اصل خرابی

کہتے ہیں پرانے زمانے میں کسی گاﺅں کے ایک بندے کوپہلی مرتبہ ملیریا ہوگیا۔ پھر کیا تھا گھر والے لگے ظاہری علامات کا علاج کرنے کسی نے کپکپی ختم کرنے کے لئے ہاتھ پیر پکڑے تو کسی نے متلی روکنے کے لئے منہ بند کر دیا ، اوریوں تیمارداروں کے بے پناہ خلوص اور محبت کے باوجو د بھی وہ بندہ جانبر نہ ہوسکا۔ خیر یہ تو ایک حکایت تھی جہاں تیمار داروں نے جو کچھ بھی کیا خلوصِ نیت سے کیا، اور جان لینے کا سبب صرف بیوقوفی ہی تھی لیکن ۔۔ میرے پیارے ملک کو جو مسائل درپیش ہیں، یہاں تو تیمارداروں کی بیوقوفی مصدقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے خلوصِ نیت پر بھی شک ہے۔ ہماری 64سالہ تاریخی غلطیاں جسے ہر ایک اخبار روزانہ کے حساب سے گنوا رہا ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ کیونکہ ہم آج تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرپائے کہ اسلام کو جمہوری بنانا ہے (مطلب مغربی جمہوریت ہے) یا جمہوریت کو مسلمان،یا پھرہر پانچ سال کے بعد دس سال کے لئے ملک جرنیلوں کے حوالہ کریں گے، جو اس ملک کے مختارِ کل ہوں گے۔ کیونکہ یہاں جمہوریت میں صرف اقتدار ملتا ہے لیکن جرنیلوں کو اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ مگر جرنیلوں کو ہم جو کچھ کہیں ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ یہ وہ کریم ہے جو کئی ذہنی اور نفسیاتی امتحانات کے بعد سلیکٹ ہوتی ہے لیکن اللہ معافی دے میرے ملک میں تو جمہوریت کے تحت منتخب ہونے والے جعلی ڈگریاں بھی رکھتے ہیں اور انگوٹھا چاپ بھی ہوتے ہیں۔ اب اگر جاہل اور گنوار ملک کی بھاگ ڈور سنبھالیں گے تو نتیجہ کیا ہوگا ؟ ۔بادشاہ الفرڈ(انگلینڈ878ئ) تو " جاہل کے ہاتھ میں طاقت دینا گناہ سمجھتا تھا" مگر پاکستان میں وڈیرے ، جاگیردار ، ٹھیکیدرار ، گدی نشین، منشیات اور اسلحہ کے سمگلراور کارخانہ دار جمہوریت کی شکل میں لوگوں کی گردنوں پر عذاب کی شکل میں نازل ہوتے ہیں۔ یہ جاہل گنوار ، نودولتیے اور پشت در پشت خوانین اسی جمہوری تماشے کی وجہ سے اپنے بیرونِ ملک اکاﺅنٹس بھرکر ملک کو بحرانو ں سے دوچار کرتے ہیں، یا عوام کے ٹیکس سے اکٹھی کی ہوئی ملکی دولت کو اپنی عیاشیوں میں اُڑاتے ہیں۔

لیکن اس لمبی تمہید سے میرا مطلب بلکل یہ نہیں کہ اقتدار پر کوئی فوجی ڈکٹیٹر قابض ہوجائے اور بنیادی انسانی حقوق ملک کے وسیع تر مفاد میں پائمال ہوتے رہیں ۔ میری عرض صرف اتنی سی ہے کہ بیماری کی جڑ ڈھونڈ کر اس کا تدارک کیا جائے ۔یہ جلالِ پادشاہی اور جمہوری تماشے صرف ظاہری علامات ہیں ۔۔بُرائی کی اصل جڑ جہالت ہے ۔۔ اوراسی جہالت کی وجہ سے اس دیس میں بھینس عقل سے بڑی نظر آرہی ہے۔یہاں عصبیت ہے تو جہالت کی وجہ سے، یہاں فرقہ واریت ہے تو جہالت کی وجہ سے اور یہ جو آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اسے بھی ایندھن جہالت ہی مہیا کر رہی ہے۔۔ہمیں اگر اپنے دیس سے پیارہے، تو تعلیم عام کرنی ہوگی ۔۔ لیکن سچ پر مبنی تعلیم ہماری مصلحتوں کی تراشی ہوئی دیومالائی کہانیاں نہیں سچی ، جدید تقاضوں کے مطابق اور عقلی دلائل پر مبنی تعلیم!۔اور یہ تعلیم صرف اپنے قومی زبان میںممکن ہوسکتی ہے۔۔ ہمیں اپنے آقاﺅں کی زبان بطورِ زبان پڑھانی ہوگی کیونکہ آج دُنیا میں اس زبان کی مانگ ہے! لیکن اس زبان کو آقا بنا کر ہم نے اپنی ہی مت ماردی ہے۔ آج جاکرB.Aکا ریزلٹ دیکھیں سب سے زیادہ طلباءانگلش میں فیل ہوتے ہیں ۔۔ اور وجہ صرف اتنی سی ہے کہ یہ زبان نہیں یہ ہمارا آقا بن چکا ہے ۔ اور ہمیں مغلوب کردیا۔۔ غیر ملکی زبان ترقی کی کوئی لازمی شرط بھی نہیں کیونکہ چین نے اپنی ہی زبان میں ترقی کی اور جاپان اپنی ہی زبان میں دُنیا کی ٹیکنالوجی پر راج کررہا ہے۔جب تک سچ پر مبنی تعلیم عام نہ ہوگی ہمارے عوام سیاسی شعبدہ بازوں کو خضرِ راہ اور جرنیلوں کو انقلابی سمجھتے رہیں گے۔کیونکہ جاہل کو اپنا دس نظر آتا ہے قوم کے لاکھ کی اُنھیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔اُنھیں سپورٹ فنڈ کے نام پر بھیک ملے یا وطن کارڈ کے نام پر رشوت پھر اُنھیں قوم کے اربوں کے فکر نہیں ہوتی ، اور دُنیا میں پیارے دیس کی جگ ہنسائی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔۔ کسی قوم میں غیرت تعلیم سے آتی ہے ۔جھوٹی اور دواور دو چارکرنے والی تعلیم سے نہیں ، بلکہ اُس تعلیم سے جو خودی کو بلند کرنا سکھائے ،حق و باطل میں تمیز سکھائے۔ جس میں قتل کرنے والا ہیرو نہ ہو بلکہ امن قائم کرنے والا ہیرو ہو۔ جس میں گولی چلانے والا اور ڈنڈا ہاتھ میں لیکر چِلانے والا ہیرو نہ ہو بلکہ سچ بات پر ڈٹ جانے والا،اور حق بات ببانگِ دہل کہنے والا ہیرو ہو۔۔

یہ ہے وہ کونین جس سے اس بخار کا علاج ممکن ہے، خُدا نہ کرے کہ میرے دیس کا حال بھی دیہاتی مریض جیسا ہو!۔۔ کیونکہ جب اصل مرض کا علاج کیا جائے تو ظاہری علاما ت خود بخود دور ہوتی ہیں۔اور جب تک نظریاتی بنیادوں پر تیار کیے گئے صالح اور سچائی سے محبت کرنے والے لوگ کسی نظام کو میسر نہ ہوں خواہ جمہوریت ہو، بادشاہی ہو، ڈکٹیٹر شپ ہو یا کمیونزم ناکام ہی رہیں گے۔۔کوئی بھی پارٹی پرسرِ اقتدار آئے حالات یہی رہیں گے۔اور عوام ہی کچلے جائیں گے خواہ" شیر کی سربراہی میں کتوں کی حکومت ہو یا کتے کی سربراہی میں شیروں کی" یہ صرف سیاسی مبالغے اور خطابت کی لفاظی ہے۔۔ اصل مسئلہ تعلیمی نظام کی اصلاح کا ہے۔۔کیونکہ یہی میرے پیارے نبیﷺ کی سنت ہے جس نے پہلے قوم کی اصلاح کی۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے صالح لوگ تیار کیے پھر کہیں جاکر حکو مت کی طرف توجہ دی۔۔۔" طوفان میں اگر کشی ہو تو سارے سوار مل کر کوئی نہ کوئی تدبیر کرہی لیتے ہیں، جیسے 1965,1947 میں کیاگیا مگر ، جب کشتی میں طوفان ہو تو پھر تدارک مشکل ہی سے ہوتا ہے۔۔ جیسے 1971 میں ہوا" ذراسوچیں!!!
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 26 Articles with 32179 views I am a realistic and open minded person. .. View More