آمریت

آمریت جسے انگر یزی میں ڈکٹیٹر شیپ کہتے ہیں اور عام زبان میں اسے ”مطلق العنا نیت “سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔مطلب اس کا یہ ہے کہ انسان کا بغیر کسی جوابد ہی کے خوف سے اپنی من مانی سے دو سروں پر حکومت کر نا یا اپنی رائے اور فیصلہ مسلط کر نا ۔عنان عربی کا لفظ ہے اس کا معنی ہے لگام اور مطلق العنان کا مطلب یہ ہے کہ کھلی آ زاد لگام ،اگر اس کا سادہ معنی و مفہوم ”شتربے مہار“ لیا جائے۔تو بھی درست ہے۔

اگر ہم بنظر غائر اپنے آ پ کو دیکھیں تو ہم میں ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ ایک ”آ مر“یعنی ڈکٹیٹرنظر آ تا ہے ہم اپنی رائے اور فیصلہ کے خلاف کسی دوسرے کی رائے یا فیصلہ کو کسی صورت قبول کر نے کو تیار نہیں ہو تے ۔ہم اپنی رائے کو ہی حرف آ خر سمجھتے ہیں ۔اور جو ہماری مر ضی کے خلاف کو ئی کام کرے تو ہم فو راًغصہ میں آ جاتے ہیں اور اپنی رائے کو ”متفقہ فیصلہ “بنا کر دو سروں پر مسلط کر نے کی کو شش کر تے ہیں ۔اگر کو ئی پھر بھی ہماری رائے کو حتمی تسلیم نہ کر ے تو ہم کو بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کر تے ۔ہمارا یہی رویہ جس میں عدم برداشت نمایاں ہے اور ہم زبر دستی اپنی رائے دوسروں کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوجب ان پر مسلط کر تے ہیں تو اس کا نام آ مریت ہے۔

دورہ حاضر میں آ مریت اس کو سمجھاجاتا ہے جب کو ئی شخص زبر دستی سلطنت پر قا بض ہو جائے اور اپنی مر ضی کے مطابق آ ئین و قا نون بنا کر لو گوں پر حکمرانی کر تا رہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو اختیار دینے کے بجائے ۔خود ہی سیاہ و سفید کا مالک بن جائے ۔تو ایسے حاکم کو ڈکٹیٹر کہتے ہیں ۔جس کی واضح مثالیں ما ضی قریب میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر کئی ممالک میں ہو گزری ہیں ۔یہاں تک کہ چالیس ،چالیس سال تک ایک ہی شخص اقتدار سے چمٹا رہا۔اور اپنی حکومت کو دنیا کی مقامی حکومت سمجھتے ہو ئے اپنی مرضی کے آ ئین بنائے ،عوام کو سہو لیات تو اگر چہ دیں لیکن اقتدار سے دور رکھا ۔اور ہر اس شخص کو جو اختیار ات کی نچلے طبقہ تک منتقلی کا مطالبہ کر تا اس کو حوالہ زندان کیا جاتایا ابدی نیند سلا دیا جاتا ۔تا ریخ عالم کا مطالعہ کر نے سے پتہ چلتا ہے کہ جس شخص نے بھی مطلق العنان حاکم کے مظالم کے خلاف آ واز حق بلند کی اس کے لیے وہ سلطنت تنگ کر دی گئی ،بلکہ اس کا قبر ستان بن گئی ۔

قا رئین کرام :یہ با ت حقیقت ہے کہ آمریت اہل اقتدار کی طرف سے ہی مسلط ہو تی ہے۔اور ماضی قریب میں عرب دنیا میں بر پا ہو نے والے انقلابات نے بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کا تختہ الٹا یا ہے جیسے تیو نس ،مصر ،بحرین ،لیبیا اور شام میں اس کا مشاہدہ ہو چکا ہے کہ اقتدار کی ہو س میں نصف نصف زندگی گزارنے والوں کاآ خر کا ر انجام کیا ہوا۔

لیکن اس بات سے بھی اعراض اور چشم پو ش نہیں کی جا سکتی کہ ہمارے تمام اداروں میں بھی آمریت کی واضح جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ہر ادارے کا سر براہ بزعم خود ایک ”آمر“بنا بیٹھا ہے۔تعلیمی درسگاہوں سے لے کر انتظامی اداروں تک آ پ مشاہدہ کر لیں آمریت بہت واضح نظر آئے گی ۔نہ جانے ہم انسان من حیث القوم اپنے آ پ کو کیا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ۔سب کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلتا ہوا دیکھنا پسند کر تے ہیں۔

اور یہ چیز بھول جا تے ہیں کہ ہمارے سوا کو ئی اور مخلوق بھی اس دنیا میں رہتی ہے۔ہماری طرح کے اربوں انسان بھی معاشرے میں کچھ حقوق رکھتے ہیں۔صحیح با ت تو یہ ہے کہ انسان کی امر انہ سو چ اس میں تکبر و غرور کا ایسا نشہ پیدا کر دیتی ہے کہ پھر وہ انسان صرف الجھنے مرنے و مارنے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اس سوچ کو پروان چڑھا نے کی بجائے اس کا قلع قمع کیا جانا بہت ضروری ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات ایک ادارے کے سر براہ کو نظم و ضبط بر قرار رکھنے کی خاطر اپنے ماتحتوں کے مزاج کے خلاف سخت فیصلے بھی کر نے پڑے ہیں لیکن یہ چیز آ مریت میں نہیں آ تی ۔یہ تو ادارہ کی فلا ح کے لیے نا گذیر ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آ ج انسانوں کے حکمران طبقہ سے لے کر عام آ دمی تک کی سو چ و فکر کی اصلاح کی جائے ۔انہیں آمرانہ سو چ سے دور کیا جائے ۔اور انہیں خو ف خدا اور جو اب دہی کا بھو لا ہو ا سبق یا دکرایا جائے ۔اس کے لیے میڈیا بہت اچھا ہتھیار ہے ۔یہ ایک ایسا جا مع مشترکہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے طبقہ انسانیت کی فکری راہنمائی میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔
Arshad Siddique
About the Author: Arshad Siddique Read More Articles by Arshad Siddique: 2 Articles with 3120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.