عمران خان اور نواز شریف کو خوش فہمیوں سے نکلنا ہوگا وگرنہ

تحریر : محمد اسلم لودھی

قومی الیکشن اب زیادہ دور دکھائی نہیں دیتے ۔ ماضی کے الیکشن پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب بمشکل 40 سے 45 فیصد ہی رہا ہے ۔گویا کل آبادی کا 60 فیصد حصہ ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کرتا ۔ ووٹ نہ دینے والوں میں امیرزادوں کے ساتھ ساتھ فوج پولیس اور الیکشن ڈیوٹیاں انجام دینے والے اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں ۔بالفرض اگر 40 فیصد ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں تو ان میں پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا تناسب 16 فیصد بنتا ہے ۔مسلم لیگ ن کو ملنے والے ووٹ بمشکل 13 فیصد ہوتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح پانچ سے سات فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے ۔ موجودہ صورت حال میں جبکہ عمران خان بھی میدان سیاست میں اپنی بھرپور نمائندگی کا احساس کروا رہے ہیں ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ تن تنہا قومی اسمبلی کی 172 نشستیں آسانی سے جیت کر حکومت بنالیں گے۔ لیکن محب وطن حلقوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان ، نواز شریف اور جماعت اسلامی کا اشتراک نہیں ہوتا تو پیپلز پارٹی کوایک بار پھر برسراقتدار آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کیونکہ جیالے تمام تر کرپشن ، بدانتظامیوں اور نااہلیوں کے باوجود ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیتے ہیں ۔جبب بھی کسی گلی محلے میں یہ بینر لٹکا ہوا دیکھتے ہیں کہ " مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان" تو جیالے تمام تر زیادتیوں کو بھول کر ایک بار پھر" آج بھی بھٹو زندہ ہے اور کل بھی بھٹو زندہ تھا " نعرے لگاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے امیدوار کوکامیاب کرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ میاں نوازشریف کے چاہنے والے بھی کم نہیں ہیں لیکن نوازشریف کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد اب عمران خان کو سپورٹ کررہی ہے ۔گویا عمران خان کو جتنے بھی ووٹ ملیں گے وہ مسلم لیگ ن کے ہی تقسیم ہوں گے چنانچہ عمران خان اور نوازشریف کا باہمی اختلاف ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کردے گا ۔اس کے باوجود کہ شاہ محمود قریشی ، ا عمران خاں کو مسلم لیگ ن سے اتحاد کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں اور عمران خان اس مشورے کو مستردکرچکے ہیں ۔میں ذاتی طور پر عمران کو ایک عظیم محب وطن اور متحرک سیاسی رہنماکی حیثیت سے پسند کرتا ہوں اور اس توقع کا اظہار بھی کرتا ہوں کہ اگر ان کو موقع ملا تو شاید وہ پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکال سکیں لیکن میری رائے میں عمران خان اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے جب تک 100 فیصد ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے ۔ وگرنہ عمران خان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے بغیر الیکشن میں حصہ لے کر ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کریں گے ۔ پیپلز پارٹی کی ہرممکن کوشش ہوگی کہ عمران خان تن تنہا الیکشن میں حصہ لیں اور نواز شریف سے ہاتھ نہ ملائیں ۔ تاکہ مخالف ووٹ تقسیم ہوکر ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی جیت کی راہ ہموار کرسکیں ۔اگر عمران خان کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی یقین ہے تو انہیں ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کا گراف دیکھ لینا چاہیئے۔پھر جو بھی نتائج سامنے آئیں اس کو مدنظر رکھ کر قومی الیکشن کی منصوبہ بندی کرنی چاہیئے ۔ کیا یہ بات نوازشریف اور عمران خان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے موسی گیلانی 96 ہزا ر ووٹ لے کر کامیاب ہوچکے ہیں اور اس حلقے میں مسلم لیگ ن کاامیدوار ناکام ہوا تھا اب جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 151 کا ضمنی الیکشن ہورہا ہے تو عمران خان نے اپنا امیدوار کھڑا نہ کرکے از خود پیپلز پارٹی کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا ہے ۔ جو سراسر زیادتی کے مترادف ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان ، نواز شریف اور جماعت اسلامی دو دو اینٹ کی الگ الگ مسجد بنا کر پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار کا راستہ ایک بار پھر ہموار کررہے ہیں ۔حالیہ دور میں پیپلز پارٹی کے کرپٹ حکمرانوں نے ملک کی جو حالت بنائی ہے وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اگر پیپلز پارٹی کو پھر اقتدار میں آنے کا موقع عمران خان کی وجہ سے مل گیا تو خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود نہیں رہے گا ۔میں جہاں عمران خان کو اپنی خود ساختہ مقبولیت کے خول سے باہر نکلنے کا مشورہ دے رہا ہوں وہاں نوازشریف کو بھی کہوں گا کہ وہ مخالفانہ بیان بازی بند کرکے عمران خان اور جماعت اسلامی سمیت تما م مذہبی جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں۔بلکہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی طرح انہیں بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے مقامی بلوچ اور موثر سیاسی قوتوں کو بھی قومی دھارے میں لا نا ہوگا ۔اگر ایسا نہ ہوا تو متوقع قومی الیکشن میں عمران اور نوازشریف دونوں مایوسی سے ہاتھ ملتے ہوئے دکھائی دیں گے اور پچھتاوا دونوں کا مقدر ہوگا۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.