بنکاک کی سیر `چھڈی اور پہلا ناشتہ

بنکاک شہر کی رات کا اپنا ہی مزہ ہے چونکہ پہلے دن میں نے نزدیکی جگہوں کی سیر کی تھی اس لئے رات کو جلدی آکر بازار میں کھانے پینے کے چکر میں مصروف عمل ہوگیا-جس وقت میں تھائی لینڈ آرہا تھا اس وقت یاروںدوستوں نے ڈرایا ہوا تھا کہ خیال کرنا کوئی غلط چیز مت کھانا کیونکہ وہاں پر کھانے میں بہت کچھ مل جاتا ہے سو رات کو ایک سٹور میں جا کر اپنے لئے چاکلیٹ والے بسٹ لئے تھے اور اسے رات کا کھانا سمجھ کر کھا لیا تھا - چاکلیٹ کی یہی ایک خوبی ہے جس وقت بھوک لگے اسے کھالیا جائے تو مٹھاس کی وجہ سے بھوک نہیں لگتی پھر آکر گیسٹ ہائوس میں سو گیا-

صبح اٹھ کر نہانے کیلئے گیا تو شیمپو تو ساتھ لے گیا تھا لیکن غسل خانے میں جا کر خیال آیا کہ یہ تو میرا گھر نہیں یہاں پر تو صابن بھی نہیں اب کیا ہوگا - ذہن پر بہت زیادہ زور دیا لیکن کچھ طریقہ سمجھ نہیں آیا پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایااور شیمپو کی جھاگ کو صابن کی جھاگ سمجھ کر استعمال کیا -اوراپنے دل کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ " شیروں کے منہ کس نے صابن سے دھوئے ہیں " سو اپنے آپ کو شیر سمجھ کر ہم نے بھی صابن کو استعمال نہیں کیا -کسی زمانے میں پشاور میں ہشتنگری کے لنڈے سے میں نے اپنے لئے چھڈی خریدی تھی جو کہ بعد میں شرم کے مارے پہن نہیں سکا -ایک دفعہ پہن کر موٹر سائیکل پر نکل گیا تھا لیکن دوستوں نے میری وہ کلاس لی جس کے بعد وہ چھڈی گھر میں چھوڑ دی تھی ایک دفعہ رمضان کے آخری عشرے میں ہنگو کے علاقے میں خودکش حملہ ہوا تھا میں جینز میں چھڈی پہن کر دفتر گیا تھا دھماکے کی کوریج کیلئے مجھے جانا پڑا ہنگو میں کوریج کے بعد دوسرے چینلز کے لوگ تو روزہ ڈکار گئے لیکن مجھ اور میری ٹیم سے یہ نہیں ہوسکا سو میں نے اس چھڈی میں گرمی کا توڑ کرنے کیلئے وہاں نالے میں نہانا شروع کردیامیرے دوسرے ٹی وی چینل کے صحافی دوستوں نے اس چھڈی پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے روزہ میں ڈکار گیا ہوں اس کے بعد چھڈی میں گھر میں چھوڑ گیا - میں تھائی لینڈ جاتے ہوئے یہی چھڈی اپنے ساتھ لے گیا تھا کہ وہاں پر کون ہوگا جو مجھے دیکھے گا اور اگر کسی نے دیکھ لیا تو کون مجھے پہچانتا ہے سو نہانے کے دوران یہی چھڈی استعمال کی- ناشتے کیلئے بھی اسی چھڈی میں نیچے گیسٹ ہائوس کے ریسپشن پر آگیاوہاں پر چینی ریسپشنسٹ کومی لی نے ناشتے کا بندوبست کردیا میں نے جلدی میں اسے ناشتے میں کافی لانے کا کہہ دیاوہ ظالم بریڈ اور کافی لے آیا میں نے کافی کو چکھ لیا اتنی کڑوی کاپی تھی مجھے لگا جیسے میں نے کھانسی کی دوائی کھا لی ہو بریڈ جو کہ ناشتے کے ساتھ مجھے دیا گیا وہ شوگر کے مریضوں کیلئے تھا یعنی ذائقہ نہیں تھا مجھے اپنی آمی کی یاد آگئی وہ بھی شوگر کی مریضہ ہے اوروہ کس طرح یہ بریڈ کھاتی تھی اور بغیر ذائقے کے بریڈ کھانا کتنا مشکل کام ہوتا ہے -ناشتہ مشکل سے کرنے نے بعد انٹرنیٹ استعمال کیا اور گھر والوں دوستوں کو ای میل کیادس بجے کے قریب گیسٹ ہائوس سے نکلا - گیسٹ ہائوس کے مین روڈ پر ایشیا ٹائمز نامی اخبار کا دفتر دیکھا وہاں کا چکر لگایا تو پتہ چلا یہ چینی زبان میں شائع ہوتا ہے کسی کو انگریزی کی سمجھ نہیں آتی تھی وہاں پر ایک بوڑھا ہیلپر تھا اس نے بتایا کہ اس وقت دفتر میں کوئی نہیں ہوتا آپ شام کو چکر لگائیں اس نے مجھ سے پوچھا کہ مسلمان ہو میں نے اثبات میں جواب دیا اس نے ہاتھ ہلایا اور کہا کہ میں بھی مسلم ہوں پھراس کیساتھ گپ شپ ہوئی اس سے سوال کیا کہ سڑک کراس کرنا ہے کیا کروں اس نے مجھے بتایا کہ انڈر گرائونڈ آگے ہے وہاںسے سڑک کراس سکتے ہو اور پھر میں آگے چل پڑا-

انڈر گرائونڈ ٹرمینل میں داخل ہوا تو ایسا لگا کہ دوسری دنیا میں آگیا ہوں بجلی سے چلنے والی سیڑھیوں اور صفائی نے حیران کردیا ہمارے ہاں جو انڈر گرائونڈ ہیں وہاں پر گندگی کے ڈھیر او رپانی کھڑا ہوتا ہے لیکن بنکاک میں انڈر گرائونڈ تو جیسے خوشبوئوں کی دکانیں ہیں کیونکہ جو بھی لڑکی گزرتی اس نے اتنی خوشبو لگائی ہوتی کہ پورا انڈر گرائونڈ ہی خوشبو وں کی دکان بن گیا تھا آگے انڈر گرائونڈ میں سٹیشن بھی تھا یہ میٹرو بس تھی جس میں لوگ اندر جانے کیلئے پیسے ڈالتے انہیں ٹکٹ ملتا اور آگے جا کر ٹرین کاانتظار کرتے اس انڈر گرائونڈ کے ذریعے سڑک کراس کیا تو ایک گلی میں خود کو پایا جہاں پر فٹ پاتھوں پر شرٹس ` بیلٹس سے لیکر خواتین کا سامان پڑا ہوا تھا میں بھی ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے وہاں آگے چلا گیا آگے چلا تو پتہ چلا کہ ہئیر ڈریسر کی دکان پر خواتین بال ٹھیک کررہی تھی بہت افسوس ہوا کہ میرے بال نہیں تھے یعنی جس میں وقت میں یہاں سے جا رہا تھا تو میں نے مشین کے ذریعے بال انتہائی چھوٹے کروا لئے تھے جس پر افسوس ہورہا تھا کہ چلو اگر بال ہوتے تو ان لڑکیوں سے بال کٹواتا پھر یہاں آکر اپنے دوستوں پر رعب جماتا کہ میرے بال لڑکیوں نے ٹھیک کئے ہیں -

اسی بازار میں کھانے پینے کی اشیاء ہتھ ریڑھیوں پر پڑی تھی گوشت کے عجیب عجیب سے ڈیزائن بنائے گئے تھے ایک ہتھ ریڑھی والی سے گوشت کے بارے میں پتہ کیا تو اس نے بتایا کہ یہ " سور" کا گوشت ہے جسے یہاں کے لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں میں جلدی سے اس گلی سے واپس آیاسڑک کراس کرنے کیلئے زیبرا کراسنگ پر پائوں رکھا تو چلنے والی تمام گاڑیاں رک گئی پھر میں نے جلدی سے سڑک کراس کرلیا یہ ایک انوکھا تجربہ تھا یعنی جیسے ہی کسی مسافر نے زیبرا کراسنگ پر پائوں رکھ تمام گاڑیاں رک گئی اور جب تک مسافر زیبرا کراسنگ پر ہوں خواہ کتنے ہی مسافر کیوں نہ ہوں اس وقت تک کوئی گاڑی نہیں جاتی جبکہ ہمارے ہاں تو بہادر شخص وہ ہے جو اپنے آپ کو گاڑیوں کے ٹکر سے بچائے ورنہ کونسا زیبرا کراسنگ اور کہاں کے مسافروں کے حقوق -ہمارے ہاں تو صرف گاڑیوں والوں کے حقوق ہیں غریب اور پیدل لوگوں کے کوئی حقوق نہیں -

بنکاک کے لوگ بھی عجیب سے ہیں انہیں دیکھ کر اپنے وطن کی یاد آئی ہمیں تو سیکورٹی ناکوں نے تباہ حال کردیا ہے اول تو جہاں جہاں پر سیکورٹی ناکے ہیں وہاں پر عام آدمی کا داخلہ بند ہے اور اگرکوئی جانا چاہتا ہے تو سیکورٹی ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکار اور اب سیکورٹی فورسز کے جیب گرم کئے بغیر جانا مشکل ہوتا ہے اور پھر ان کا رویہ بھی لوگوں کیساتھ ایسا ہوتا ہے جیسے یہ سیکورٹی فورسز اور پولیس والے ہمیں تنخواہ دیتے ہیں حالانکہ یہی لوگ ہمارے ٹیکسوں سے پلتے ہیں اور ہماری ہی ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے ہم پر غراتے ہیں اورہم سے رشوت بھی لیتے ہیں -اگر کسی کو اس صورتحال کا اندازہ کرنا ہو تو پشاور صدر کے سی ایم ایچ ہسپتال یا پھر سٹیٹ لائف بلڈنگ پر کھڑے پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی بدتمیزی سے اندازہ خود بھی کرسکتے ہیں-چار کلومیٹر کا سفر ہم نے بنکاک کے مختلف سڑکوں پر کرلیا لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ کہاں جارہے ہوں کاغذات مکمل ہیں کہ نہیں اپنے آپ پر اور اپنے ملک کے نظام پر بہت افسوس ہوا-

پیدل چلنے کی وجہ سے بہت بھوک لگی ایک گلی میں داخل ہوا تو وہاں پر مسلم فوڈز لکھا ہوا نظر آیا ایک عورت نے سکارف پہنا تھا میں نے اس سے مسلم فوڈز کا پوچھا اس نے کہا کہ ہاں ہمارے پاس چاول انڈہ مچھلی موجود ہیں -پہلی مرتبہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر چاول انڈہ اور سلاد مکس کرکے کھا لیا یہ لوگ نمک بھی نہیں ڈالتے لیکن چونکہ بھوک بہت زیادہ تھی اس لئے ابتداء میں تو پتہ نہیں چلا پھر بعد میں خیال آیا اور اتنا نمک میں نے ڈالا کہ اسی نمک کے زور پر میں نے وہ کھانا کھا لیا -ویسے ان کے نمک استعمال نہ کرنے کی وجہ تو سمجھ نہیں آئی لیکن اتنا سمجھ گیا کہ بنکاک کے لوگ کیوں نمکین نہیں ہوتے ان کے چہروں سے لگتا ہے کہ ان کی خمیر میں نمک استعمال ہیں نہیں کی گئی اسی وجہ سے ہمیں اچھے بھی نہیں لگے -- ہا ہا

گھر کی روٹی کی یاد آئی کیا نان ہوتے ہیں دیار غیر میں گھر والوں کی روٹی کی بہت زیادہ یاد آتی ہے وہاں پر فٹ پاتھ پر بیس بھات کا پیپتا لیا وہاں پر چونکہ پپیتا پیدا ہوتا ہے اس لئے اس کی قیمت کم ہے جبکہ آم وہاں پر نہیں ہوتے اس لئے آم خاص لوگ کھاسکتے ہیں خاتون سے آم کی قیمت کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک آم ایک سو بیس روپے کا ہے میں نے اسے جواب دیا کہ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں آم ہیں اور کئی قسموں کے ہیں ایک سو بیس روپے میں تو ایک کلو آم آتے ہیں -اس عورت نے خوش دلی سے جواب دیا کہ تم یہاں آم اپنے ملک سے لائو یہاں کاروبار شروع کرو -ویسے اس کی تجویز تو اچھی تھی لیکن جب غور کیا تو پتہ چلاکہ ایک صحافی تجارت نہیں کرسکتا نہ تو ہمارے پاس پیسے ہیں اور نہ ہی تجارت کیلئے تیزی -ہم ٹھہرے ایک جمع ایک والے لوگ -سو اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر اپنے ہوٹل کی راہ لی-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422279 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More