جوخط گیلانی اور راجہ تو نہ لکھ
سکے وہ خط صدرنے لکھ دیا...؟
جیساکہ پچھلے کئی سالوں سے ہماری ملکی سیاست میں خط کا عمل دخل بڑے زور شور
سے جاری ہے کہیں میموگیٹ کا تذکر ہ ہے توکہیں سوئس حکام کو خط لکھے جانے کے
عدلیہ کے آرڈر کی حکم عدولی کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے اور جانے کب تک
یہ میموگیٹ اور سوئس حکام کو خط لکھنے اور نہ لکھنے والی ہماری ملکی سیاست
چلتی رہے ..؟اِس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتاہے کہ آخریہ سلسلہ کب
اور کہاں جاکررکے گا...؟ اوریہی وہ خط ہے جِسے لکھنے کے لئے جب ہماری عدلیہ
نے ہمارے دو وزیراعظموں کو لاکھ کہاکہ وہ خط لکھیں،تواُنہوں نے عدلیہ کے
کہنے پر کسی ایسے خط کو لکھنے سے صاف انکار کردیا جس کے لکھے جانے سے اِن
کی پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے صدر کے مفادات کو نقصان پہنچے تو اِسی کو
بنیاد بناکر وہ اَب تک کوئی نہیں لکھ سکے ہیں اور اِس طرح عدالت کے واضح
احکامات کی حکم عدولی کرتے چلے جارہے ہیں اور اِسی بناپرآگے پیچھے آنے والے
ہماری دووزیراعظموں میں سے ایک تو پہلے ہی توہین عدالت کا مرتکب ہوا اور
اگر دوسرا بھی اِسی طرح اپنی ضدپر اڑارہااور اِس نے بھی عدالتی حکم پر سوئس
حکام کو آئندہ خط نہ لکھا تو عنقریب اِس کا بھی حشر ایساہی ہوگا جیساکہ
پہلے والے کا ہواتھا، یعنی پہلے والاتو صدرمملکت کی محبت میں ایساگرفتار
رہاکہ خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدلیہ کے قہروغضب کا شکارہوا،اور تیس سیکنڈ
جیسی معمولی سزا کے باعث اِس کی جگ ہنسائی ہوئی اوروہ اپنی کرنی کو
پہنچاگیاتو اِسی ہی کی طرح اِن دنوں ہمارادوسرا وزیراعظم بھی اپنی خط نہ
لکھنے والی ایسی ہی ضد پر قائم ہے اور اپنے انجام کوپہنچنے کو ہے،یکدم ایسے
ہی جیسے شمع کی محبت میں گرفتار پروانہ اِس کے عشق میںمبتلاہوکر اِس کی تپش
کے گرد چکرلگاتے ہوئے جل کر فناہوجاتاہے اور اِس طرح شمع سے اپنے عشق ومحبت
کی داستان رقم کرتاہوااپنی نسلیں بھی تباہ کردیتاہے اور ایساہی اِن
دِنوںہمارے ملک کے موجودہ صدر زرداری سے ایسی ہی عشق ومحبت کی ایک مثال
ہمارے وزیراعظم بھی پیش کررہے ہیں ۔
اگرچہ اِن دنوں عدلیہ کی حکم عدولی کرنے کے جس جرم کی پاداش میں ہمارا منصبِ
وزارتِ عظمی اپنے انجاموں کو پہنچ رہاہے اِن دنوںاِسی توہین عدالت کے زمرے
میں آنے والے آرٹیکلز کی تبدیلیوں کے لئے بھی پارلیمنٹ سے کئی ایسے بلوں کی
منظور یوںکا سلسلہ زوروں پر ہے جس کی وجہ سے عدلیہ اور حکومت کے درمیان
تناؤ کی سی کیفیت میں شدت آتی جاری ہے اَب اِس بابت آگے آگے دیکھئے ...ہوتاہے
گیا..؟مگر قوم کو یہ یقین ضرور رہے کہ عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ملک
اور قوم کے تابناک مستقبل کے لئے ہی ہوگا۔
بہرحال...!اِن دِنوں عزت مآب صدرمملکت جناب آصف علی زرداری کے لکھے گئے اُس
خط کا تذکرہ اہمیت اختیار کرتے ہوئے عام ہوچکاہے جو جنوبی ایشیاکے دوممالک
پاک بھارت کے علاوہ خطے کے اور دوسرے ممالک سمیت دنیاکے لئے بھی مثبت
تبدیلیوں کا باعث بننے گا کیوںکہ وہ خط ہی کچھ ایساہے کہ جِسے صدر آصف علی
زرداری نے اپنے ہاتھ سے خودلکھ کر دنیاکو حیران کردیاہے کہ اِن کا یہ خط
خطے میں قیام امن اور دوممالک (پاکستان اور بھارت )کے درمیان برسوں سے چلی
آنے والی رنجشوںاور کدورتوں کے خاتمے اور دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لئے
سوفیصدی سود مندثابت ہوگاجس کے بارے میں ترجمان ایوان صدر فرحت اللہ بابر
نے بھی ملکی اور عالمی میڈیا کو نویددیتے ہوئے کہا کہ صدرِمملکت عزت مآب
جناب آصف علی زرداری نے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے اور خطے میں قیام
امن اور دوملکوں پاکستان اور بھارت کے عوام میں قربت بڑھانے اور دوستی اور
محبت کے رشتوں کو مزید مضبوط کرنے سمیت بھارت کے ساتھ تعلقات کو اعتدال کی
اُوج تک لے جانے کے خاطر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو دورہ پاکستان کی
باقاعدہ دعوت دے دی ہے اور جس کی دوٹوک الفاظ میں تصدیق کرتے ہوئے اُنہوں
نے پاکستانیوں اور بھارتیوں سمیت ساری دنیاکوبھی اِس بات کا یقین دِلادیاہے
کہ صدرزرداری کے اِس خط کے نتیجے میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کا دورہ
پاکستان ہر لحاظ سے منفرد اور پاک بھارت جیسے دنیاکی دوایٹمی طاقت والے
ممالک کو برسوں سے درپیش مسائل کے حل کے لئے بھی عملی طور پر دیرپااور
پائیدار ثابت ہوگاتووہیںدونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے اور
عوام میں دوستی کے انمٹ جذبوں کوپروان چڑھانے میں بھی سنگ میل ثابت ہوگااور
اِسی طرح جہاں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کا یہ دورہ پاکستان دوملکوں کے
درمیان تعلقات کو استحکام بخشنے کے لئے مفیدثابت ہوگاتو وہیں مسئلہ کشمیرکے
حل میں مدددینے کے لئے بھی کئی پیش رفتوں کے دریچے کھول دے گا اور اِسی طرح
جب آئندہ برسوں میں افغانستان سے امریکااور نیٹوافواج کا انخلاہوگاتویہاں
بھی قیا م امن کے لئے دونوں ممالک کے لئے نئی راہیںمتعین کرے گا ۔
اگرچہ یہاں یہ حقیقت ہے کہ صدرزرداری نے اپنے دورِ حکومت میں اپنی عوام کے
لئے تو ایساکوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہیں دیاہے کہ جس پر عوام اِن کی
کارکردگی سے مطمئن ہوتے اور اِن کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہاں..سوائے
اِس کے کہ جب اِنہوں نے رواں سال اپنا بھارتی نجی دورہ کیاتو اُنہوں نے اِس
دوران پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی ایک ایسی بنیاد رکھ دی کہ جس سے پا ک
بھارت تعلقا ت کی بحالی اور مضبوطی کی ابتداءہوگئی اور اِس کے بعد ہی
اُنہوں نے وطن واپس آتے ہیں ایک اعلان میںجس طرح بھارت کو خطے کا پسندیدہ
ملک قرار دے کر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا جو اِس بات ثبوت ہے کہ صدر
زرداری اور اِن کی حکومت بھارت سے تعلقات کی بحالی کے لئے کس حد تک چلے گئے
ہیں کہ جہاں پہنچ کر پاکستان کے بھارت کے ساتھ نیک جذبات اور خلوص میں شک
کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاہے کہ کو ئی پاکستان کے اُن جذبات پر شک یا
مخمصے میں مبتلاہوسکے جو پاکستان بھارت کے لئے رکھتاہے ۔
یہاں یہ امر قابل تسکین ہے کہ صدرزرداری نے خطے میں قیام امن اور بھارت کے
ساتھ اپنے دیرپااور پائیدار بنیادوں پر تعلقات کی بحالی کے لئے پہلے خود
بھارت کا اپنانجی دورہ کیااور پھر پاک بھارت تعلقات میں مزیدبہتری لانے کے
لئے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو بھی پاکستان کے دورے پر آنے کے لئے خط
لکھ دیااَب دیکھنایہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ جب پاکستان کے دورے
پر آئیں گے اور جب یہ اپنے آبائی گاؤں کا دورہ کریں گے تو یہ اِس دوران پاک
بھارت تعلقات کے حوالوں اور مسئلہ کشمیر کے حل سمیت خطے میںقیام امن اور
دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے کس قسم کے مثبت
اور تعمیری خیالات کا اظہارکرتے ہیں ..جس سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے
کے قریب آئیں اوربرسوں سے جاری پاک بھارت کشیدگی میں نہ صرف کمی واقع
ہوبلکہ اِن کے اِس دورہ پاکستان سے پاکستان اور بھارت میں ہر سطح پر پائی
جانے والی ہر قسم کی رنجش اور کدورت کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ |