رمضان سے متعلق کوتاہیاں ۔ قسط1

تحریر: احمد شاہ ورانوی

رمضان نیکیوں کا موسم، قرآن کا مہینہ، رحمت، مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا مہینہ، اللہ کی رحمتوں اور انعامات کی بارش کا مہینہ، خصوصی ملائکہ کے نزول کا مہینہ. الغرض بہت ہی بابرکت مہینہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو مہینوں سے اس کا انتظار شروع ہو جاتا۔ جوں جوں رمضان قریب ہوتا جاتا اشتیاق بڑھتا جاتا، ہلال رجب دیکھنے کے بعد آپ دعا کرنے لگتے ’’اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان‘‘ اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔ ﴿مستدرک حاکم، عمل الیوم واللیلہ، مشکاۃ کتاب الصلوٰۃ باب الجمعہ حدیث۹۶۳۱ بحوالہ الدعوات الکبیر للبیہقی﴾
غرض رمضان رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں اور انعامات بھرا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں سے بہرہ ور ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

رمضان کو قیمتی بنانے کے لئے دو باتوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔ عبادات کی کثرت اور رمضان سے متعلق پھیلی کوتاہیوں سے بچنا۔ ثانی الذکر کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس کی طرف توجہ بہت کم ہے۔ اس مضمون میں اس پہلو کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بات کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

رمضان میں حفاظ قرآن کی تباہی
اس مبارک مہینے میں جس طبقے کو سب سے زیادہ سعادتمند ہونا چاہئے تھا وہ حفاظ قرآن ہیں لیکن افسوس کہ شیطانی دھوکوں اور کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے امت کا یہ عظیم طبقہ نا صرف یہ کہ رمضان کی برکات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ گناہ در گناہ کا شکار ہوکر عذاب کو سمیٹ لیتا ہے الا ماشائ اللہ۔ ذیل میں حفاظ میں پھیلی چند کوتاہیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کوتاہیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ﴿آمین﴾

٭رمضان میں عام لوگوں کی بنسبت حفاظ کم تلاوت کرتے ہیں، شیطان اور نفس پٹی پڑھاتے ہیں کہ اگر تو زیادہ تلاوت کرے گا تو لوگ کہیں گے کہ اس کا حفظ کچا ہے اس لئے لگا ہوا ہے تو اپنے حفظ کو پکا دکھانے کے لئے قرآن سے دور رہتے ہیں اور کبھی کرتے ہیں تو چھپ کر کرتے ہیں وہ بھی صرف اتنا جتنا انہوں نے رات کو سنانا ہوتا ہے۔ یہ شیطان کا بہت بڑا دھوکہ ہے۔ حفاظ بھائیوں سے درخواست ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ تلاوت قرآن کو وقت دیں ہمیں لوگوں سے کیا لینا دینا، یہ مہینہ دامن بھرنے کا ہے لوگوں کے کچا پکا کہنے سے اپنے محبوب﴿قرآن﴾ سے دوری اختیار کرنا کتنی بڑی محرومی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی محرومی سے بچائے۔ ﴿آمین﴾

٭ اکثر حفاظ کا قرآن سال بھر کچا رہتا ہے۔ شعبان میں یا اس سے کچھ پہلے پکا کرلیتے ہیں تاکہ وہ رمضان میں تلاوت کرتے ہوئے دکھائی نہ دیں۔ مبادا کسی کو اس کے قرآن کے کچا ہونے کا گمان ہو جائے۔ یہاں ایک عام غلطی یہ ہے کہ قرآن کو رمضان کی تراویح کے ساتھ خاص کر لیتے ہیں حالانکہ حافظ قرآن ایک عظیم انسان ہوتا ہے جس نے رب کی کتاب کو اپنے سینے میں اتارلیا۔ اب وہ جہاں بھی جائے رب کی کتاب اس کے ساتھ ہے۔ حفظ قرآن کا اصل مقصد اور بھرپور مزہ ہی یہ ہے کہ اسے تہجد میں پڑھا جائے سال بھر بلا ناغہ۔ اسے صرف تراویح کے ساتھ خاص کرنا بہت بڑی غلطی اور قرآن کی رونق کو کم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں حفاظ کے والدین اور اساتذہ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ والدین کہیں اور بار بار کہیں، بیٹا ہم نے تمہیں قرآن اس لئے یاد کروایا کہ ہمارے گھر میں روزانہ رحمتوں کا نزول ہو، تہجد کے وقت میں ہمارے گھر سے قرآن کی آواز آئے۔ بیٹا اگر تو بھی اوروں کی طرح سوتا رہا تو پھر تیری مثال اس مشک کی تھیلی کی سی ہوگی جس کا منہ بند کردیا گیا ہو۔ بیٹا قرآن بھلانے کا بہت بڑا عذاب ہے وغیرہ وغیرہ اسی طرح اساتذہ وقتاً فوقتاً متوجہ کردیا کریں۔

٭ بعض حفاظ اپنے حفظ کو پکا دکھانے کے لئے کہہ دیتے ہیں میں نے گزشتہ سال تراویح میں سنانے کے بعد قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا اور یہ آج سنا دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ کتنی بری بات ہے کہ ایک تو قرآن سے بے اعتنائی برتی جائے، دوسرا اس بے رخی پر فخر کیا جائے۔ حالانکہ قرآن کا سال میں کم از کم دو دفعہ ختم کرنا قرآن کا حق ہے۔ تو گویا وہ اقرار کررہا ہے کہ میں نے قرآن کی حق تلفی کی ہے اور اس حق تلفی کو فخریہ انداز میں بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ شریعیت کا حکم معصیت کو چھپانے کا ہے۔ اور گویا وہ اپنی اس بات میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ میری عادت ہی قرآن سے دور رہنا ہے۔ تراویح نہ ہوتی تو میں یہ بھی نہ پڑھتا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس کے علاوہ یہ بات سراسر جھوٹ ہوتی ہے قرآن اتنی دیر نہیں ٹھہرتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:تعاہدوا القرآن فوالذی نفسی بیدہ لہو اشد تفصیا من الابل فی عقلہا۔
ترجمہ: قرآن کی خبر گیری کیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اونٹ جتنی تیزی سے رسیوں سے نکل جاتے ہیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے قرآن سینوں سے نکل جاتا ہے۔ ﴿فضائل قرآن، بحوالہ بخاری و مسلم﴾

لیجئے یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد، جس کا مطلب ہے کہ قرآن کی خبر گیری نہ کی جائے تو وہ بہت جلدی سینے سے نکل جاتا ہے۔ بہرحال آپ غور کریں کہ صرف اپنے حافظے کو باکمال دکھانے کے لئے کتنا بڑا وبال اپنے سرلیا جارہا ہے۔ جھوٹ، معصیت کا اقرار، معصیت پر فخر اور قرآن سے بے رغبتی کا اظہار وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔

حافظ قرآن کو سب سے زیادہ متواضع ہونا چاہئے اپنی کمزوریوں پر نظر رہنی چاہئے اور اپنی بیماریوں کے علاج کی فکر کرنی چاہئے۔ کونسی آفت ٹوٹ پڑے گی اگر لوگوں کو آپ کے حافظے کی کمزوریوں کا علم ہوجائے گا؟ کونسی قیامت قائم ہوجائے گی اگر کچھ لوگ آپ کے بارے میں خیال کریں کہ اسے قرآن پکا کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے؟؟ حافظہ اگر کمزور ہے تو کسی نہ کسی صورت ظاہر ہوہی جائے گا اور اگر مضبوط ہے تو بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ بہرحال یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے اس کا علاج یہ ہے کہ رمضان میں تلاوت کی کثرت کرنی چاہئے اور ان وساوس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ نیز ان بزرگوں کے واقعات پڑھنے چاہئے جو قرآن کریم کی تلاوت کی کثرت کیا کرتے تھے۔

٭بعض حفاظ تراویح میں قرآن اتنی جلدی پڑھتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا اور ایسا وہ اپنے مقتدیوں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں کیونکہ ان سے زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہا جاتا اور وہ اس پر ناراض ہوکر کہتے ہیں کہ اجی فلاں حافظ صاحب نے تو اتنے وقت میں تراویح پڑھائیں اور یہ صاحب اتنا وقت لگا رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ اس حافظ صاحب کے مقابلے میں کمزور ہیں ان کا قرآن کچا ہے تو ان باتوں سے بچنے، مقتدیوں کو خوش کرنے اور اپنا حفظ پکا دکھانے کے لئے حفاظ کے درمیان مقابلے چلتے ہیں کہ کون کم وقت میں ختم کرتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں فلاں حافظ صاحب پندرہ منٹ میں پارہ ختم کرتے ہیں اس پر بعض کہتے ہیں فلاں حافظ بارہ منت میں پارہ پڑھتے ہیں۔ بعض کے بارے میں دس منٹ کا بتاتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کو اللہ کا خوف نہیں آتا کہ صرف مخلوق کو خوش کرنے کے لئے رمضان مبارک میں مسجد کے اندر نماز میں وہ قرآن کا کیا حشر کر رہے ہیں؟ اس سے تو اچھا تھا کہ چھوٹی سورتوں کے ساتھ اطمینان سے پڑھتے۔

اگر لوگوں میں تین پارے سننے کی طاقت نہیں تو کیا ضروری ہے۔ صرف ایک پارہ آرام آرام سے پڑھا جائے۔ پورا رمضان قرآن کی رونق رہے گی۔ ہمارے اکثر اکابر کا معمول تراویح میں صرف ایک قرآن پڑھنے کا تھا حالانکہ ان کا قرآن بہت پکا ہوتا تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ ان کی نظر مخلوق سے زیادہ خالق پر ہوتی تھی۔
ایک دفعہ امیر المؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک جملے میں ایک مختصر سی بات ارشاد فرمائی وہ یاد رکھنے کے قابل ہے، ارشاد فرمایا: ’’جو شخص مخلوق کو راضی کرنا چاہتا ہے چاہے اس میں خالق کی ناراضگی ہو تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائیں گے اور مخلوق بھی راضی نہیں ہوگی، اور جو شخص خالق کو راضی کرنا چاہتا ہے اگرچہ اسے مخلوق کی ناراضگی مول لینی پڑے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوجائیں گے اور مخلوق کو بھی راضی کردیں گے‘‘۔ اور یہ تجربہ شدہ بات ہے جس نے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا اور اس راستے میں مخلوق کی پرواہ نہ کی تو دلوں کے مالک نے دلوں میں ان کی محبت بٹھا دی، اور جو اس کے برعکس مخلوق کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے ذلیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اسے مخلوق کی محبت حاصل ہوتی ہے نہ خالق کی رضا۔ اس لئے ہمیشہ نظر خالق کی رضا پر ہونی چاہے دل اسی کے قبضے میں ہیں دلوں کا پھیرنے والا وہی ہے لہٰذا ہمارا ہر کام شریعت کے مطابق ہونا چاہئے، چاہے کوئی راضی ہو یا ناراض۔
٭.٭.٭
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.