موجودہ سپریم کورٹ کے مسلمہ حریف
، آئین و قانون کی من مانی تشریح کرنے والے نیب زدہ اٹارنی جنرل عرفان قادر
نے فرمایا ہے کہ پارلیمنٹ ہمہ مقتدر اور مختارِ کُل ہے اسے آئین میں کسی
بھی قسم کی ترمیم کامکمل اختیار ہے حتیٰ کہ اگر وہ چاہے تو نظامِ عدل کو
ختم بھی کر سکتی ہے ۔یہ عرفان قادر کی مہربانی ہے کہ وہ یہیں تک محدود رہے
، اگر وہ کہہ دیتے کہ پارلیمنٹ ملک بیچ کر پیسے کھرے بھی کر سکتی ہے تو
کوئی اُن کا کیا بگاڑ لیتا ؟۔عرفان قادر کو ٹارنی جنرل ہونا تودورِ آمریت
میںچاہیے تھا لیکن پیپلز پارٹی بھی کسی سے کم نہیں۔اس کے موجودہ دور میں تو
آمریت بھی شرم سے مُنہ چھپاتی پھرتی ہے ۔ویسے تو اِس کا ہر دور ہی اپنی
نظیر آپ ہے ۔ایک ”شہید “نے کرسی کے عشق میں آدھے ملک کا سودا کر ڈالا ، بی
بی شہید نے نہ صرف ایٹمی پروگرام ”کیپ“ کرنے تک کا عندیہ دے ڈالا بلکہ
بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہوئے جہادِ کشمیر میں سرگرم مجاہدین کی
فہرستیں تک بصد عجز و نیاز بھارت کے حوالے کر دیں ۔وہ تو اللہ بھلا کرے
جرنیلوں کا جنہوں نے انہیں چلتا کیا وگرنہ ہمارا ایٹمی پروگرام خواب و خیال
بن کے رہ جاتا اور ہم ہر روز ناشتے میں نہایت سعادت مندی سے بھارت سے جوتے
کھانا عین عبادت سمجھتے ۔
اسی ”ملک مکاؤ“ پروگرام کی تکمیل کی خاطر اب محترم” آصف بھٹو زرداری“
میدانِ عمل میں ہیں لیکن طریقہ واردات ذرا مختلف ۔پاکستان کے سارے بزرجمہر
، افلاطون اور ارسطو سر جوڑ کر اِس ”طریقہ واردات“ کو سمجھنے کی سر توڑ
کوشش کرتے رہے اور کر رہے ہیں لیکن ہمیشہ مُنہ کی کھاتے رہے اور کھا رہے
ہیں ۔ پُرانے ”پپلیئے“ بھی اس طریقہ واردات سے نا بلد ہیں البتہ جب کبھی
اُن سے قوم کی کسمپرسی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو اُن کا ہمیشہ ایک
ہی جواب ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا ادراک ہے اور ہم اس تکلیف کے لئے معذرت خواہ
ہیں ۔
جنابِ زرداری کے سابقہ دوست اور تا حال (تھوڑے تھوڑے) ہمدرد میاں نواز شریف
صاحب نے اپنے ”یار“ کی اداؤں کا تھوڑ ا تھوڑا ادراک کرتے ہوئے حفظِ ما تقدم
کے طور پر اپنے دونوں بیٹوں ، حسن اور حسین نواز کو انگلینڈ اور سعودی عرب
میں ”سیٹل“ کرکے اپنا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں دے دیا ہے ۔یہ تو میاں صاحب
کی اس ملک و قوم پر خصوصی عنایت ہے کہ وہ کبھی کبھار پاکستان بھی تشریف لے
آتے ہیں البتہ ”قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“ جیسے بیکار نعروں
پر ہر گز کان نہیں دھرتے اور دھرنا بھی نہیں چاہیے کہ مومن ایک سوراخ سے دو
بار ڈسا نہیں جاتا ۔اُنہوں نے تو بہت پہلے ہی صحافیوں سے گُفتگو کرتے ہوئے
کہہ دیا تھا کہ” لوگ کہتے تھے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں
لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو سبھی بھاگ گئے۔ “ قوم میاں صاحب کے اس تھوڑا
کہے کو بہت سمجھے اور ان کے پاکستان میںکبھی کبھار ”پڑاؤ“ کو غنیمت جانے
اور اُن کے بار بار پاکستان آنے کی تکلیف پر معذرت خواہ ہو۔میاں شہباز شریف
صاحب کا معاملہ البتہ مختلف ہے ۔وہ تا حال ڈٹے ہوئے ہیں ۔ایک دفعہ کسی نے
ایک جیالے سے پوچھا کہ ضیاءالحق مُلک کی کب جان چھوڑے گا ؟۔تو جیالے نے جَل
کر جواب دیا ”یہ آمر پورا قُرآن مجید سُنائے بغیر پیچھا چھوڑنے والا نہیں
اور ابھی توپہلا پارہ بھی ختم نہیں ہوا۔“ بعینہ اُمیدِ واثق ہے کہ لاہور کو
پیرس اور استنبول کا ملغوبہ بنائے بغیر خادمِ اعلیٰ بھی چین سے بیٹھنے والے
نہیں ۔اُنہوں نے جب سے لاہور کی ”جڑہیں“ کھودنا شروع کی ہیں ہم نے باہر
نکلنا ترک کر دیا ہے کیونکہ ہمیں اس کا تلخ تجربہ ہو چُکا ہے ۔ہوا یوں کہ
ایک عزیز کی شادی پر جانے کے لئے ہم خواتین کی مسلمہ عادت کے مطابق گھر سے
دو گھنٹے لیٹ نکلے ۔باہر نکلے تو یوں محسوس ہوا جیسے ”موئنجوداڑو “میں
آثارِ قدیمہ کی تلاش میں کھدائی جاری ہو ۔ہر بڑی سڑک پر خندقیں کھُدی ہوئیں
اور ”تکلیف کے لئے معذرت خواہ“ کے بورڈ مُنہ چڑاتے ہوئے ۔گلیوں میں گھومتے
، خوار ہوتے چھ کلو میٹر کا سفر سولہ کلومیٹر میں طے کر کے جب متعلقہ جگہ
پر پہنچے تو محفل اُجڑ چُکی تھی اور دُلہا دُلہن کو لے کر ”پھُر“ ہو چُکا
تھا ۔جی چاہا کہ باہر نکل کر زور زور سے چلاؤں کہ ہمیں ایسی امریکی نُما
”معذرت“ قبول نہیں لیکن پھر یہ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے کہ
حکمرانوں نے ایسی ہی معذرت پر امریکہ کا کیا بگاڑ لیا تھا جو ہم بگاڑ پائیں
گے؟ ۔اگر ہماری زندگی میں لاہور پیرس بن گیا تو ایک دفعہ ”پاکستانی پیرس“
کا نظارہ کرنے ضرور جائیں گے ۔فی لحال باہر نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں
کیونکہ مومن ہم بھی ہیں ۔
اُدھرپاکستانی سیاست کے نو وارد جنابِ عمران خاں صاحب بھی آج کل زیادہ تر
لندن کی ٹھنڈی ٹھنڈی فضاؤں میں گھومتے نظر آتے ہیں لیکن ”جیسا دیس ، ویسا
بھیس “ کے مصداق وہاں وہ قیمتی سوٹ میں نظر آتے ہیں ۔ہم اپنے اس نو خیز
سیاست دان کو شدید گرمی ،حبس اور لوڈ شیڈنگ کی نذر نہیں کرنا چاہتے اس لئے
خوش ہیں کہ وہ لندن میں مقیم اپنے وارثوں کا بہانہ بنا کر جلدی جلدی لندن
یاترا کرتے رہتے ہیں اور سونامی بھی محوِ استراحت ہے ۔ویسے بھی یہ کوئی
جلسے جلوسوں کا موسم تھوڑا ہی ہے جو ہم خوامخواہ محترم نذیر ناجی صاحب کے
”سونامی خاں“ کو تکلیف دیتے پھریں ۔تحریکِ انصاف کے اکابرین یقیناََ
نوجوانوں سے معذرت خواہ ہونگے کہ اُنہیں ایک دو ماہ تک کسی ”میوزیکل کنسرٹ“
سے مستفید ہونے کا موقع نہیں مل سکے گا ۔
یہ ساری معذرتیں ایک طرف لیکن مقامِ عبرت تو یہ ہے کہ آج کل پرنٹ ہو یا
الیکٹرانک میڈیا ، سبھی کا رویہ معذرت خواہانہ ہوتا جا رہا ہے ۔ہم تو عرض
کرتے ہی رہتے تھے کہ
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل
دُنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
لیکن ہم عامیوں کی کون سُنتا ہے؟۔صحافی برادری نے ”مشرفی آزادی“ کا نہ صرف
بھرپور فائدہ اٹھایابلکہ ”بھوکے جٹ کٹورا لبیا ، پانی پی پی آپھریا“ کے
مصداق اپنی جائے سے اتنا باہر نکل گئے کہ عدلیہ ، انتظامیہ اور مقننہ تینوں
کی اصلاح کے ٹھیکیدار بن کر اپنی توندیں بڑی کرتے ہوئے اتنا اودھم مچایا کہ
الحفیظ و الآماں ۔امریکی سفیر کیمرو ن منٹر سے حامد میر نے سوال کیا کہ
پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت کون سی ہے تو اس نے مُسکرا کر
کہا”حامدمیر“۔(میں دبنگ حامد میر صاحب کا بہت زیادہ احترام کرتی ہوں ۔یہاں
کیمرون منٹر کا حوالہ یہ بتلانے کے لئے دیا ہے کہ عالمی رائے عامہ ہمارے
اہلِ صحافت کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے )۔لیکن آخر کار ” آپ اپنے دام
میں صیاد آ گیا “ اور اب حالت یہ ہے کہ ساری توپوں کا رُخ میڈیا کی طرف ہو
گیا ہے ا ور کوئی مانے نہ مانے سچ تو یہ ہے کہ وہ لکھاری ، دانشور اور
اینکر پرسنز جن کا کہا اور لکھا قوم حرفِ آخر سمجھتی تھی آج اپنی وہ حیثیت
کھوتے چلے جا رہے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
اور حرفِ آخر یہ کہ ان ”معذرتوں “ کی بوچھاڑ میں پتہ نہیں یہ قوم کب ہاتھ
باندھ کر ان سبھوں سے معذرت کرتے ہوئے اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کے لئے اُٹھ
کھڑی ہو گی۔ |