پاک افغان جنگ کے دو راھائے پر

24دسمبر1979کو40thآرمی سویت قیادت لیونڈ برژنیفLeonid Brezhnevکے حکم پر افغانستان کے سر زمیں پر قدم رکھنے کے نو سال ایک ماہ ، تین ہفتے اور ایک دن بعد میخائیل گورباچوف Mikhail Gorbachev کی قیادت میں 15فروری 1989کو پسپا ہوکر واپس جا رہی تھی ۔ اتنی طویل جنگ کے بعد 34لاکھ افغان عوام کی قربانیوں کےساتھ ساتھ پاکستان میں لاکھوں مہاجرین بھی آباد ہوچکے تھے جنھوں نے پناہ کےلئے قانونی اور غیر قانونی طریقہ کار اختیار کرکے پاکستانی شہریت حاصل کرنے سے اب سرد جنگ کے بعد گرم پانی کی حصول میں پاکستان اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات کا بھی شکار ہوچکا تھا۔27اپریل 1978ڈیموکریٹک ری پبلک آف افغانستان کی حکومت نے سرخ انقلاب کے قیام کے وقت سوےت یونین کے ساتھ اچھے سماجی تعلقات کے آغاز کے لئے ایک معائدے پر دستخط کئے لیکن امریکہ نے03جولائی 1979کو ایک خفیہ معائدے کے تحت سوویت نواز حکومت کے مخالفین کو خفیہ مالی امداد کی پہلی ہدایت پر دستخط سے دنیا کے دو بڑی طاقتوں کی جنگ افغانستان میں لڑی جانے لگی اور اس جنگ کو جہاد کا نام دیکر مسلم عرب ممالک کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو جنگ میں اس طرح جھونک دیا کہ پاکستان فرنٹ مین بن کر اپنے آنے والے مستقبل سے چشم پوشی کرتے ہوئے براہ راسست جنگ میں ملوث ہوگیا جس سے تمام دنیا میں پاکستان کا امیج جہاد کی ترغیب دینے والے ایٹمی اسلامی بم رکھنے والے مملکت کے حوالے سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا چونکہ امریکی مفاداتی جنگ پاکستان کی سپلائی لائن اور جذبہ ایمانی سے سرشار سادہ لوح مسلمانوں پر مشتمل تھی اس لئے امریکہ اور افغانستان بادل نخواستہ پاکستان کی ہر پالیسی کو قبول اس لئے بھی کرتا گیا کیونکہ پاکستانی حکمرانوں کو ڈکٹیشن بھی وہی سے ملتی تھی جہاں سے ڈالر ملتے رہے اور اس کا کوئی حسا ب کتاب نہیں رکھا گیا ۔ سوویت افواج کی پسپائی کے بعدتمام جہاد ی تنظیموں کی خانہ جنگی نے جس قدر نقصان افغان عوام کو پہنچایا اتنا نقصان انھیں کسی بھی افغان وار میں نہیں ہوا۔نائن الیون کے واقعے کے بعد ایک بار پھر پاکستان کی غلط خارجہ پالیسی کی باعث سرزمیں پاک افغان دہشت گردی کا نشانہ بنتی چلی گئی ۔2011کی اقوام متحدہ کی روپوٹ کے مطابق بے گناہ شہریوں کی اموات میں گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل اضافہ ہوتا آیا ہے اور صرف ایک سال میں بے گناہ ہلاک ہونے شہریوں کے تعداد 3021کے قریب بتائی گئی جو کسی ایک سال کے مقابلے میں شہریوں کی اموات میں سب سے زیادہ شرح ہے۔افغان صدر نیٹو فضائی حملوں پر شدید تنقید کے ساتھ پاکستانی حکومت کی بھی کھلی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں اور متعدد بار پاکستانی در اندازوں کی جانب سے حملوں پر ان کا احتجاج قابل غور ہے۔ نیٹو اپنی ایک لاکھ تیس ہزار فوجی کے ساتھ افغانستان میں تعینات ہیں اور 2014کے اختتام کے بعد نیٹو افواج کا انخلا متوقع قرار دیا جا رہا ہے لیکن عسکری ماہرین اس بات پر یقین کرنے کو اس لئے تیار نہیں کہ امریکی بنیا اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرکے اطمینان کے ساتھ واپس چلا جائے گا ۔ اگر اس کا مشن اسامہ بن لادن تھا تو اس کی موت کے ساتھ اس کی آمد کا مقصد پورا ہوچکا تھا ایسے کبھی کا واپس چلے جانے چاہیے تھے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغیر اپنی فوجی عسکری طاقت سے ہندوستان پر صدی حکومت کی ، اب وہ کس طرح اس کےلئے چیلنج بننے والے ایران، چین اور مشرقی وسطی کی مسلم ریاستوں اور شاہی حکومتوں کے خاتمے کے بعدنئی عرب حکومتوںکو من مانی کرنے کےلئے چھوڑ کر چلا جائے؟۔یقینی طور پر انخلا کا جو بھی وقت متعین ہو لیکن یہ طے ہے کہ ملک میں سیکورٹی سے متعلق معاملات کے حوالے سے مقامی فوج کو ہر صورت امریکی مقاصد کےلئے استعمال کئے جانے کا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کی فضا اس قدر حلول کرچکی ہے کہ جس کا اندازہ پاکستان سے محبت کرنے والی مقتدر قوتیں لگا چکی ہیں لیکن اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے بجائے ماضی کی کسی غلطی سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی ۔امریکہ اپنی عوام کی جانب سے بھی شدید دباﺅ کا شکار ہے امریکی عوام نہیں چاہتی کہ لاحاصل جنگ کو مزید طویل کرکے امریکی عوام کے اربوں روپیہ ٹیکس کا پیسہ اس جنگ میں جھونک دیا جائے جس کے مقاصد مستقبل میں انتہائی خوفناک بن سکتے ہیں۔اگر ایران، چین براہ راست امریکی کی نئی مہم جوئی میں شریک ہوگیا تو دنیا کو تباہی کے دھانے سے کوئی نہیں بچا سکتا اس لئے کوئی مزید مہم جوئی کرنے سے قبل پاک افغان کے درمیاں ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے جس سے امریکہ کو کم از کم نقصان اور فائدہ زیادہ سے زیادہ ہو۔واشنگٹن امریکی ایوان نمائندگان نے 607ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی تھی جس میں امریکی دفاعی بجٹ میں524ار ب ڈالر پینٹاگون کے اخراجات اور 83ارب ڈالر افغانستان سمیت بیرون ملک آپریشن پر خرچ کئے جائیں گے۔ایوان نمائندگان کی اکثر ارکان نے افغان جنگ پر شدید تنقید کی اکثر اراکین کا کہنا تھا کہ افغان جنگ بے مقصد اور امریکا کےلئے جان و مال کا زیاں ہے۔اب یہ پاکستان کے حکمرانوں ، سیاسی وو عسکری قیادت سمیت ہر باشعور عوام کا فرض بنتا ہے کہ جب روس واپس گیا تو کتنی تباہی اور جانوں کا ضائع ہوا تو کیا جب امریکہ اپنی فوج(اگر) واپس بلائے گا تو کیا ہمیں چین کی بانسری بجانے کےلئے چھوڑ جائے گا ؟ ۔ ہرگز نہیں ۔۔ ہمیں بس یہی سوچنا ہے۔اگر آپ ملک کی بقا کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں تو ساتھ دیجئے اپنا !
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.