فساد کی سیاست اور سیاست کا فساد

انجینئرفصیح محمود کا سعودی عرب سےاغوا،جامعہ الفلاح کے طلبا کی علی گڈھ ریلوے اسٹیشن سے غیر قانونی گرفتاری،معروف صحافی سید کاظمی کی بلاچارج شیٹ دہلی کے اندرقیدو بند، معصوم قتیل صدیقی کی پونا جیل میں شہادت،ابوجندل کا اچانک وارد ہوجانا،اتر پر دیش میں یکے بعد دیگرے تین فسادات اور پھر آسام کا قتل عام۔ گزشتہ تین ماہ کے اندر پے درپے رونما ہونے والے ان واقعات کو اگر کوئی اتفاقی قرار دیتا ہے تو اس سے بڑا بھولا کوئی اور نہیں ہے اور اگر کوئی اس کیلئے سنگھ پریوار کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو اس سے بڑا احمق بھی کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ سعودی عرب سے فصیح کو اغوا کرنا یا ابوجندل کو حاصل کرنا یہ صرف مرکزی حکومت کے بس کا روگ ہے ۔ جامعہ کے طلبہ کو کشمیر کے اندر ان کے والدین کو پولس اسٹیشن میں بلا کر یوپی حکومت کے اہلکار رہا نہیں کر سکتے ۔دہلی کی ریاستی و مرکزی دونوں حکومتوں پر کانگریس کا قبضہ ہے ۔ ریاستِ مہاراشٹر میں ہائی سیکیورٹی جیل کے اندرقتیل صدیقی کا قتل کروا دینا فی الحال بی جے پی شیوسینا کے بس میں نہیں ہے اور یو پی کے اندر بی جے پی میں اس وقت وہ دم خم باقی نہیں رہا کہ فساد پر فساد کرواتی پھرے ۔آسام میں بی جے پی تو کجا اسکی مائی باپ اے جی پی بھی یوڈی ایف کے بعد تیسرے نمبر پر ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی یہ سب کرنا نہیں چاہتی لیکن موجودہ سیاسی صورتحال میں ان ریاستوں کے باہر جہاں وہ اقتدار پر فائز ہے یہ سب اس کےاختیار سے باہرہے ۔ اگر ایسا ہے تو ان واقعات کے پیچھے جو ہاتھ کارفرما ہے اس خونی پنجہ کا پتہ لگانا کوئی تحقیق طلب امر نہیں ہے بلکہ کانگریس پارٹی کی گھناؤنی سیاست سےساری دنیا واقف ہے ۔

ہندوستان کی عوام اور اس کے اندر پائی جانی والی سب سے بڑی اقلیت فی الحال بے شمار مسائل کا شکار ہے لیکن اس کے بر عکس کا نگریس کا سب سے بڑا مسئلہ جلد از جلد راہل گاندھی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دینا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کے اقتدار اور اتر پردیش میں کانگریس کی طاقت کے درمیان چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ جب بھی کانگریس پارٹی یوپی میں کمزور ہوئی ہے گاندھی خاندان کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا ہے۔ کانگریسیوں کواس بار اتر پر دیش کے ریاستی انتخابات سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ اسی لئے ان لوگوں انتخاب کی کمان راہل گاندھی کے حوالے کی تاکہ کامیابی کا سہرہ ان کے سر باندھ کر تاجپوشی کی رسم ادا کر دی جائے ۔ اتر پر دیش میں کانگریس کا اکثریت حاصل کر لینا تو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا ۔ملائم یا مایا وتی میں سے ایک کی کامیابی یقینی تھی لیکن کانگریس کا منصوبہ یہ تھا کہ ان دونوں کو واضح اکثریت سے محروم کر دیا جائے اور جو بھی جماعت پہلے نمبر پر آتی ہے اس کی حمایت کر کے کم ازکم یوپی کی سیاست میں اک اہم مقام حاصل کر لیا جائے تاکہ آئندہ کے پارلیمانی انتخابات میں بر سر اقتدار جماعت کو بلیک میل کر کے اس سےمفاہمت کی جاسکے اور اس کی حمایت کا بھرپور فائدہ اٹھاکراپنی پارٹی کے زیادہ سے زیادہ ممبرانِ پارلیمان کو کامیاب کیا جاسکے ۔

اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کانگریس نے مسلم ریزرویشن کا مسئلہ بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھایااور سلمان خورشید جیسے سلجھے ہوئے وکیل الکشن کمیشن سے بھڑ گئے۔ مرکزی وزیر قانون کا اشتعال انگیز بیان دینا اور دستور کی خلاف ورزی کرنا نہایت شرمناک تھا لیکن کانگریس نے اس سے بھی پس وپیش نہیں کیا اس کے باوجود مسلمانوں نے ان کی اہلیہ سمیت کانگریس پارٹی کو دھول چٹا دی ۔راہل اور پرینکا کا جادو خود امیٹھی اور رائے بریلی میں بھی نہیں چل سکا۔ مسلمانوں نے سوچا کانگریس کی حمایت کرکے بلاواسطہ ایس پی یا بی ایس پی کی حمایت سے بہتر بلواسطہ ان جماعتوں کی حمایت فائدے کا سودہ ہے ۔ اس کے چلتے سماجوادی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی ۔ کانگریس اور راہل گاندھی کے سارے خواب چکناچور ہوگئے اور وہیں سے اس پارٹی نے طوطا چشمی آنکھیں پھیر لیں اور شروع ہو گیا ہندوؤں کو خوش کرنے کی خاطر مسلمانوں کو پریشان کرنے کا لامتناہی سلسلہ جو ہنوز جاری ہے ۔اس کی ابتدا ہندو دہشت گردوں کے ساتھ ہوئی۔ ان کی ضمانتیں منظور ہونا شروع ہو گئیں اور پھر اسرائیلی سفارتخانے کی گاڑی پر حملہ کےبہانہ بناکر مسلمانوں کو دہشت گرد ٹھہرانے منصوبے بند کھیل کھیلا جانے لگا ۔

اتر پردیش انتخابات کے بعدہندوستانی مسلمانوں کے تئیں حکومت ِ ہند کے رویہ میں جو نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہےوہ کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ اب کانگریس پارٹی کو اس بات کا احساس ہو گیا ہےکہ مسلمان اگر امن و سکون کی حالت میں ہوتے ہیں تو وہ ٹھنڈے دماغ سے کانگریس کے متبادل کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اس لئے اگر انہیں دہشت زدہ رکھا جائے تو وہ خوف کے مارے ہماری پناہ میں آجائیں گے ۔ ہندو رائے دہندگان مسلمانوں کی مصنوعی حمایت سے بھی ناراض ہوتے ہیں ۔اس کا اعتراف شنکر سنگھ واگھیلا نے کیا وہ بولےمسلمانوں کی حمایت کرنےکی قیمت کانگریس چکا رہی ہے اسلئے مسلمانوں کو بھی کھل کر کانگریس کی حمایت کرنی چاہئے۔مگر جب اترپردیش اور بہار جیسی ریاستوں میں مسلمانوں نے کانگریس کے جھانسے میں آنے سے انکار کردیا تو دہشت کی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ بہار میں بی جے پی سے مفاہمت کے باوجود نتیش کمار اپنی فلاحی اسکیموں کے باعث مسلمانوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اتر پر دیش میں ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو خوش کردیا تو انہیں دو ریاستوں کو نشانہ بنایا گیا ۔فصیح اور قتیل کے ذریعہ بہار کے مسلمانوں کو خصوصاً اور ملک بھر کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ کانگریس کے علاوہ کوئی اور انہیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتا۔ علی گڑھ اور دہلی میں ہونے والی گرفتاریاں اور یوپی کے فسادات بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھے ۔ اس سے ہندو ووٹرس کو بھی محسوس کرایا گیا کہ انکی پارٹی اب راہِ راست پر آگئی ہے ۔

صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پرنب مکرجی نے اپنے اولین خطاب میں کہا دوعظیم جنگوں کے بعدبرپا ہونے والی سرد جنگ تیسری عالمی جنگ تھی لیکن اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف چوتھی عالمی جنگ کا آغاز ہوا ہے ۔یہ کہیں بھی سر اٹھا سکتی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت کیا آسام میں ہونے والےحالیہ قتل عام کو بھی دہشت گردی کی جنگ قرار دیں گے یا امریکہ کے سرٹیفکٹ کا انتظار کریں گے ۔ انہوں نے کہا مجھے فخر ہے ہماری مسلح افواج نے سرحدوں کی حفاظت کی اور ہماری پولس نے اندرونِ ملک اس کا مقابلہ کیا اور ہندوستان کی عوام نے دہشت گردوں کی تمام تر اکساہٹ کو نظر انداز کر کے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ۔ اگر یہ سچ ہےتو آسام میں ۴۵ لوگ دیکھتے دیکھتے کیوں ہلاک کر دئیے گئے ؟ جس پولس کی تعریف صدرصاحب نے کی وہ کیوں خاموش تماشائی بنی رہی ؟ وہاں پر تین لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گزین کیمپوں میں کیوں آنا پڑا ؟ کیا اس ظلم وسفاکی کیلئے کیا وہ نام نہادبالغ نظر عوام ذمہ دار نہیں ہیں جنھیں صدرصاحب نے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی کا تمغہ عطا کر دیا ؟ وزیر اعظم کواسے کلنک قرار دےکر تین سو کروڈ کی امداد کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟ اور منموہن سنگھ نے بھی اٹل بہاری واجپائی کی طرح گوگوئی کو ہٹانے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیوں کیا؟ دہشت پسندی کو صرف القائدہ،لشکر طیبہ ،انڈین مجاہدین اور آئی ایس آئی سے منسوب کرنا دراصل ریاستی اور اکثریتی فرقہ کی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی ایک سازش ہے۔

آسام کے حالیہ فسادات بوڈو لینڈ کے علاقہ میں ہوئے ہیں اس سے قبل ؁۱۹۹۳، ؁۱۹۹۴، ؁۱۹۹۶ اور ؁۲۰۰۸ میں اس قسم کے فسادات ہوچکے ہیں ۔ ؁۱۹۹۶ میں بھی دولاکھ لوگ بے گھر ہوئے تھے اور ہلاکتوں کی تعداد ۲۰۰ تھی ۔بوڈو عوام کی ابتدائی جنگ حکومت ہند کے خلاف تھی۔ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ نے آزادی کے حصول کی خاطر؁۱۹۸۸ میں اپنی مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا لیکن ؁۲۰۰۳ میں بوڈو معاہدہ ہو گیا ۔ اس سے قبل وہ بوڈو گوریلا فوج وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات منوانے کیلئے نہتے مسلمانوں کو دہشت گردی کا شکار بناتے رہے ۔آسو نے بھی یہی کیا بنگالی مسلمانوں کے نام پر نیلی میں قتل عام کیا ۳۳۰۰ مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد حکومت ہند سے معاہدہ کرکے اپنی سیاسی جماعت اے جے پی بنائی اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کر کے اپنی ریاستی اقتدار پر قابض ہوگئے گویا جس کسی کو مرکزی حکومت سے اپنے مطالبات منظور کروانے ہوں اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہو اس کیلئے ریاست کے مسلمان نرم چارہ ہیں ۔چونکہ ہر مرحلہ میں ظالموں کو حکومت اور عوام کے ذریعہ سزا کے بجائے انعام و اکرام سے نوازہ گیا اس لئے یہ بربریت کا یہ ننگا ناچ جاری و ساری رہا ۔

آسام میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بڑی آسانی سے بنگلہ دیشیوں کے خلاف مقامی عوام کا غصہ قرارا دے دیا جاتا ہے جو سراسر جھوٹ ہے ۔ اسکی تازہ مثال سوکھن جھورا کے ریلیف کیمپ میں اجیت سین نامی صحافی کے سامنے ایک بوڈو عورت کا اعتراف ہے ۔ اس نے کہا میں بالکل نہیں جانتی کہ آخریہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ میرا خیال ہے کہ ہم لوگ امن و آشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزار رہے تھے اور میں نہیں چاہتی کہ یہ جو کچھ ہوا ہے ایسا پھر کبھی ہو ۔ اسی طرح کی بات بونگائی گاؤں کے ریلیف کیمپ میں زاہدہ خاتون نامی مسلمان خاتون نے کہی ۔ اس نے کہا جب فسادیوں نے میرے گھر کو آگ لگائی تو میں نے ندی میں کود کر اپنے آپ کو بچایا ۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کپڑوں کا دوسرا جوڑا بھی نہیں ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جلد از جلد امن بحال ہو جائے اور وہ اپنے گھر لوٹ جائے ۔ یہ عام لوگوں کے جذبات ہیں لیکن سیاست داں اس مختلف سوچتے ہیں اور کرتے ہیں ۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ فسادات خود وزیراعلیٰ ترون گوگوئی نے اپنی ناکامی کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے کروائے ہوں ۔روایتی طور پر آسام کے معاشرے خواتین کا بڑا اہتمام پایا جاتا تھا ۔ ایک زمانے تک وہاں قحبہ خانہ نام کی کسی شہ کا وجود نہیں تھا ۔ کسی خاتون پر دست درازی کے جواب میں مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دینے کا رواج تھا اسی لئے دوسرے علاقوں سے وہاں ملازمت کیلئے منتقل ہوکر جانے والے شہری اور فوجی آسامی خواتین کے قریب نہیں پھٹکتے تھے ۔لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہ اقدار پامال ہوتی چلی گئیں ۔ ۹ جولائی کو ایک نوجوان لڑکی کےساتھ سرِ عام بدسلوکی کا ۴۵ منٹ تک جاری رہنا اور عوام کا اس میں کوئی مداخلت نہیں کرنا یہ دہلی میں تو متوقع ہے لیکن آسام میں نہیں اس کے باوجود یہ افسوس ناک واقعہ راجدھانی کے اندروقوع پذیر ہوا اور مجرم فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔یہ نہایت شرمناک بات تھی ۔ اس کے خلاف تمام طبقات میں زبردست غم و غصہ تھا ۔لوگ اسےگوگوئی حکومت کی ناکامی قرار دے رہے تھے ۔

شمالی آسام مسلم کلیان پریشد کے رہنما ایم آئی بورا کا کہنا تھا کہ آسام جیوموتی اور مولا گوبھورو جیسی عظیم خواتین کی سرزمین ہے۔ اس کے باوجود یہاں خواتین پر مظالم روزمرہ کی بات بن گئے ہیں ۔ ۹ جولائی کے واقعہ نے ہمیں شرمندہ اور مایوس کر دیا ہے ۔گوہاٹی میں ہونے والے اس واقعہ کے بعد سیوساگر میں ایک فوجی نے مقامی عورت کے ساتھ بدسلوکی کی ۔ہماری ریاست میں خواتین غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ آل آسام شرمک کرشک کلیان پریشد کے سکریٹری جنرل پردیپ کلیٹا نے تو آگے بڑھ کر ریاستی حکومت کو برخواست کر کے صدارتی راج نافذ کرنے کا مطالبہ کر ڈالا اس لئے کہ حکوت عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور امن و قانون کی فضا کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے ایسے میں صدارتی حکومت ہی واحد حل ہے ۔

آسام میں سب سے بڑی حزب مخالف آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ہے ۔ ۱۹ جولائی کو اس کے ۱۷ ممبرانِ اسمبلی نے راج بھون کے سامنے دھرنا دیا ۔گورنر دراصل صدر کا نمائندہ ہوتا ہے گویا یہ مظاہرہ ریاستی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار تھا ۔یہ مظاہرہ ریاست کی بگڑتی ہوئی امن و قانون کی صورتحال اور خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے خلاف احتجاج تھا ۔ رکن اسمبلی سراج الدین اجمل نے اس موقع پر کہا ریاست میں عوام نہایت غیر محفوظ ہیں ۔ممبرانِ اسمبلی۔ سماجی کارکنان اور خواتین پر ہونے والے حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔امن و سلامتی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور حکومت سو رہی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر عوام کے نمائندے تک غیر محفوظ ہوں تو عوام کا کیا ؟ان کی پارٹی کے رکن اسمبلی طفیل احمد کو قتل کر دیا گیا جبکہ کانگریس کی خاتون رکن اسمبلی رومی ناتھ ہاتھا پائی کا شکار ہوئیں ۔سماجی کارکن اکھل گوگوئی کو بدمعاشوں نے زخمی کر دیا۔ بی جے پی رکن اسمبلی پرشانت پھکن اور خود ان پربھی ماہِ مئی میں غنڈوں نے حملہ کیا۔

ترون گوگوئی نے سوچا ہوگا کہ ان مظالم پر پردہ ڈالنے کیلئے اور اپنی کرسی کو محٖفوظ کرنے کیلئے کچھ ایسا کیا جائے کہ لوگ ان وارداتوں کو یکسر بھول جائیں ۔اس لئے مظاہرے کے دوسرے ہی دن بوڈو علاقوں میں آگ اور خون ہو لی شروع ہو گئی ۔یو ڈی ایف کے صدر اوررکن پارلیمان بدرالدین اجمل کے مطابق اس فساد میں بوڈو پیوپلس فرنٹ کے سارے گیارہ ممبران اسمبلی ملوث ہیں اس لئے بوڈو سرحدی کونسل کو فی الفور برخواست کر دینا چاہئے۔ جن لوگوں کے پاس اب بھی اسلحہ ہے اسے واپس لینا چاہئے۔مرنے والوں کو دس اور زخمیوں کو پانچ لاکھ معاوضہ دیا جانا چاہئے نیز وزیراعظم کو دئیے جانے والے میمورنڈم میں انہوں نےحالیہ تشدد کی مکمل ذمہ داری ریاستی وزیراعلیٰ پر ڈالی جن کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی ہے ۔ اس طرح کے مطالبات کوئی نئے نہیں ہیں ۔ جمیعت العلماء یہ سب اس زمانے میں بھی کرتی رہی ہے جب یوڈی ایف آسام کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی نہیں تھی۔ تشدد کے ان واقعات نے ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور کر دی ہے جو یہ سوچتے تھے کہ اگر مسلمان کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کر لیں تو انہیں فسادات سے نجات حاصل ہو جائیگی ۔ آسام میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اس طرح کے بھیانک فساد کا وقوع پذیر ہو جانا جمہوری نظام میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کا شاخسانہ ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ ماضی کےفرقہ وارانہ فسادات کا سب سے زیادہ فائدہ کانگریس پارٹی ہی نے اٹھایا ہے لیکن اسے یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ میرٹھ کے ہاشم پورہ قتلِ عام کے بعد گزشتہ پچیس سالوں میں اسے ایک بار بھی ریاست کے اندر اقتدار حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ کانگریسی وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے زیر اثر پی اے سی نے ۴۲ مسلم نوجوانوں کوماہِ رمضان کے اندر ہلاک کر کے ان کی لاشوں غازی آباد میں واقع مراد نگر کے ایک نالے میں پھینک دیا تھا ۔ مئی ؁۲۰۰۰ میں اس کے سولہ مجرم عدالت میں حاضر ہو گئے لیکن ان کو سزا دینے کے بجائے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔ اس وقت وزیر داخلہ چدمبرم کے پاس وزارتِ داخلہ کے تحت داخلی تحفظ کا قلمدان تھا اور اس قتلِ عام سے قبل انہوںمتاثرہ علاقہ کا دورہ کیا تھا اس لئے اس التوا میں پڑے اس مقدمہ کے ملزمین میں چدمبرم کو شامل کئے جانے کا مطالبہ سبرامنیم سوامی نے کیا ہے ۔ دراصل اس طرح کے فسادات کی روک تھام کیلئے ضروری ہے اس کیلئے ذمہ داراعلی سیاسی اور انتظامی حکام کو جتنی جلد ممکن ہو قرار واقعی سزا سنائی جائے۔ دیکھنا یہ ہے دہلی کی تیس ہزاری عدالت اس بابت کا فیصلہ کرتی ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450132 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.