ نے سیکولر لوگوں کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا ۔ وہ پاکھنڈی لوگ جو
محض عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے اس طرح کے خوشنما نعرے لگا رہے تھے انہوں
نے اسلام پسندوں کی مخالفت جاری رکھی اور عوام کے سامنے بے نقاب ہوگئے ۔
لیکن وہ لوگ جو ان اقدار کے بارے میں مخلص تھے انو ں نے بادلِ ناخواستہ اس
صدارتی حکم نامہ کی حمایت کردی ہے ۔ عوامی سطح پر یہ ایک عظیم کامیابی ہے
اور اس کے باعث نہ صرف عوام و خواص اسلام کے خلاف ہونے والے بیجا پر وپگنڈے
نجات حاصل کر سکیں گے بلکہ اسلام کے حقیقی خدوخال کا مشاہدہ بھی کر سکیں
گے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے اس سے اسلام دشمنوں کا اصلی چہرہ بھی عوام
کے سامنے کھل کر آ گیا ہے۔ صدارتی حکم نامہ کی سب سے شدید مخالفت مصر
معروف ماہر قانون سابق نائب حکمران یحیٰ الجمال کی جانب سے سامنے آئی جس
نے اسے غیر قانونی اور غیر دستوری قرار دیتے ہوئے فوجی کونسل سے مطالبہ کیا
کہ وہ ارکان پارلیمان کو ایون کی عمارت میں داخل ہونے سے بزورقوت روکے اس
احمقانہ مشورے پر عملدرآمد کی غلطی فوجی کونسل نے نہیں کی ورنہ اسے دال
آٹے کا بھاو معلوم ہو جاتا ۔ آئینی عدالت کے سابق صدر نے حیرت کا اظہار
کرتے ہوئے اسے عدالت کی توہین قرار دیا اور کہا کہ اگر یہ انتادمی فیصلہ ہے
تو اسے انتظامی عدالت مسترد کر سکتی ہے اگر ایسا ہے تو الجمال اس وقت تک
صبر کیوں نہیں کر سکتے۔روشن خیال سیاسی مبصر عبدالمنعم سعید نے کہا ہم ایک
دستوری بحران سے دوچار ہو گئے ہیں ۔اس کے سیاسی و معاشی منفی اثرات مرتب
ہوں گے ۔ لیکن جب فوجی کونسل دستور کی دھجیاں اڑا رہی تھی تو یہ کہاں تھے
؟وفد پارٹی کے سکریٹری جنرل نے کہا اب قانون کی بالا دستی کے بجائے آمریت
آگئی ہے ۔ کئی صدارتی امیدواروں اور یونین لیڈروں نے اسے سیاسی شعبدہ بازی
قرار دیتے ہوئے قوم کیلئے اسے مضر قراردیا ۔ عبدالفتوح نے بھی کہا کہ اس سے
قانون سے رو گردانی کا دروازہ کھل جائیگا اور البرداعی نے تک کہہ دیا اب
دستور کے بجائے فرد کی حکومت قائم ہو گئی ہے ۔
یہ ایسے لوگ ہیں جو اسلام پسندوں کو تنگ نظر اور اپنے آپ کوو سیع النظر
کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی تحریک ناروادار ہے لیکن ان کا اپنا معاملہ یہ
ہے جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کے باوجودپارلیمان کی برخواستگی پر خاموش
رہے ۔ عدالت کے غیر معقول فیصلہ پر لب کشائی کی جرأت نہیں کی اور جب
پارلیمان بحال ہو گئی تو دستور کا رونا لے کر بیٹھ گئے ۔ اجلاس میں شریک
ہونے سے انکار کر دیا اسلئے کہ وہاں اقلیت میں ہیں ۔ ان لوگوں نے دستور ساز
اسمبلی سے بھی استعفیٰ دے دیا اسلئے کہ وہاں یہ کم تعداد میں ہیں ۔ مطلب یہ
کہ جہاں ہم اکثریت میں ہوں گے وہاں جائیں گے اور اپنے من مانے فیصلے نافذ
کروائیں گے لیکن جب اقلیت میں ہوں گے پارلیمان کو برخواست کرنے والی فوج کی
حمایت کریں گے ۔ دستور سازی میں رکاوٹ کھڑی کریں گے ۔ ان لوگوں کی اسی
منافقت کے باعث عوام نے انہیں دھتکار دیا ۔ جو رہی سہی غلط فہمی تھی وہ بھی
اب ختم ہو گئی
ان کے برعکس انقلابی رہنما اعلٰی الاسناوی نے اسے صحیح سمت میں پہلا قدم
قرار دیا اور ۲۴ اپریل کی عوامی تحریک نے بھی اس کی حمایت کی حالانکہ یہ
دونوں اسلام پسند وں میں شمار نہیں کئے جاتے ۔اخوان المسلمون نے اس فیصلے
کی حمایت میں دس لاکھ لوگوں کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ نورپارٹی
کے ترجمان یاسر حماد نے کہا کہ آئینی عدالت کا مصر کی سیاست کانگراں بن
جانا سبھی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ صدر عدالت کا اس وقت تک پابند نہیں ہے جب تک
کہ قانون یا دستور کو پامال نہیں کرے اور ایسا کوئی اقدام مورسی نے نہیں
کیا ہے ۔معیشت و سیاست کے استاذ ڈاکٹرعبدالفتاح نےعوام کے نمائندہ ادارےکو
بحال کرنے کی تائیدکی ۔ڈاکٹر ثروت بداوی کے مطابق جو قاہرہ یونیورسٹی میں
دستوری قوانین کی تعلیم دیتے ہیں صدر مملکت کو فوجی کونسل کے غیر آئینی
فیصلوں کو رد کرنے کا حق ہے ۔ جسٹس محمود خدیری نےجو عدالت کے سابق نائب
صدر ہیں مورسی کے ذریعہ اپنا دستوری حق استعمال کرتے ہوئے پارلیمان کے بحال
کرنے کو سراہتے ہوئے کہا قوم کی اس نازک گھڑی میں پارلیمان کا بحال ہو جانا
نہایت خوش آئندہے ۔اس لئے کہ فوجی کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے
ہوئے پارلیمان کو تحلیل کیا تھا ۔یہ تائید و حمایت خواجہ مسیح الدین کے اس
شعر کی ترجمان ہے کہ ؎
زوال ظلم کی بس ایک شام باقی ہے
ہماری جیت کا اب ایک گام باقی ہے
ضمیر کی ان آوازوں کا محمدالبرداعی جیسے لوگوں پر بھی اثر ہوا اور انہوں
نے اپنی رائے بدلتے ہوئے حسبِ ذیل بنیادی قسم کے مطالبات پیش کر ڈالے :
• دستورساز اسمبلی کو قائم کیا جائے جوحقوق اور آزادی کا تعین کرے ۔ یہ
مطالبہ فوج کے پر کترتا ہے
• انتظامی امور کا حق دستور ساز اسمبلی کو دیا جائے
• صدر کی سربراہی میں قومی سلامتی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔
• قومی سلامتی کونسل کے ہاتھ اندرون ملک یا بیرون ملک فوج کے استعمال کا حق
منتقل کر دیا جائے ۔
جولوگ یہ کہتے ہیں صدر مورسی کو اس قدر جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے
تھا وہ نہیں جانتے کہ اس طرح کے مطالبات کسی بڑے فیصلے کے بغیر پیش نہیں
کئے جاتے اور اگر ان پر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو اقتدارصحیح معنیٰ میں فوج
کے ہاتھوں سے عوام کے نمائندوں تک منتقل ہوگا ورنہ نہیں ۔ اس فیصلے سے
اخوان کے مخالفین تو چراغ پا ہوئے ہی ہوئے لیکن محتاط قسم حامیوں کو بھی
فکر لاحق ہوگئی لیکن جو لوگ اقتدار کو مقصد نہیں بلکہ ذریعہ سمجھتے ہیں ان
کے اطمینان اور سکون پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ایسی صورتحال اپنی کرسی کو
بچانے کی خاطر لوگ غیرملکی دورہ منسوخ کرکے وطن واہس آجاتے ہیں لیکن صدر
موری اسی دوران اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے ۔
سیاست کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے ۔اس میں کسی شک
و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اخوان کا سب سے بڑا دشمن حسنی مبارک تھا اور حسنی
مبارک کا سب سے بڑا دوست سعودی عرب ۔ اس بات کے چرچے بھی تھے کہ مراقش کے
علی کی طرح حسنی کے نامبارک قدم بھی حرمین شریفین کو ناپاک کرنے والے ہیں
لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ ڈاکٹر محمد مورسی نے اپنے بین الاقوامی دورے کیلئے
سعودی عرب کا انتخاب کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ دشمن کو دوست بنایا جاسکتا
ہے ۔ ڈاکٹر محمد مورسی کا جدہ کے ہوائی اڈے پر سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان
بن عبدالعزیز، شہزادہ خالد الفیصل، امیر مکہ، دیگر شہزادوں اور وزراء کی
بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا ہے۔ ہوائی اڈے سے ایک جلوس کی شکل میں مصری
صدر کو السلام شاہی محل لایا گیا جہاں انہوں نے شاہ عبداللہ سے بھی ملاقات
کی۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے، اقتصادی
تعاون بڑھانے، باہمی تعاون کے لیے سیاسی پہلوؤں پر ایک دوسرے سے مشاورت
کرنے جیسے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ عرب ممالک بالخصوص شام
کی موجودہ صورت حال اور عالمی اور علاقائی مسائل پربات چیت ہوئی اور باہمی
اعتماد سازی کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ سعودی عرب میں فی الحال
تقریباً ۱۵ لاکھ مصری برسرِ ملازمت ہیں ۔ ڈاکٹر محمد مورسی کی سعودی عرب
آمد پر انہیں سرکاری سطح پر غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا۔ ان کے اعزاز میں
سعودی حکومت نے ایک عشائیہ بھی دیا ۔ جمعرات کو نماز فجر کے بعد ڈاکٹر محمد
مورسی جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچے اور عمرہ ادا کیا۔ اس اقدام کا فائدہ ان کو
داخلی سطح پر بھی ہوگا اس لئے کہ مصر میں دوسرے نمبر کی سیاسی جماعت النور
سلفی نظریات کی حامل ہے اور اسے سعودی حکمرانوں کی فکری و اخلاقی حمایت
حاصل ہے ۔
مصر کی تازہ ترین صورتحال مجھے ماضی قریب کا ایک واقعہ یاددلاتی ہے جب
مورسی کے صدارتی انتخاب میں کامیابی کی خبر میں نے اپنے ایک دوست کو دی تو
وہ بولا میں مصری نہیں بلکہ سوڈانی۔ میں نے جواب دیا مجھے پتہ ہے لیکن اس
جیت کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام سے ہے اس پر وہ
بولا کہ اگر ایسا ہے تو میں اس فتح سے خوش نہیں ہوں بلکہ ناراض ہوں ۔ میں
نے وجہ دریافت کی تو وہ بولا محمد شفیق طاقتور ہے اور محمد مورسی کمزور ہیں
۔مجھے اس پر بہت غصہ اور میں نے کہہ دیا یہ طاقت کس کیلئے ہے ؟ اپنی کمزور
عوام پر ظلم ڈھانے کیلئے ؟اس لئے کہ اسرائیل اور امریکہ کے آگے تو یہ لوگ
دم ہلاتے رہتے ہیں ۔ میرا دوست یہ دیکھ کر کہ میں ناراض ہورہا ہوں مسکرا کر
وہاں سے چلا گیا لیکن جب میں نے غور کیا کہ آخر یہ محمد شفیق کو طاقتور
کیوں سمجھتا ہے ؟ اور محمد مورسی کو کمزور کیوں؟ تو میری سمجھ میں یہ وجہ
آئی چونکہ شفیق کا تعلق فوج سے تھا اور عرصۂ دراز تک وہ فوجی وردی رہا ہے
اس لئے لوگ اسے بہادر سمجھنے لگے ہیں نیز مورسی اخوان سے متعلق رہے ہیں جو
عرصۂ دراز سے مظالم کا شکاررہی ہے اس لئے لوگ انہیں بزدل سمجھنے لگے ہیں
لیکن محمد مورسی کے پارلیمان کو بحال کر دینے کے فیصلے نے ثابت کر دیا کہ
شیر کی کھال اوڑھ لینے والا بھیڑیا شیر نہیں ہوجاتا اور اگر شیر کو بھیڑ کی
کھال سے ڈھانپ دیا جائے تو وہ بھیڑ نہیں بن جاتا۔ |