تحریر: محمد اصغر خان
آپ کو یہ عنوان بہت عجیب لگا ہو گا، کیوں کہ آپ نے جس معاشرے میں آنکھ
کھولی وہ مشرقی معاشرہ کہلاتا ہے اور پھر صرف مشرقی معاشرہ نہیں بلکہ کسی
قدر اسلام کے رنگ میں رنگا ہوا مشرقی معاشرہ۔ اور اس معاشرہ میں مہمان
نوازی یقیناً قابل مؤاخذہ جرم نہیں بلکہ انتہائی قابل تحسین صفت ہے۔ ہمارا
مذہب اسلام براہ راست جن لوگوں پر اترا وہ اسی صفت میں اسلام سے پہلے بھی
یکتائے روزگار تھے اور ان کے متعلق یہاں تک مشہور تھا کہ ان کا نادار اور
مفلس فرد بھی جس کے پورے خاندان کا گزر اوقات اپنے ملکیتی ایک اونٹ کی
کمائی پر منحصر ہوتا تھا جب وہ اپنے مہمان کو کھلانے کے لئے کچھ اور نہ
پاتا تو بلا تامل وہ اسی اونٹ کو ذبح کر کے اپنے مہمان کو کھلا دیتا پھر اس
کے نتیجے میں آنے والی مشکلات کو اپنی قومی روایات بچ جانے کے بدلے میں ہیچ
سمجھ کر سہہ لیتا پھر جب اسلام آیا تو اس نے اس قوم کے جذبہ مہمان نوازی کو
اور مہمیز دی اور حضور اقدس ö نے قولا و عملا اس عمل کی خوب ترغیب دی جس کی
وجہ سے مہمان نوازی اسلام اور مسلمانوں کا طغرائے امتیاز اور پہچان بن گئی۔
کتنے لوگ ہیں جن کو اسلام کی دولت ملی ہی اس راستے سے ہے۔ میں قرون اولی کی
بات نہیں کر رہا۔ آج کی بات کر رہا ہوں کہ مکہ مکرمہ اور منی ، مزدلفہ،
عرفات کو جدید ریلوے لائن کے ذریعے باہم مربوط کرنے کے کام پر متعین بیسیوں
چائنیز انجینئر گزشتہ دو تین سالوں کے دوران عرب مسلمانوں کے جذبہ ایثار و
مہمان نوازی سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں ان پرنہ تلوار
چلائی گئی نہ ان کے سامنے دعوت و تبلیغ والوں نے گھنٹوں بیانات کئے۔ وہ
سلیم الفطرت لوگ تھے اور صرف مسلمانوں کی انسانیت نوازی سے اس قدر متاثر
ہوئے کہ اپنا سابقہ مذہب چھوڑ کر دین فطرت سے منسلک ہو گئے۔ اس واقع سے
سخاوت اور مہمان نوازی کی صفت کی قدروقیمت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
عربوں کے بعد اس صفت حسنہ سے جس قوم نے وافر حصہ پایا ہے بلکہ یوں کہنا
چاہیے کہ بالکل عربوں کی طرح بلکہ بعض اوقات ان سے بھی بڑھ کر ’’ وہ آزاد
منش اور عظیم قوم ’’ قوم اٰفغاناں ‘‘ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ’’ پختون
برادری ‘‘ بھی کہتے ہیں اور زمانہ قبل از تاریخ سے کوہ ہندوکش کے کوہ ودمن
اور صحرا و وادیاں جس کا مسکن چلا آرہا ہے۔
کوہ ہندو کش کی فلک بوس برفانی چوٹیاں، ان سے نکلنے والے خوبصورت آبشار ،
جھرنے اور صاف و شفاف دریا اور ان کے دامن میں پھیلی ہوئی حسین و جمیل
وادیاں ہزاروں سال سے اس قوم کی دو عظیم صفات کی گواہ ہیں جن میں سے ایک
صفت ہے آزادی اور دوسری ہے مہمان نوازی. اور یہ کہ اس قوم کا کوئی فرد بھی
ان دو صفات میں سے کسی ایک کی قربانی دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا۔
تاریخ عالم ہمیں بتلاتی ہے کہ جب بھی کسی طالع آزما نے ان کی آزادی چھیننے
کے لئے طبع آزمائی کی تو یہ مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی، ماضی
میں سکندر اعظم سے لے کر برطانوی سفید سامراج اور روسی سرخ سامراج مہم جوئی
کر کے دیکھ چکے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادی فی الوقت دیکھ رہے ہیں جن
کی چیخیں ہیں کہ تھمنے کو نہیں آ رہی ہیں جبکہ دوسری طرف یہ قوم اپنے غاروں
اور حجروں سے نکل کر کئی مرتبہ اپنے دائیں بائیں دور دور تک فاتحانہ راج کر
چکی ہے۔ محمود غزنوی(رح)، شہاب الدین غوری ، (رح) جلال الدین خوارزم(رح) ،
احمد شاہ ابدالی(رح) کا نام تو آپ نے سنا ہو گا، عجم میں کسی اور نے بھی
ایسے بیٹے جنم دیے ہیں؟ اپنی مصروف زندگی میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر بطل
اسلام سلطان محمود غزنوی(رح) کی برما، بھوٹان سے لے کر ماسکو کی سرحدوں کی
چھوتی اور شمال میں ہمالیاتی چوٹیوں سے لے کر ایران کے سبزہ زاروں کو
روندتی ہوئی اسلامی قلمرو کا ایک مرتبہ مطالعہ فرما لیں پھر آپ کو اس قوم
کی تاریخ کا علم ہو جائے گا۔
جبکہ دوسری صفت مہمان نوازی کو بھی اس قوم نے ہمیشہ جنگی بنیادوں پر چیلنج
سمجھ کر سر انجام دیا ہے. تاریخ گواہ ہے اس روایت کو بچانے میں حکومتیں الٹ
گئیں، نظام بدل گئے، فقیر بادشاہ اور بادشاہ فقیر بن گئے مگر اسلامی اور
قومی روایت کو ان سے کوئی نہیں چھین سکا اور جس نے چھیننے کی کوشش کی وہ
خود مٹ گیا۔ ماضی کی داستانوں کو چھوڑیے کہ تازہ ذہن انہیں کچھ سمجھ ہی
نہیں پاتا. امیر المومنین حضرت ملا عمر مجاہد کی حالیہ قربانی کو تو ہماری
نسل نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا کہ کیسے اپنے ایک مہمان کی خاطر اپنی ذات
اور خاندان سے لے کر حکومت تک کی پرواہ کئے بغیر دیوانہ وار میدان میں آ
گئے اور پھر سب کچھ لٹ جانے پر بھی کبھی اپنے مہمان سے شکوہ تک نہ کیا۔
شاید میں بڑے لوگوں کی طرف نکل گیا ہوں۔ جب کہ آج میرا موضوع سخن تو اس قوم
کے عام افراد ہیں کہ ان میں سے ایک ایک فرد اپنی تاریخ کی ان عظیم روایات
کا کس قدر سچا امین اور علمبردار ہوتا ہے اور ان روایات کی پاسداری میں وہ
اپنی مختصر زندگی میں کن کن مشکل مراحل سے گزرتا ہے . آپ نے بھی بارہا
دیکھا ہو گا اور ہم بھی دیکھتے رہتے ہیں کہ یہ غریب لوگ صبح منہ اندھیرے
اٹھ کر رات کا اندھیرا چھا جانے تک موسم سرما کی سرد ہواؤں کے تھپیڑوں اور
موسم گرما کی لو سے بے نیاز ہو کر پورا دن کیسے پتھر توڑتے رہتے ہیں۔ یہ
مناظر دیکھ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور ایک مرتبہ میں نے ان عظیم لوگوں
کے پا س رک کر پوچھ ہی لیا کہ بھائی لوگو! اس قدر محنت کیوں؟ کیا ایسا نہیں
ہو سکتا کہ آدمی سادہ کھا لے اور سادہ رہ لے اور محنت کا بوجھ ہلکا رکھے
یعنی گوشت کی بجائے آلو سبزی اور عالیشان مکانات اور حویلیوں کی بجائے مٹی
کے سادہ گھر اختیار کرے. بظاہر سوال مضبوط اور لا جواب معلوم ہوتا ہے مگر
آگے سے جواب ایسا ملا کہ ادھر سے خاموشی چھا گئی۔ کہنے لگے ہم اپنے آرام
اور تعیش کے لئے اتنی محنت نہیں کرتے۔ ہم چائے کے پیالے سے دو سوکھی روٹیاں
کھا کر اور گھاس پھوس اور مٹی کے جھونپڑے میں گزارہ کرنے والے لوگ ہیں مگر
ہمارے دو دوسرے مسائل ہوتے ہیں جن کے حل کے لئے ہم لوگ اتنی محنت کرتے ہیں۔
پہلا مسئلہ ہے دشمن داری اور دوسرا ہے مہمان نوازی۔ ہماری یہ ساری محنت
انہی دو مسائل کا خرچہ پورا کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہے جن لوگوں کو ان سے واسطہ پڑا ہے وہ اس بات
کی سچائی کے خود گواہ ہیں کہ مہمان کی آسائش کے لئے بڑے بڑے عالیشان حجرے
تعمیر کرنے والے یہ لوگ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ کیسے دو کچے کمروں میں
گزارہ کر رہے ہوتے ہیں اور مہمانوں کو انواع و اقسام کے کھانے اور سجیاں
اور روسٹ کھلانے والے یہ لوگ صبح کے وقت چائے کے ساتھ خشک روٹی کھا کر
بیلچہ اور کدال اٹھا کر کیسے اپنے کاموں پر نکل جاتے ہیں اور اسی میں دلی
راحت اور خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان عادات پر ان کو فخر بھی ہے۔
پھر ان کی یہ مہمان نوازی کسی فرد یا تعلق کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جو
بھی گھر آ گیا وہ ان کا مہمان ہوتا ہے خواہ کہیں کا اور کوئی بھی ہو اور بے
شک اپنا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ گھر آئے ہوئے دشمن کی بھی مہمان نوازی کی جاتی
ہے ہاں دشمنی نکالنے کے اور بہتیرے مواقع ہوتے ہیں ان کا انتظار کیا جاتا
ہے۔
یہ ہے ان لوگوں کے ہاں مہمان نوازی کی حیثیت اور یہ ہیں ان کی قدیم روایات
مگر آہ! یہ کیسا دور آ گیا کہ مہمان نوازی کی اس صفت عظیمہ کے ہاتھوں یہ
پوری قوم مشکوک قرار دے دی گئی ہے کتنے لوگ اس مہمان نوازی کے جرم میں
وادیوں میں دھکیل دئیے گئے اور اس قوم کے کتنے پیرو جواں آج جیلوں میں اور
ٹارچر سیلوں کی موٹی دیواروں کے پیچھے سسک سسک کر زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
جرم کیا ہے؟ صرف یہ کہ فلاں کو کھانا کیوں کھلایا؟ فلاں کو پانی کیوں
پلایا؟ فلاں کو حجرے میں کیوں سلایا؟
آہ ! یہ اردو اور پنجابی، سندھی اور کشمیری نہ بولنے والے لوگ اپنی بے
زبانی کے ہاتھوں مجبور ظالموں کے آگے یہ وضاحت بھی نہیں کر پاتے کہ ’’ ہم
گھر میں آ جانے والے مہمانوں کو بلا امتیاز رنگ و نسل ومذہب و ملت کھانا
کھلایا کرتے ہیںاور روٹی کا ٹکڑا دینے کے لئے لمبے چوڑے تعارفی انٹرویوز کو
غیرت، سخاوت، مہمان نوازی اور اپنی عظیم روایات کے منافی سمجھتے ہیں اور یہ
فطرت ہمارے مردو زن اور پیرو جوان میں کچھ ایسی رچ بس چکی ہے کہ ہم اس کو
اپنے وجود سے الگ کر ہی نہیں سکتے، پھر بھلا فطرت کے ہاتھوں مجبور اس مہمان
نوازی کی وجہ سے ہم کیوں مشکوک اور قابل گردن زدنی ہیں ‘‘۔ بس ایک ظلم ہے
جو جاری و ساری ہے۔ اصل مطلوب لوگ ہتھے نہیں چڑھتے اور جو ہتھے چڑھ چکے ہیں
ان کا جرم مہمان نوازی کے علاوہ کچھ نہیں مگر کون ہے جو اس ظلم کے خلاف
بولے، زبان کھولے اور اسے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے، صحافی خاموش
ہیں، سیاستدانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، علمائ کرام خود اپنی بقائ کی جنگ
میں مصروف ہیں۔ حکمران ہوں یا عام سیاستدان، دانشور ہوں یا جرنیل کوئی یہ
سوچنے پر تیار نہیں کہ بے عقلی پرمبنی یہ آپریشن اور کارروائی کیا محبت کے
بیج بو رہی ہے یا نفرت کی پنیری اگا رہی ہے. کوئی چالیس سال پیچھے مڑ کر
پاکستان ٹوٹنے کی تاریخ پڑھنے اور اس سے درس عبرت سیکھنے کے لئے تیار نہیں
جہاں عوام کے خلاف سال بھر کے آپریشن کے بعد جب بیرونی حملہ ہوا تو ظلم میں
پسی عوام میں سے ایک فرد نے بھی ہمارا ساتھ نہ دیا اور حملہ آور کا نجات
دھندہ کے طور پر استقبال کیا تو ایک بار پھر ہم اپنے عوام کو ان بیرونی
حملہ آوروں کے استقبال کے لئے تیار کر رہے ہیں جو ہماری سرحدوں پر پہلے سے
منڈلا رہے ہیں اور عوام بھی وہ جو ہمارا بازوئے شمشیر زن تھی اور دفاعی
نکتہ نظر سے پوری پاکستانی قوم کو جس کی جلادت بہادری، اور قربانیوں پر بجا
طور پر فخر تھا. اگر نہیں تو پھر ہمارے آپریشن اتنے بے مہار کیوں ہیں؟
انمیں عقل کا عمل دخل کیوں نہیں ہے؟وہ اپنے اور غیروں میں فرق کیوں نہیں کر
رہے؟ ان کا اکثر حصہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے پر کیوں مشتمل ہوتا
ہے؟ ہم لوگوں سے ان کی روایات چھیننے کی سعی لا حاصل کی بجائے ان حسین
روایات کو اپنے حق میں کیوں استعمال نہیں کر رہے؟ آہ افسوس ہم میں اتنی بھی
عقل نہ رہی کہ جس کے گھر میں اچانک رات کے وقت کوئی آ کر کھانا کھا کر چلا
گیا۔ کیا اس کو تھوڑی زجر و توبیخ کرکے اس وعدے پر چھوڑ دینا اچھا ہے کہ
آئندہ ایسا نہیں کرنا یا اس کی اتنی درگت بنانا ضروری ہے کہ آج مجبورا
کھانا کھلانے والا شخص کل خود کش حملے کے علاوہ اپنی سلامتی ، بچاؤ اور
عزت کا کوئی راستہ نہ پائے۔
آخر میں ایک سادہ سی مثال تحریر کر دیتا ہوں جو میری آپ بیتی ہے شاید اس
مثال سے بات مزید واضح ہو جائے اور سمجھنے میں آسانی رہے. ہوا یوں کہ گزشتہ
دنوں ایک تلخ تجربہ سے گزرنے کے بعد جب ہم باہر نکلے تو میزبان نے آرام کے
لئے ایک ہوٹل میں بٹھایا، بندہ سخت گھٹن کا شکار تھا اس لئے کسی پرسکون جگہ
پر چلنے کی فرمائش کی۔ میزبان فرمائش پوری کرنے فوراً ہی ایک دوست کے حجرے
کی طرف چل دئیے، وہاں پہنچ کر دیکھا تو حجرہ بند ہے، دروازے پر دستک دی مگر
کسی کو نہ پایا، ہم لوٹنے ہی والے تھے کہ ہمارے عقب میں موجود دروازے کے
پیچھے سے نسوانی آواز آئی ’’ تہ سوقی ‘‘ آپ کون لوگ ہیں؟ ہمارے میزبان نے
گھر کے مالک کا نام لے کر کہا ’’ ہم اس کے مہمان ہیں اور حجرے میں آرام
کرنا چاہتے ہیں ‘‘ بس اتنی سی بات سننی تھی کی اس بہن جی نے دروازے کے نیچے
سے چابیوں کا گھچا باہر پھینک دیا ، ہم نے حجرہ کھولا، وضو کیا اور نماز
پڑھی اور آرام کرنے لگے تھے کہ حجرے کا دروازہ بجا، دیکھا باہر ٹھنڈا پانی
رکھ دیا گیا ہے، پھر چند منٹ ہی گذرے کہ گھر کے دروازے کے پردے کے نیچے
ڈرائی فروٹ کی ٹرے باہر دھکیل دی گئی اور دروازہ بجا کر اطلاع بھی کر دی
گئی ہم نے وہ بھی اٹھا لی اور کھانے لگے، بعد ازاں چائے کا دور بھی چلا.
پھر ہم پروگرام کے مطابق رات رہنے ایک دوسرے دوست کے ہاں چلے گئے۔
آپ نے اس واقعہ میں غور کیا،بظاہر اجنبی لوگ آئے ، دستک دی، اب گھر میں
کوئی مرد نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ خواتین میں پردے کی سخت پابندی ہے
لہذا جواب ظاہر تھا کہ آپ لوگ واپس ہو جائیں مگر ان لوگوں کے در سے مہمان
کو واپس نہیں کیا جاتا اس لئے بلا تعارف ٹھکانہ بھی مل گیا اور مہمان نوازی
بھی ہوگئی اور پردے کو بھی خوب اہتمام رہا۔ بندہ نے اس وقت ساتھیوں سے بھی
کہا اور اور آپ کو بھی دعوت دے رہا ہوں کہ اس چھوٹے سے واقعہ پر خوب
غوروفکر کریں اور پھر پوری سرحدی قوم کو اس پر قیاس کریں اور سمجھیں کہ یہ
چیز ان کے خون میں کس قدر رچی بسی ہوئی ہے کہ اس کے خلاف وہ سوچ بھی نہیں
سکتے اور ہزاروں سال سے وہ اسی فطرت پر قائم و دائم ہیں۔ اب اکیسیویں صدی
میں آ کر آپ ان کی یہ فطرت چھیننا چاہ رہے ہیں اور اس فطرت کی وجہ سے ان کی
وفاداری پر شک کر رہے ہیں اور لوگوں کو جرم مہمان نوازی میں اٹھا کر ٹارچر
سیلوں میں طرح طرح سے ذلیل و رسوا کر رہے ہیں تو یہ عمل آپ کو کس حد تک
منزل کے قریب کر رہا ہے اور کس قدر دور کر رہا ہے؟ کیا کبھی آپ نے اس پر
غور کیا؟. خدارا میری باتوں کو سمجھیں، ان پر غور کریں اور ان کو تنقید
برائے تنقید سمجھ کر نظر انداز نہ کریں اور اس وقت سے ڈریں اور بچیں
خدانخواستہ جب تمہاری بے جا چھیڑ خوانیوں کے عوض کوہ ہندو کش کے گلیشروں سے
امڈنے والا کوئی طوفان تمہیں بحر عرب کی موجوں میں غرق کر دے اور تمہارے
وجود کی یادگار کے طور پر زمین پر دو گز قبر بھی نہ ملے
زمین زیر و زبر ہونے کو ہے میرا کہا سن لو
کہ میں اس کے فشارِ زلزلہ پیما میں رہتا ہوں |