واہ رہے پاکستانی! تو بھی کیسا
بھولا ہے، تیرے بھولے پن پر آج پوری دنیا ہنس رہی ہے اب تو غفلت کی نیند سے
بیدار ہونے والے مصری بھی کہنے لگے ہیں کہ ”مصر کبھی پاکستان نہیں بنے گا“
اور تو نے تو ایک ”سوری“ کے من گھڑت لفظ پر اپنی غیرت، عزت اور اناءسب کو
بیچ دیا، چند ڈالروں کی خاطر اپنے جوانوں کے خون کا سودا کردیا، وہ جوان جو
سرحدوں پر پہرہ دیتے ہیں اور تو میٹھی نیند سوتا ہے جو سیاچن جیسے گلیشئر
میں دب جاتے ہیں اور اپنے وطن سے محبت میں انکار کا خیال تک ذہن میں نہیں
لاتے اور تو نے تو ”سوری“ پر توجہ رکھی لیکن وائٹ ہاﺅس کی ترجمان کی ہنسی
نہیں دیکھی جو تمہاری بے بسی اور لاچاری کے منہ پر طمانچے رسید کررہی تھی
اور انسانی بنیادوں پر رسد کھولنے کا تجھے کیا انعام ملا، 24گھنٹے بعد
24بھائیوں کی لاشیں.... یہ کیوں ہے؟، یہ کیا ہے؟ تو سمجھنے کی طرف آ ہی
نہیں رہا!!تجھے 65سال سے مختلف نعروں، مختلف عنوانات اور طرح طرح کے خواب
دکھا کر بیوقوف بنایا جاتا رہا، لوٹا جاتا رہا، کبھی قومیت کے نام پر تو
کبھی لسانیت کے نام پر ، کبھی حقوق کے نام پر تو کبھی روٹی، کپڑا اور مکان
کے نام پر تجھ سے ووٹ خریدا جاتا رہا، کبھی بنیادی جمہوریت کا سبق لیکر
بوٹوں والوں نے تجھے یرغمال بنایا تو کبھی اعتدال پسندی، روشن خیالی، تیرے
لیے ترقی اور خوشحالی کا نام ٹھہری، اب مفاہمتی پالیسی ”مفاہمت“ کی سیاست
اور استثنیٰ....
تو ہمیشہ اپنی تقدیر بدلنے کے چکر میں ووٹ دیتا رہا، بکتا رہا، جمہوریت کو
ہی اپنا آسرا اور مسیحا سمجھتا رہا، حالانکہ جمہوریت وہ ہے جہاں افراد کو
گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، جہاں گدھے اور گھوڑے کی کوئی پہچان نہیں جہاں
شیر اور بکری کو ایک ہی کھونٹے پر باندھا جاتا ہے، معذرت کے ساتھ عالم اور
جاہل کو ایک ساتھ بٹھایا جاتا ہے، یہ عوام کے نام پر گالیاں بھی بکتے ہیں،
سر بھی پھوڑتے اور گملے بھی توڑتے ہیں، جھوٹ، بڑے بول، بڑے دعوے اور ان کے
نزدیک سربراہان جماعت کی نمک حلالی آئین اور قانون سے سپریم ہوتی ہے، اس
خوبصورت اور منافقت کے لبادے میں چھپے نام ”جمہوریت“ کے دعویدار کون ہیں؟
یہ وہ ہیں جب قوم پر کڑا وقت آتا ہے تو لندن جا کر مصلحت کی ”فریج“ میں جا
بیٹھتے ہیں، اچانک بیمار ہو کر دبئی کے ہسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں، ہاں!
کئی تو ایسے ہیں جو تلواریں بیچ کر ”مصلے“ پر اکتفا کرتے ہیں۔
سوکالڈ غیرت مند پاکستانیو! یہ تو بتاﺅ لندن میں بیٹھ کر کونسی ملک کی خدمت
ہو رہی ہے، جاگیرداروں کی گود میں بیٹھ کر کس ”جاگیردارانہ“ نظام سے لڑائی
کی جارہی ہے یہ کونسا فلسفہ ہے؟ اور یہ کونسی فکر ہے؟، یہ عوام، عوام کا
نعرہ لگانے والے ملک میں ”پیسہ“ لانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اپنی عوام سے اتنی
ہی محبت ہے تو بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کیوں کرتے ہیں؟ حقیقت میں یہ لفظ
”عوام“ کسی پاکستانی کا نہیں بلکہ اس جمہوریت کا ہے جس کی سزا آج تک ہم
بھگت رہے ہیں، جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کیلئے بنائے گئے بنکر
کانام ہے، دشمن کی فوج کو تب تک نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا جب تک بنکر
محفوظ ہوتے ہیں، جب تک نام نہاد جمہوریت کا بنکر موجود ہے قوم کی تقدیر
نہیں بدل سکتی، اپنی، اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے اپنے رویے، ا پنے مزاج
کو تبدیل کرنا ہوگا، اپنے ووٹ کا صحیح استعمال ہی ملک میں انقلاب کا پیش
خیمہ ہوسکتا ہے، اگر ایسا نہ ہوا توتمہاری جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کیلئے طرح
طرح کے عنوانات بنتے رہیں گے۔ |