امریکی ڈرون مسلسل پاکستانی حدود
میں میزائل برسائے جارہے ہیں، اب تک ان میزائل حملوں سے بلامبالغہ سینکڑوں
معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں لیکن ہماری حکومت نے دو
مرتبہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کرنے پر اکتفا کیا ہوا ہے۔
کچھ عرصہ قبل یہ رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کہ امریکی افواج کا اصل ہدف یہود،
ہنود اور امریکہ سمیت مغرب کے دل میں کھٹکتا ہوا پاکستان کا ایٹم بم ہے اور
امریکی افواج کہوٹہ تک ہر صورت میں پہنچنا چاہتی ہیں تاکہ ”اسلامی بم“ کا (خاکم
بدہن) خاتمہ کیا جاسکے اور دنیا (اسرائیل) کو ”امن“ کی نوید سنائی جاسکے
حالانکہ پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست دشمنی نہیں ہے لیکن پاکستان
کا ایٹم بم پھر بھی انہیں بہرحال بہت تکلیف دیتا ہے۔ اسی سلسلہ میں امریکی
اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبر دل ہلا دینے والی ہے اور اس خبر کی
اشاعت نے پوری دنیا میں موجود محب وطن پاکستانیوں کو شدید اذیت میں مبتلا کر
رکھا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں ایک خاموش معاہدہ ہے
کہ امریکہ پاکستانی علاقوں میں بمباری کرتا رہے گا اور حکومت پاکستان ”بظاہر“
شدید احتجاج کرتی رہے گی لیکن اس سلسلہ میں پاکستان کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش
ہرگز نہیں ہوگی۔ خبر میں یہ بات بھی نمایاں ہے کہ مشرف حکومت نے بھی امریکہ سے
بہت تعاون کیا تھا لیکن جو تعاون اور سہولیات موجودہ حکومت فراہم کررہی ہے وہ
مشرف حکومت سے زیادہ ہیں۔ مشرف دور میں تو حملے صرف قبائلی علاقوں میں تھے اور
اب وہ بنوں تک پہنچ چکے ہیں جو متذکرہ بالا رپورٹس اور خبروں کی صداقت کو تقویت
دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں مشترکہ قرار داد کی منظوری کے اگلے روز ہی امریکہ نے پاکستانی
علاقے پر ایک بڑا حملہ کرکے اس بات کا پیغام دیا تھا کہ پاکستانی حکومت اور
پارلیمنٹ اپنی ”حدود“ سے تجاوز کررہی ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد مسلسل
حملے اور اب بنوں پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے اور امریکہ نے پاکستان کے ”خود
مختار“ ہونے کے دعوے کی یکسر نفی کردی ہے جبکہ ہمارے وزیر دفاع احمد مختار، صدر
زرداری اور وزیر اعظم گیلانی اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ہم امریکی حملے
روکنے کی استعداد نہیں رکھتے، کیا کمال کی حکومت ہے اور کیا خوبصورت بیانات ہیں،
اگر کوئی کسی جگہ کمزور بھی ہو تو کیا وہ بیچ چوراہے کے اس کا اقرار کرتا ہے؟
ایسا ہو تو طاقتور، کمزو کو پاﺅں کے نیچے روندنے میں کسی قسم کا کوئی عار نہیں
سمجھتا۔ حکومت کو اگر اپنی عزت کی پرواہ نہیں بھی (کیونکہ انہوں نے امریکہ کو
ان داتا بنا رکھا ہے) تو پاکستانی قوم کی عزت کی ہی لاج رکھ لیتے۔ لیکن وہ تو
حکومت میں آئے ہی ”اور“ کام کرنے کے لئے ہیں، پاکستان کی ”آزادی“اور
”خودمختاری“ تو ان کے ایجنڈے پر دور ور تک نظر ہی نہیں آتی۔ ایسے حالات میں کیا
ہم امریکی عزائم کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں؟ اگر امریکہ نے (خدانخواستہ)
کہوٹہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی (جو بظاہر اب نظر آرہی ہے) تو کیا حکومت پاکستان
پھر یہی راگ الاپے گی کہ ہمارے پاس امریکی مےزائل حملہ روکنے کی استعداد ہی
موجود نہیں....! یہ جو ہم ہر سال اربوں روپیہ جنگی ساز و سامان خریدنے پر لگاتے
ہیں، جو لاکھوں کی تعداد میں فوج ہے، میزائل سسٹم، جنگی طیارے....وغیرہ وغیرہ،
یہ کیا کسی نمائش میں رکھنے کےلئے حاصل کئے ہوئے ہیں؟ کیا حکومت کو اس وقت ہوش
آئے گا جب پانی سر سے گزر چکا ہوگا اور ہمارا سب کچھ لٹ چکا ہوگا؟ کیا حکومت
امریکی غلامی کا طوق سر سے اتارنے کا کبھی بھی نہیں سوچے گی؟ آخری حد کیا ہوگی؟
آخر کچھ پتہ تو چلے....! حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی
حفاظت کے بارے میں سوچنا پڑے گا، اور صرف حکومت کو ہی نہیں، تمام سیاسی جماعتوں،
سیاسی لیڈران چاہے اسمبلی میں ہوں یا باہر اور عوام کو بھی
اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں، خصوصاً ان کے لیڈروں میں اتحاد اور اتفاق کی
سب سے بڑھ کر ضرورت ہے، اگر اس وقت بھی پوائنٹ سکورنگ ہوتی رہی، کھینچا تانی کا
دور واپس آگیا، چھانگا مانگا ،مری اور سوات کی سیاست کا وقت لوٹ آیا، ذاتی
مفادات، قومی مفادات پر بھاری پڑ گئے، مخالفین کی ذات پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا
تو پاکستان کی حفاظت کون کرے گا؟ اس فوج کی باقیات جس نے ہمیشہ اپنے وطن کو فتح
کیا؟ نہیں ہم یہ کام صرف حکومت اور فوج پر نہیں چھوڑ سکتے، اب وقت آگیا ہے کہ
پاکستان کی حفاظت کا کام بھی عوام اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائیں، عوام کا حق
بھی ہے اور فرض بھی کہ اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے یہ سوال کریں کہ وہ ملک کی
حفاظت، آزادی اور خود مختاری کےلئے کیا کام کررہے ہیں؟ تمام سیاسی جماعتوں کو
اب اس مقصد کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا۔ اور دوسری بات یہ کہ
امریکہ کو یہ باور کروا دینا چاہئے کہ جو ایٹم بم ہم نے اپنی حفاظت کےلئے بنایا
تھا، ہم اس کی حفاظت کےلئے مزید بلیک میل نہیں ہوں گے۔ ہم ہر وہ اقدام کریں گے
جو اپنے ملک اور اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہوا....! اور اگر امریکہ
اپنے عوام کی (نام نہاد) حفاظت کے لئے ہزاروں میل دور آسکتا ہے تو کیا ہم
افغانستان سمیت قرب جوار میں موجود اس کے اڈوں تک نہیں پہنچ سکتے؟ |