میاں نواز شریف کو غور کرنا چاہئے

پاکستان وہ بدقسمت ریاست ہے جسے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی ڈھنگ کا اور محب وطن لیڈر میسر نہ آسکا۔ نااہل، ظالم، بدقماش اور لالچی سیاستدان ہوں یا فوجی، سب نے جی بھر کر اس ملک اور عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ شروع سے ہی ایک ایسا نظام رائج کیا گیا جس میں غریب آدمی کو سیاست یا انتخاب سے ہمیشہ دور دور رکھا گیا، اول تو آج تک کبھی غیرجانبدارانہ اور شفاف الیکشن محض ایک خواب اور نعرہ ہیں لیکن جب الیکشن ہوئے بھی تو عوام کو کم برے اور زیادہ برے میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور کردیا گیا۔ایک طرف چور، دوسری طرف ڈاکو اور ان سب سے آگے قاتل اور ملک لوٹنے والے، انہی میں سے انتخاب کیا جاتا رہا اور آج تک ہورہا ہے۔ عام آدمی سیاست اور دوسرے قومی معاملات سے یوں باہر ہے جیسے اس کا اس ملک اور اس کے معاملات کے ساتھ سرے سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔عام آدمی کو اس کے روز مرہ معاملات میں ایسے الجھا دیا گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے معاملے میں سوچنے کےلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ پاکستان میں موجودہ نظام زنگ آلود ہوچکا ہے اور اس وقت تک کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک چہروں کی بجائے نظام کی اوورہالنگ نہ کی جائے۔ عدلیہ نے بھی ہمیشہ سے اسی حکومتوں کے ظلم اور فوجی حکومتوں کی آمریت کا ساتھ دیا ہے۔ 9 مارچ 2007 سے پہلے کی عدلیہ ہمیشہ خصوصی طور پر آمریت کی باندی بنی رہتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک عادل کو ہمت اور طاقت بخشی کہ وہ ظالم اور بدمعاش حاکم وقت کے سامنے سینہ سپر ہوگیا۔ 9 مارچ 2007 سے پہلے بھی بہت سےPCO سے آچکے تھے لیکن چونکہ عدلیہ نے بحیثیت عدلیہ کسی جرات اور ہمت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اس لئے وکلاء اور قوم نے بھی آواز بلند نہ کی، لیکن اس بار چونکہ چیف جسٹس نے خود علم بغاوت بلند کیا، چنانچہ پاکستان کے وکلاء نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جس کی مثال اس سے پہلے پوری دنیا میں موجود نہیں۔ اسی تحریک کی بدولت جلاوطن قیادت کو پاکستان میں آنا نصیب ہوا، اسی تحریک کی بدولت ماضی کی دشمن سے اسی قوتوں میں بھائی چارے کی فضاء پیدا ہوئی، اسی تحریک کی بدولت موجودہ حکومت کا قیام ممکن ہوا اور اسی تحریک کی بدولت مشرف کے نو سالہ ظلم اور بربریت پر مبنی اقتدار کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مشرف کو نشان عبرت بنا دیا جاتا، اسے اس طرح اعزاز واکرام سے نہ نوازا جاتا اور نہ ہی اسے اجازت ہوتی کہ وہ پوری دنیا میں یوں دندناتا پھرے، تاکہ مستقبل میں کسی بھی آمر اور طالع آزما کو دوبارہ ایسی جرات نہ ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مری معاہدہ اور اس کے بعد ہونے والے وعدوں کو سیاسی بیان کہہ کر نہ جھٹلایا جاتا بلکہ ان پر عملدرآمد کیا جاتا اور جس وقت قید ججز کو آزاد کیا گیا تھا اسی وقت بحال کر دیا جاتا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پوری قوم کی آواز کو سابقہ لانگ مارچ کے وقت ہی سن لیتی، محسوس کرلیتی تاکہ دیگر مسائل کی طرف بھی کوئی توجہ دی جاسکتی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم لیگ نواز اپنے امیدواروں سے لئے گئے حلف کی خود بھی پاسداری کرتی اور صرف پنجاب حکومت بچانے اور نا اہل ہونے سے بچنے کے لئے ایک اور ڈیل نہ کرتی۔ ہونا تو بہت کچھ چاہئے تھا لیکن وہ کچھ نہیں ہورہا جو ہونا تھا اور جس کے وعدے تھے، اور وہ کچھ زور و شور سے کیا جارہا ہے جو قطعاً نہیں ہونا چاہئے تھا۔

اس وقت وکلاء تحریک دوبارہ اپنے عروج پر ہے، وکلاء کا جوش و خروش دیدنی ہے۔ وہ اس تحریک کو جلد از جلد اس کے منطقی انجام پر پہنچانے کی کوشش اور کاوش کررہے ہیں، جس طرح اس سے قبل پرویز مشرف کی حامی قوتوں نے الیکشن میں منہ کی کھائی، جس طرح مشرف کی پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے زرداری کا گراف زمین پر آگیا ہے اور نہ صرف زرداری کا بلکہ پیپلز پارٹی کا بھی۔ جس طرح ق لیگ کا حشر ہوا، اب قوم نے سوچ لیا ہے کہ جو اس تحریک کے ساتھ غداری کرے گا، قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دے گا، اس کا حشر یقیناً مشرف اور اس کے حواریوں سے بھی زیادہ خراب ہوگا۔ مسلم لیگ نواز کو بھی یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ وکلاء اور سول سوسائٹی نے تحریک اس لئے شروع نہیں کی تھی کہ حکومتوں کی بندر بانٹ کرلی جائے اور عدلیہ کا مسئلہ جوں کا توں چھوڑ دیا جائے، وکلاء اور عوام نے قربانیاں اس لئے نہیں دیں تھیں کہ ان کے ثمرات کچھ خاندانوں کو مل جائیں بلکہ انہوں نے اس لئے تحریک چلائی، قربانیاں دیں کہ اس ملک کے عوام کی حالت سدھر جائے، اس ملک کا بیڑہ غرق ہونے سے بچ جائے، اس ملک کے بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صفیں سیدھی کرلی جائیں، ایک صف میں اس ملک کے عوام ہیں جو اس ملک اور قوم کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اور مخالف صف میں وہ استعماری قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں جو اسی نظام کا تسلسل چاہتے ہیں۔ افتخار چودھری ایک شخص کا نام نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا استعارہ ہے، میاں نواز شریف کو بھی سوچنا چاہئے، اگر وکلاء نے انہیں اعتماد میں نہیں بھی لیا تو وہ خود وکلاء سے رابطہ کرلیں، اگر وہ دل سے عدلیہ کی بحالی چاہتے ہیں، اگر وہ واقعتاً اس ملک کے لئے قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں تو لانگ مارچ ہی نہیں دھرنے میں بھی بھرپور شمولیت اختیار کریں، وکلاء تو ان کے بغیر بھی تیار ہیں اور سر پر کفن باندھ چکے ہیں، حقیقتاً اس وقت وکلاء کو میاں صاحب کی ضرورت نہیں بلکہ میاں صاحب کو ان کی ضرورت ہے، وکلاء نے تو اتنے عرصے سے تحریک چلا کر اپنا حق ادا کردیا ہے، اصل میں اب محب وطن سے اسی قوتوں پر قرض ہے۔ پنجاب کیا پورے ملک کی حکومت بھی مل سکتی ہے، حکومت تو ویسے بھی آنی جانی چیز ہے، اگر عدلیہ بحال ہوگئی ، اگر عدلیہ آزاد ہوگئی، اگر عوام کو انصاف ملنا شروع ہوگیا، اگر اس ملک کے سارے بچوں کے لئے یکساں قوانین ہوں گے تو ملک بچے گا، یہ ملک بچ گیا تو حکومت دوبارہ بھی مل سکتی ہے، اگر خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا، سب کو اور خصوصاً میاں نواز شریف کو غور کرنا چاہئے۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222581 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.