روزہ فرض ہونے کی وجہ (احکامِ روزہ)

دُ رُود شریف کی فضیلت
حضرتِ سَیِّدُنا شیخ اَحمد بن مَنْصور علیہ رحمۃ الغفور جب فَوت ہوئے تواہلِ شِیراز میں سے کِسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ شِیراز کی جامِع مَسجِد کی مِحراب میں کھڑے ہیں اور اُنہوں نے بِہترین حُلَّہ (جنتی لباس) زَیبِ تَن کیا ہوا ہے اور سَرپر مَوتیوں والا تاج سَجا ہوا ہے۔ خواب دیکھنے والے نے حال دریافت کیا تو فرمایا:''اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے بَخشا، کرم فرمایا اور تاج پَہنا کر جنَّت میں داخِل کیا ۔ '' پوچھا ، کِس سبب سے؟فرمایا: ''میں تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کثرت سے دُرُوْدِ پاک پڑھا کر تا تھا یِہی عَمَل کام آگیا۔'' اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِین
(القولُ الْبَدِیْع، ص٢٥٤)
(احکام روزہ میں ہر جگہ مسائل فِقہِ حنفی کے مطابِق دئیے گئے ہیں۔لہٰذا شافِعی ،مالکی اور حنبلی مسالک کے بھائی فقہی مسائل کے معاملے میں اپنے اپنے عُلَمائے کرام سے رُجوع کریں )

اللّٰہ تبارَکَ وَ تَعالٰی کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اُس نے ہم پر ماہِ رَمَضانُ المبارَک کے روزے فرض کرکے ہمارے لئے تقویٰ اور اپنی رِضا جُوئی کا سامان فراہم کیا۔اللّٰہ عزوجل( پارہ٢ سُورۃُ البَقَرۃ کی آےت نمبر١٨٣تا١٨٤ )میں ارشاد فرماتا ہے:۔
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ0 اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ، فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہ،ط وَاَنْ تَصُوْمُوْا خََیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 0
( پ ٢ ،البقرہ١٨٣ تا ١٨٤)

ترجَمَہ کنزالایمان :اے ایمان والو! تم پرر وزے فَرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیںتمہیں پرہیز گاری ملے، گِنتی کے دن ہیں تَو تم میں جوکوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دِنوں میں اور جنہیں اِس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لئے بِہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بَھلا ہے اگر تم جانو۔

روزہ کس پر فرض ہے؟
تَوحِیدو رِسالت کا اِقْرارکرنے اور تمام ضَروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعدجس طرح ہر مُسلمان پر نَماز فَرْض قراردی گئی ہے اسی طرح رَمَضان شریف کے روزے بھی ہر مُسلمان ( مَرد وعورت ) عاقِل وبالِغ پر فَرض ہیں۔ دُرِّمُخْتارمیں ہے،روزے ١٠ شعبانُ الْمُعَظَّم ٢ ؁ھ کو فرض ہوئے۔ (دُرِّمُخْتار مع رَدُّالْمُحْتار ،ج٣،ص٣٣٠)

روزہ فرض ہونے کی وجہ
اِسلام میں اکثر اَعمال کسی نہ کسی رُوح پَرور واقِعہ کی یاد تازہ کرنے کے لئے مُقَرَّر کئے گئے ہیں۔مَثَلاً صَفا اور مَروَہ کے درمیان حاجیوں کی سَعْی حضرتِ سَیِّدَتُنا ہا جِرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یاد گار ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے لختِ جِگر حضرتِ سَیِّدُنااِسماعیل ذَبِیح ُاللہ علٰی نَبِیّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَامُکےلئے پانی تلاش کرنے کیلئے اِ ن دونوں پہاڑوں کے درمیان سات بار چلی اور دَوڑی تھیں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو حضرت سیِّدَتُنا ھاجِرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ ادا پسند آگئی ، لہٰذا اِسی سُنّتِ ہاجِرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے باقی رکھتے ہوئے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کے لئے صَفَا ومَر وَہ کی سَعْی کو واجِب کردیا۔اِسی طرح ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں سے کچھ دن ہمارے پیارے سرکار ، مکّے مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غارِ حِرا میں گُزار ے تھے۔اِس دَوران آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کو کھانے سے پرہیز کرتے اور رات کو ذِکرُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغُول رہتے تھے۔تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اُن دِنوں کی یا د تازہ کرنے کیلئے روزے فَرض کئے تاکہ اُس کے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت قائِم رہے۔

انبیائے کرام علیہم السلام کے روزے
روزہ گُزَشتہ اُمَّتوں میں بھی تھا مگر اُس کی صُورت ہمارے روزوں سے مختلِف تھی۔ رِوایات سے پتا چلتا ہے کہ ''حضرتِ سَیِّدُنا آدَم صَفِیُّ اللہ علٰی نَبِیّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَامُ نے١٣،١٤،١٥ تاریخ کو روزہ رکھا ۔''(کنزالعُمّال ،ج٨،ص٢٥٨،حدیث٢٤١٨٨)
''حضرتِ سَیِّدُنا نُوح نَجِیُّ اللّٰہ علٰی نَبِیّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ روزہ دار رہتے۔''
(ابنِ ماجہ، ج ٢، ص٣٣٣،حدیث١٧١٤)
''حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ روح ُاللہ علٰی نَبِیّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَام ہمیشہ روزہ رکھتے تھے کبھی نہ چھوڑتے تھے ۔''
(کنزالعُمّال،ج٨،ص ٣٠٤،حدیث ٢٤٦٢٤)
'' حضرتِ سَیِّدُناداو'د علٰی نَبِیّنبَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَامُ ایک دن چھوڑ کرایک دن روزہ رکھتے ''
(صحیح مسلم ،ص ٥٨٤،حدیث١١٨٩)
حضرتِ سَیِّدُنا سُلَیمان علٰی نَبِیّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰٰوۃُ وَالسَّلَامُ تین دن مہینے کے شروع میں ،تین دن درمیان میںاور تین دن آخِر میں (یعنی مہینے میں ٩دن) روزہ رکھا کرتے۔ (کَنزالعُمّال، ج٨، ص٤ ٠ ٣،حدیث ٢٤٦٢٤)

روزہ دار کا ایمان کتنا پختہ ہے!
محترم قارئین کرام! سَخْت گرمی ہے،پیاس سے حلْق سُوکھ رہا ہے ،ہَونٹ خُشک ہورہے ہیں،پانی موجُود ہے مگر روزہ دار اُس کی طرف دیکھتا تک نہیں ، کھانا موجُود ہے بُھوک کی شِدّت سے حالت دِگر گُوں ہے مگر وہ کھانے کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھاتا ۔آپ اندازہ فرمائیے اِس شخص کاخُدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ پر کِتنا پُختہ ایمان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اِس کی حَرَکَت ساری دُنیا سے تَو چُھپ سکتی ہے مگر اللّٰہعَزَّوَجَلَّ سے پَوشیدہ نہیں رَہ سکتی ۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ پراِس کا یہ یقینِ کامِل روزے کا عملی نتیجہ ہے ۔کیونکہ دُوسری عِبادتیں کِسی نہ کِسی ظاہِری حَرَکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تَعلُّق باطِن سے ہے۔اِس کاحال اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی نہیں جانتا اگر وہ چُھپ کر کھاپی لے تب بھی لوگ تَو یِہی سمجھتے رہیں گے کہ یہ روزہ دار ہے۔مگر وہ محض خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے باعث کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے۔

محترم قارئین کرام!ہوسکے تَو اپنے بچّوں کو بھی جلدی جلدی روزہ رکھنے کی عادت ڈلوائیے تاکہ جب وہ بالِغ ہوجائیں تو اُنہیں روزہ رکھنے میں دُشواری نہ ہو۔ چُنانچِہ فُقَہائے کِرام رَحِمَھُمُ اللّٰہ تعالٰیٰفرماتے ہیں،''بچّہ کی عُمر دس سا ل کی ہو جائے اور اُس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اُس سے رَمَضانُ الْمبارَکمیں روزہ رکھوایا جائے ۔ اگر پُوری طاقت ہونے کے باوُجُود نہ رکھے تو مار کر رکھوائیے اگر رکھ کر توڑ دیا تَو قَضَاء کا حُکم نہ دیں گے۔اور نَماز توڑدے تَو پھر پڑھوائیے۔(رَدُّالْمُحْتار،ج٣، ص٣٨٥)

کیا روزہ سے آدمی بیمار ہوجاتا ہے؟
بعض لوگوں میں یہ تَأثُّرْپایا جاتا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کمزور ہو کر بیمار پڑجاتا ہے۔ حالانکہ ایسانہیں ۔

الملفوظ ،حصّہ دُوُم ص١٤٣ پرہے ، میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ''ایک سال رَمَضانُ الْمبارَک سے تھوڑا عرصہ قبل والِد ِمرحوم حضرت ِرئیسُالْمُتَکَلِّمِین سَیِّدُنا و مولیٰنا نَقی علی خان علیہ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: بیٹا ! آئندہ رَمَضان شریف میںتم سَخت بیمارہوجاؤ گے ،مگر خَیال رکھنا کوئی روزہ قَضاء نہ ہونے پائے۔ چُنانچِہ والدصاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حسبُ الِْارشاد واقِعی رَمَضانُ الْمبارَک میں سَخت بیمار ہوگیا۔لیکن کوئی روزہ نہ چُھوٹا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ! روز و ں ہی کی بَرَکت سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے صِحّت عطا فرمائی۔اور صِحّت کیوں نہ ملتی کہ سَیِّدُالْمَحبُوبِین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ پاک بھی تَو ہے: صُوْمُوْا تَصِحُّوا یعنی روزہ رکھو صِحَّتیاب ہو جاؤ گے۔'' ( دُرِّمَنثور ،ج١،ص٤٤٠)

روزے سے صحت ملتی ہے
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے مَروی ہے ، اللّٰہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ کے گلشن کے مہکتے پھولعَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ صِحّت نشان ہے، ''بے شک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی علیہ السلام کی طرف وَحی فرمائی کہ آپ اپنی قوم کو خبر دیجئے کہ جو بھی بندہ میری رِضاکیلئے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو میں اُس کےجِسْم کو صِحّت بھی عطا فرماتا ہوں اور اسکو عظیم ا َجر بھی دُونگا۔'' (شُعَبُ الایمان ،ج٣ ،ص٤١٢،حدیث٣٩٢٣)

معدے کا ورم
محترم قارئین کرام!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّاحادیثِ مبارَکہ سے مُستَفاد( مُسْ۔تَ۔فاد) ہوا کہ روزہ اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ حُصولِ صحّت کا بھی ذَرِیْعہ ہے۔اب تو سائِنسدان بھی اپنی تَحقیقات میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ جیسا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر ُمورپالِڈ MOORE PALID) (کہتا ہے ، ''میں اسلامی عُلوم پڑھ رہا تھا جب روزوں کے بارے میں پڑھا تو اُچھل پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کوکیسا عظےم ُ الشّان نُسخہ دیا ہے! مجھے بھی شوق ہوا، لہٰذا میں نے مسلمانوں کی طَرز پر روزے رکھنے شروع کردئے ۔ عرصئہ دراز سے میرے مِعدے پروَرم تھا ۔کچھ ہی دِنوں کے بعد مجھے تکلیف میں کمی مَحسوس ہوئی میں روزے رکھتا رہا یہاں تک کہ ایک مہینے میںمیرا مرض بالکل ختم ہوگیا!''

حیرت انگیز انکشافات
ہالینڈکاپادری ایلف گال (ALF GAAL) کہتا ہے،میں نے شُوگر ، دل اور مِعدے کے مریضوں کو مسلسل 30 دن روزے رکھوائے ، نَتیجتًا شُوگر والوں کی شوگر کنڑول ہوگئی ، دِل کے مریضوں کی گھبرا ہٹ اور سانس کا پھولنا کم ہو ا اور مِعدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ایک اِنگریز ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (SIGMEND FRIDE) کا بیان ہے، روزے سے جسمانی کھِچاؤ،ذِ ہنی ڈِپریشن اورنفسیاتی امَراض کا خاتِمہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹروں کی تحقیقاتی ٹیم
ایک اخباری رپورٹ کے مطابِق جَرمنی،اِنگلینڈ اور امریکہ کے ماہِر ڈاکٹروں کی تحقیقاتی ٹیم رَمَضانُ الْمبارَک میں پاکستان آئی اور اُنہوں نے بابُ المدینہ کراچی ، مرکزُ الاولیاء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی لاہور اور دِیارِ مُحدِّثِ اعظم علیہ الرحمۃ سردار آباد(فیصل آباد)کا انتِخاب کیا ۔ جائزہ (SURVEY) کے بعد اُنہوں نے یہ رپورٹ پیش کی، چُونکہ مسلمان نَماز پڑھتے اور رَمَضانُ الْمبارَک میں اس کی زیادہ پابندی کرتے ہیں اسلئے وُضو کرنے سے E.N.T.یعنی ناک،کان ، اور گلے کے اَمراض میں کمی واقِع ہوجاتی ہے،نیز مسلمان روزے کے باعِث کم کھاتے ہیں لہٰذا مِعدے جگر ،دل اور اَعصاب (یعنی پَٹّھو ں) کے اَمراض میںکم مبتَلا ہوتے ہیں ۔ ''

خوب ڈٹ کر کھانے سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں
محترم قارئین کرام!!فِیْ نَفْسِہٖ روزہ سے کوئی بیمار نہیں ہوتا بلکہ سَحَری و اِفطاری میں بے اِحتیاطیوں اوربد پرہیزیوں کے سبب نِیزدونوں وَقت خوب مُرَغّن(یعنی تیل ،گھی والی ) غِذاؤں کے اِستِعمال اور رات بھر وقتاً فوقتاً کھاتے پیتے رہنے سے روزہ دار بیمار ہوجاتا ہے۔لہٰذا سَحَری اور اِفطاری کے وَقت کھانے پینے میں اِحتِیاط برتنی چاہئے۔ رات کے دَوران پیٹ میں غذا کا اتنا زیادہ بھی ذخیرہ نہ کرلیا جائے کہ دن بھر ڈَکاریں آتی رہیںاور روزے میںبُھوک و پیاس کا اِحساس ہی نہ رہے۔ کیونکہ اگر بُھوک وپیاس کا اِحساس ہی نہ رہا تو پھر روزے کا لُطف ہی کیا ہے؟روزہ کا تَو مزا ہی اِس بات میں ہے کہ سَخت گرمی ہو ، شدّتِ پیاس سے لَب سُوکھ گئے ہوں اور بُھوک سے خوب نِڈھال ہوچکے ہوں ۔ ایسے میں کاش!مدینہئ منوَّرہزادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی میٹھی میٹھی گرمی اور ٹھنڈی ٹھنڈی دُھوپ کی یاد تازہ ہو۔اور اے کاش! کربلا کے تپتے ہوئے صَحرا اور گُلستانِ نُبُوَّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مَہَکتے ہوئے نوشِگُفتہ پُھولوں، تین دن کی بُھوک اور پیاس سے تَڑپتے بِلکتے مدینے کے'' حقیقی مَدَنی مُنّوں '' اورشَہَنْشاہِ مدینہ ،سُرورِ قَلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھوکے پیاسے مظلوم شہزادوں کی یاد تڑپانے لگے ،اور جس وَقت بُھوک اورپیاس کچھ زیادہ ہی سَتائے اُس وَقت تسلیم ورِضا کے پیکر ، مدینے کے تاجور ،نبیوں کے سَروَر،مَحبوبِ داوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شِکَمِ اَطہرَ پر بندھے ہوئے بامُقَدَّر پتّھر بھی یا د آجائیں تو کیا کہنے! لہٰذمحترم قارئین کرام واقِعی روزے تَو ایسے ہونے چاہئیں کہ ہم اپنے آقاؤں اور سَرکاروں کی حَسِین یادوں میں گُم ہو جائیں ۔
کیسے آقاؤں کا ہوں بندہ رضاؔ
بول بالے مِری سرکاروں کے

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371029 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.