ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ سابق
وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی کی چھوڑی ہو ئی سِیٹ پر اُن کےبیٹے سید
عبدالقادر گیلانی پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن جیت گئے ہیں۔ دراصل
اس حلقے میں بھٹو اور اینٹی بھٹو فریقین کا بھرپورمقابلہ تھا۔ یعنی
عبدالقادر گیلانی کے مقابلے میں منافقت کی چلمن کی اوڑھ میں ساری سیاسی
جماعتوں مثلا مُسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی وغیرہ اور
اُچکی قوتوں کا آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن (سابق وفاقی وزیر اور تحریک
انصاف کے رہنما سکندر حیات بوسن کے چھوٹے بھائی) کے حق میں کھلم کھلا گٹھ
جوڑ تھا۔ کیونکہ ملتان شہر میں جگہ جگہ شوکت حیات بوسن کے حق میں عمران خان،
نواز شریف، سیّد منور حسن کی جھنڈیاں، بینرز، پوسٹرز اور ہورڈنگ بورڈز
آویزاں ہیں اور تو اور دو بار پی۔سی۔ او کا عظیم معرکہ "غیرت مند" جگرے کے
ساتھ سر کرنے والے افتخار چودھری کی تصویریں بھی ایک کثیر تعداد میں آویزاں
ہیں- قائم مقام الیکشن کمشنر پی۔سی۔ او یافتہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس
جج شاکر اللہ جان الیکشن کو یقینی طور پر "منصفانہ" بنانے کے لیے "مفیدِ
مطلب" نئے انتخابی ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے ساتھ ساتھ بذات خود ملتان تشریف
لائےتھے۔ تا کہ کسی بھی "غلطی" کا احتمال نہ رہے۔ یہ ذکر کرنا بے محل نہ ہو
گا کہ میاں شاکر اللہ جان چیف الیکشن کمشنر کی پوسٹ کے لیےمسلم لیگ (ن) کی
پہلی چوائس تھے اور" آزاد عدلیہ" کے دل کے بھی چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں
کیونکہ ان کی تشریف آوری کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو تند خوئی
کے ساتھ تگنی کا ناچ نچانا فوری طور پر بند کردیاتھا۔
آج ایک بار پھر حلقہ این۔اے 151 میں عوام نے طاغوتی و فرعونی طاقتوں کے
مکروہ چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ جس کی آواز پورے پاکستان میں
گونج رہی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہے کہ عبدالقادر گیلانی کا نئے دور کی پُرفتن ،
پاکھنڈی، پُرفریب اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس "آئی۔جے۔آئی" کو ہرانا کوئی
معجزے سے کم نہیں۔
یوسف رضا گیلانی عوام کی عدالت میں سرخرو ٹھہرے۔ مگر عوامی شعور کی تذلیل
کرنے اور ان کو گھر بھیجنے والی طاقتوں کی بُرمُوہی خود غرضیوں کو عوام نے
ایک بار پھر ردّی کی ٹوکری میں اُچھال دیا ہے اور ان جمہوریت دشمنوں کا
تاریخ میں بھی وہی حشر ہو گا جو ہمیشہ سے ان کے پیشرَوؤں کے ساتھ ہوتا آ
رہا ہے۔
میرا دل چاہ رہا ہے کہ آج "تھوتھے چنے" سے احوال پُرسی کرنا چاہیے کیونکہ
تقاضائے آئین و دستور جو بھی ہوں، وہ اپنی ذاتی ترجیحات پر مُرکیاں لگاتے
اور تانیں اُٹھاتے ہوئے گھنا بجتا ہے۔ آج الیکشن کا نتیجہ دیکھ کرشائد اس
کی آنکھیں توضرور مچک رہی ہوں گی۔ کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ آج کےعوامی
جھٹکے سےاُس تاریک چشم کی آنکھوں پر چھا ئی ہوئی چربی اُتری ہو گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا جبین پر عرقِ ندامت کے چند قطرے نمودار ہوئے ہوں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیااس وقت
گھر کے کونے میں چھپ کر اشک فشانی ہورہی ہو گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیااب آشفتہ سری کے
ساتھ آشفتہ بیانی مسدود ہو جائےگی اور آشوب اُٹھنا رک جائیں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔
اڑپنج نکالنے کا شغل ضمیر جاگنے کی وجہ سے تھم جائے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ افترا
پردازی، اکاذیب اور انارکی کی دکان پر لُوٹ سَیل بند جائے گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیا
بلبل ہزار داستان روِش بھی رک جائے گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیایہ بنئے کے دکان بند ہو
گی جہاں ترازو باٹ سُو جھتا ہی نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔کیاآئین کی موشگافیوں اور
بوقلمونی تشریحات سے پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کا گھناؤنا دھندہ رک
جائے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر امکان غالب یہی ہے کہ "تھوتھے چنے" کا دائمی آسن بالکل نہیں اُکھڑا ہو
گا۔ وہ ہلہ شیری گروپ یعنی"پٹیشن بی"، "نامی" اور "بے نامی" اہلِ شر کی
باہمی تجویزیں وصول کر رہا ہو گا۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح آنکھوں پر ٹھیکری
رکھ کر بیٹھا ہو گا۔ ابھی بھی اُس پر اپنے دماغی ابرِغلیظ کو پورے پاکستان
پر پھیلانے کی دُھن سوارہو گی۔ کیونکہ عوام تو سدا اس جیسی "الٹی کھوپڑی
اندھا گیان"والی ہستیوں کے لیے آئینہ داری کے ذریعے ان کی آنکھوں کی فصدیں
کھولتی آئی ہے۔ مگر ان کی بھی نِت یہی ضِد اور کوشش رہی ہے کہ"آنکھ نہ ناک
بنو چاند سی"۔
آخر میں ہم جان کی امان طلب کر تے ہوئےعرض کریں گے کہ حضور آکھلاپن
چھوڑیئے۔ اپنی طبیعت پہ کنٹرول کیئجے کیونکہ آپ کےپاس آئین پر میناکاری،
گوٹا کناری اور تارے ٹانکنے کا وقت ختم ہو چکا۔ اب بیتُ الحُزن میں تارے
گننے کا وقت شروع ہونے والا ہے۔معلوم نہیں کہ وارڈروب میں لٹکے ہوئے کینالی
اور بِیرونی برائنڈڈ سوٹ آپ پہن سکیں گےیا نہیں۔ مگر اس ساعت آپ کا آفتاب
برسردیوار ہے- اس ضمنی الیکشن کو پیش خیمہ سمجھئَے کیونکہ جنرل الیکشنر بھی
آپ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لائیں گے- اور تِشنگی آرزو سمیت آپ کے اَنت
کا سَمے آ پہنچا ہے ۔ |