پاکستان میں تیسری بڑی سیاسی قوت
کے طور پر ابھرنے والی سیاسی جماعت ”پاکستان تحریک انصاف “ کی عوامی
پذیرائی کی اصل وجہ عوام کا وہ استحصال ہے جو پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی
جماعتیں گزشتہ تین سے زائد عشروں سے کرتی چلی آرہی ہیں اور کئی کئی بار
عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے والی ان دونوں سیاسی جماعتو ں نے عوام سے
زیادہ اپنے لئے کام کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی
قیادتیں عوام دوست اور محب وطن نہیں ہیں ۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی
بھٹو اور ان کی دختر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی عوام دوستی اور حب الوطنی
سے کوئی ذی شعور انکار کرسکتا ہے اور نہ ہی میاں نواز شریف کی عوامی و قومی
خدمات کسی سے ڈھکی چھپی ہیں مگر اس کے باوجود یہ دونوں سیاسی جماعتیں عوام
کو مصائب و مسائل کی چکی سے نکال کر خوشحالی و آسودگی اور وطن عزیز کو
استحکام کی منزل تک پہنچانے میں صرف اس لئے ناکام رہی ہیں کہ دونوں ہی
جماعتیں اقتدار کی بھوک کا شکار ہیں اور دونوں جماعتیں جاگیرداروں اور
سرمایہ داروں پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ اقتدار اور مفادات کے حصول کیلئے
سمجھوتوں کی روایت کی اسیر رہی ہیں جبکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین سے
لیکر بڑے سیاسی رہنماؤں تک ہر فرد جاگیرداری ‘ صنعتکاری ‘ تجارت اور
کاروبار سے اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ بسا اوقات اپنے کاروباری مفادات کیلئے
بھی ایسے فیصلے اور سمجھوتے کئے گئے جن کے مضمرات نے عوام کے مستقبل کو
خطرات سے دوچار کیا اور اپنی حکومت و کاروبار کو بچانے اور مفادات کی بجا
آوری کیلئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں نے کئی باراشرافیہ کے
ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے عوام دشمن فیصلے کئے اور کئی مرتبہ عوام کے حق
میں کئے گئے فیصلوں کو واپس لینے کے ساتھ ملکی و قومی مفادات کیلئے طے کی
گئی پالیسی پر عملدرآمد محض اسلئے روک دیا گیا کہ اس سے سرمایہ داروں ‘
جاگیرداروں ‘ جرنیلوں اور سیاستدانوں پر مشتمل اشرافیہ کے مفادات پر ضرب پڑ
سکتی ہے جس پر ایوان کے اندراور باہر موجود ان مفاد پرستوں نے حکومت پر
دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فضا ساز گار بنالی ۔
سیاست کی اسی ریشہ دوانی اور مفادات کی بجا آوری میں عوام کی نظر اندازی
اور قومی نقصانات کی طویل ہوتی ہوئی فہرست کے ساتھ بحرانوں کی بڑھتی ہوئی
رفتار نے عوام الناس کو ان دونوں بڑی سیاسی قوتوں سے اس طر ح سے بدظن کیا
کہ عوام کی نگاہیں بہتری کی امید پر بھٹکنے لگیں ان حالات الطاف حسین نے
مظلوم طبقات کی ترجمانی کرتے ہوئے 98فیصد غریب عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے
ایک ایسی سیاسی قوت کی داغ بیل ڈالی جس کا نام اگر ابتدا سے ہی متحدہ قومی
موومنٹ رکھ دیا جاتا تو آج یہ ملک کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین جماعت ہوتی
اور اب سے ایک عشرہ قبل اقتدارمیں آکر پورے ملک میں تعمیرو ترقی کا وہ
کردار ادا کرتی جس کی مثال کراچی کو بنایا مگر لفظ ”مہاجر “ نے اس جماعت کو
محدود کردیا اور ”مہاجر “ کے لفظ کو دہشت گردی کی علامت بناکر موروثی و
روایتی سیاستدانوں ‘ جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں ‘ اشرافیہ اور بنیاد پرستوں
نے اونچی اڑان بھرنے والے اس سیاسی جماعت کے پر کترنے کی کوشش کی جس میں
اسے ناکامی ہوئی اسلئے ہوئی کہ الطاف حسین نے حکمت و دانائی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے مہاجر قومی موومنٹ کو ”متحدہ قومی موومنٹ “ میں تبدیل کرکے اس جماعت
کو مہاجروں کے حقو ق کیلئے جدوجہد کرنے والی جماعت سے پاکستان کے تمام
مظلوم و محروم طبقات اور98فیصد استحصال کاشکار حقوق سے محروم عوام کے حقوق
کیلئے جدوجہد کرنے والی قومی سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا مگر اس وقت تک
وطن عزیز کے اقتدار و اختیار اور سیاست و صحافت سمیت تمام وسائل پر قابض
اشرافیہ اس جماعت کے حوالے سے ایک منفی تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی
تھی اسلئے اب متحدہ قومی موومنٹ کا قومی سیاسی سفر پہلے جیسی اڑان سے محروم
ہے ۔ اس طرح سیاسی فضا میں قومی سطح پر ایکبار پھر صرف دو ہی سیاسی جماعتیں
عوام کے سامنے رہ گئیں مگر ن لیگ کے سپریم کورٹ پر حملے نے جہاں عوام کو اس
سے بدظن کیا وہیں فوج کے خلاف اقدامات کے ذریعے مطلق العنان حکمران بننے کی
کوشش نواز شریف کو اس قدر مہنگی پڑی کہ انہیں ایوان اقتدار سے نکل کر کال
کوٹھری کا منہ دیکھنا پڑا مگر قربانی دینا نہ تو ہر سیاستدا ن کے بس کی بات
ہوتی ہے اور نہ ہر سیاسی جماعت کو یہ ورثہ نصیب ہوتا ہے یوں میاں صاحبان
رات کے اندھیرے میں ڈیل کرکے سعودی عرب نکل گئے اور بیچ مجدھار میں پھنسی
عوام نوا زشریف کے اس فرار کی وجہ سے مشرف کو طویل عرصہ جھیلنے پر مجبور
رہی اس دوران عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی مگر عمران خان کی
کرشمہ ساز شخصیت بھی تحریک انصاف کو عوامی پذیرائی نہ دلا پائی اور مشرف کے
چند اقدامات جب اس کے گلے پڑے اور ملک میں عدلیہ بحالی تحریک نے زور پکڑا
تو (ن) لیگ نے ہمیشہ کی طرح نظریات کی بجائے عقل سے کام لیا اور عدلیہ پر
حملہ کرنے والے عدلیہ کی حمایت میں مظاہرے کرتے دکھائی دیئے چونکہ یہ وقت
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وقت تھا اس لئے اس وقت کسی کو بھی نوازشریف
سے یہ پوچھنے کی زحمت و جرات نہیں ہوئی کہ کل تک عدلیہ پر حملہ کرنے والے
آج عدلیہ کے ساتھ کیا اسلئے ہیں کہ عدالت نے نوازمشرف ڈیل کوکالعدم قرار دے
کر میاں صاحب کو وطن اور سیاست دونوں میں واپسی کی اجازت دے دی ہے اور میاں
صاحب جان چکے ہیں کہ عدلیہ بحالی کی صورت ان کااقتدار یقینی اور مستقبل
یقینا محفوظ ہوجائے گا مگر شومئی قسمت نوازشریف کی تدبر و تدبیر پر محترمہ
بینظیر بھٹو کی شہادت کی تقدیر نے پانی پھیر دیااور اقتدار کا قرعہ فال
پیپلز پارٹی کے نام نکل آیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے اقدامات اور اسمبلیوں
میں رہنے کی اپوزیشن کی مجبوری کے ساتھ بڑھتے ہوئے بحرانوں نے عوام کوپیپلز
پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار کردیا اور یہ
وقت عمران خان اور ان کی غیر مقبول تحریک انصاف کیلئے ”گولڈن پیریڈ “ ثابت
ہوااور آج تحریک انصاف پاکستان کی سب سے مقبول جماعت صرف اسلئے ہے کہ عوام
طبقاتی تضاد ‘ وی آئی پی کلچر ‘ نا انصافی ‘ قومی خزانے کی لوٹ مار ‘ کرپشن
‘ مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ لاقانونیت ‘ پولیس کلچر ‘ جاگیردارانہ نظام اور
اختیارات کے ناجائز استعمال سے تنگ آچکے ہیں اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ
(ن) نے عوام کو ان سے نجات دلانے کی بجائے ان کا تحفظ کیا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا پنا کردار
ہے جس کے حوالے سے ابھی تک کوئی کرپشن یا ظلم و زیادتی کی کوئی داستان
سامنے نہیں آئی ہے ‘ دوسرا تحرےک انصاف کو وہ مقتدر حلقے بھی مکمل طور پر
سپورٹ کررہے ہیں جو بنیاد پرستی کو برا نہیں سمجھتے بلکہ اسے فروغ دینا
چاہتے ہیں اور طالبانائزیشن کی سرپرستی کے ساتھ عسکریت پسندوں اور مسلح
افواج کے قاتلوں کو بھی مذاکرات کے نام پر بچانا چاہتے ہیں کیونکہ عمران خا
ن لبرل ازم کا لباد ہ اوڑھ کر امریکہ اور یورپی ممالک میں پذیرائی بھی
رکھتے ہیں اور اندر کی بنیاد پرستی انہیں ملا ازم اور طالبان کیلئے بھی
محبوب بنائے ہوئے ہے جبکہ انقلاب کا نعرہ لگاکر کرپشن ‘ بجلی بحران ‘
جاگیردارانہ و پٹواری نظام اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے عمران خان کے
بیانات نے تحریک انصاف کو عام عوام میں بھی مقبولیت فراہم کردی ہے اور
تحریک انصاف کے اپنے دعووں کے مطابق اب تک پاکستان میں 70لاکھ افراد تحریک
انصاف کی رکنیت اختیار کرچکے ہیں جو اگر حقائق پر مبنی ہے تو پھر آئندہ
انتخابات میں تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوسکتی ہے مگر
ایساشاید اسلئے نہ ہو کہ پاکستان کے عوام کا حال بھی اپنے حکمرانوں سے
مختلف نہیں ہے یہ عوام بھی بڑے عجیب ہیں یہ حمایت کا نعرہ کسی اور کا لگاتے
ہیں ‘ جلسے میں کسی اور کے جاتے ہیں ‘ اپنے مسائل کے حل کا مطالبہ کسی اور
سے کرتے ہیں ‘ بریانی کسی اور کی کھاتے ہیں اور ووٹ کسی اورکو دے آتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ عوام کی یہ متلون مزاجی بڑے بڑے سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
کو باطل ثابت کرتی رہی ہے اور اگر اس بار اس نے عمران خان کے دعووں کو بھی
باطل کردیا تو وہ انقلاب جس کی توقع عوا م کررہے ہیں شاید ایک عشرہ اور
مزید موخر ہوجائے !
اسلئے عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ انقلاب کیلئے انتخابات کا انتظار کرنے
کی بجائے انقلاب کے ذریعے انتخاب میں قدم رکھ کر فتح و اقتدار حاصل کریں جس
کیلئے انہیں محض ایک چھوٹا سا کام کرنا ہے کہ پانی سے کار ‘ جنریٹر اور ہر
قسم کے انجن چلانے کا عملی مظاہرہ کرنے والے سکھر کے انجینئر آغا وقار تک
رسائی حاصل کرکے ان کی ایجاد کے قابل عمل ہونے کا یقین کرنا ہے اور اگر یہ
ایجاد حقیقت ہے اور آغا وقار کی ایجاد کردہ ”آٹو موبائل واٹر کٹ “ کے ذریعے
ٹرانسپورٹ کو پانی سے چلانا ممکن ہے اور جنریٹر وغیرہ بھی پانی پر چلائے
جاسکتے ہیں تو عمران خان کو فوری طور پر آغا وقار کی سرپرستی کرتے ہوئے ان
کی کٹ کی کمرشیل اور صنعتی بنیادوں پر تیاری اور مارکیٹ میں فراہمی کو
یقینی بنانے کیلئے امتیاز حیدری کی کمپنی میں انویسٹ 21کروڑروپے کی رقم وطن
واپس لاکر اس سے ” آٹو موبائل واٹر کٹ “ تیار کرنے والی فیکٹری لگائیں تو
اس فیکٹری کے ذریعے تیار ہونے والی کٹ کے ذریعے پاکستان کے عوام پٹرول کی
مہنگائی سے نجات پاکر پانی سے اپنی گاڑیاں بھی چلاسکیں گے اور اس کٹ کو
عالمی سطح پر رجسٹرڈ کراکر دنیا بھر میں اس کی فروخت سے پاکستان کو اس قدر
زرِ مبادلہ بھی حاصل ہوگا کہ پھر ہمیں کسی بیرونی امداد یا قرض کی ضرورت
نہیں رہے گی جبکہ گاڑیوں کے پانی سے چلنے کی صورت میں ہم پٹرول کی درآمد سے
بھی بچیں گے جس سے ہمارا وہ سرمایہ وطن میں ہی محفوظ رہتے ہوئے سرمایہ کاری
کو فروغ دینے کے کام آئے گا جو پٹرول کی خرید میں بیرون ملک منتقل ہوتا
جاتا ہے اور یہ اتنا بڑا سرمایہ ہے اگر یہ بچ جائے تو پھر ہمیں پاکستان کی
ترقی کیلئے کسی بیرونی سرمایہ کار کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ۔
آغا وقار کے علاوہ پاکستان میں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اگر وسائل
مہیا کردیئے جائیں تو وہ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں جن میں تھرپارکر کی گرم
مٹی سے بجلی پیدا کرنے والے اندرون سندھ کے سائنسدان ‘ گھر کی چھت پر پانی
کی ٹنکی بناکر اس ٹنکی سے بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والا ملتان کا
نوجوان اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کچھ کرسکتے ہیں ان لوگوں کو اخبارات میں
اشتہارات کے ذریعے جمع کیا جائے اور پھر ان کی ایجادات کو چیک و تسلی کے
بعد صنعت بنیادوں پر ان کی تیاری سے انقلاب کی بنیاد رکھی جائے تو عمران
خان حقیقی معنوں میں وہ انقلاب لانے میں کامیاب ہوجائیں جو انہیں عوام میں
وہ مقبولیت و پذیرائی دے گا کہ پھر عوام تحریک انصاف کو ہی ووٹ دینے کا
یقین دلائیں گے ‘ تحریک انصاف کے ہی جلسے میں آئیں ‘ تحریک انصاف کے نعرے
لگائیں گے اور ووٹ بھی تحریک انصاف کو ہی دے کرا قتدار میں لائیں گے ۔
دوسری جانب پانی سے انجن چلانے والی کٹ کے ذریعے پانی سے کار چلانے کا عملی
مظاہرہ کرنے والے انجینئر آغا وقار کا کہنا ہے کہ اگر انہیں وسائل وسہولیات
مہیا کی جائیں تو وہ اپنی اس کٹ کو اس قابل بناسکتے ہیں کہ اس کٹ کی مدد سے
بجلی پیدا کرنے کے ٹربائنز اور ہیوی جنریٹر ز کو بھی پٹرول و ڈیزل کے بغیر
پانی سے چلایا جاسکے ۔
ذرا سوچئے اگرعمران خان نے آغا وقار کی سرپرستی کے ذریعے اس دعوے کو حقیقت
کا روپ دے دیا تو کیا ہوگا ؟
فرنس آئل کی کمی کے باعث بند بجلی گھر پھر سے پیداوار کے قابل ہوجائیں گے ‘
ڈیموں کے بغیر بھی بجلی پیدا کرنا ممکن ہوجائے گا جس کے بعد بجلی گھر کہیں
بھی بنایا جاسکے گا اور ہر علاقے میں اس کی ضرورت کے مطابق پاور پلانٹ
لگاکر بجلی پیدا کرنا اور اس علاقے کو فراہم کرنا ممکن ہوگا جس سے ہائی
ٹینشن وائروں کا جال بچھانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ہر ضلع میں بجلی
گھر اس کی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرکے مہیا کرسکے گا جس سے لوڈ شیڈنگ سے
سو فیصد نجات ممکن ہوجائے گی ساتھ ہی تاریں ٹوٹنے اور گرڈ اسٹیشن بند ہونے
کے واقعات کے باعث بجلی کے تعطل کے واقعات بھی ختم ہوجائیں گے جبکہ بلا
تعطل بجلی کی فراہمی سے نہ صرف مردہ صنعتیں پھر سے زندہ ہوجائیں گی بلکہ
ٹیوب ویل اور رہٹ کے ذریعے پانی حاصل کرکے نہروں سے دور علاقوں میں بھی
ذرعی زمین آباد کرکے غذائی اجناس کی پیداوار ممکن ہوجائے گی اور صنعت و
ذراعت کا پہیہ پوری رفتار سے چلے گا تو عوام کو روزگار بھی ملے گا اور خدمت
و محنت کا معاوضہ بھی جبکہ پیداوار میں اضافے سے طلب میں کمی اور رسد میں
اضافہ اشیائے صرف کی گرانی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا جس سے مہنگائی
کا زور ٹوٹے گا اور ہر چیز عوا م کی قوت خرید میں آجائے گی جس سے حاصل ہونے
والی خوشحالی عوام میں آسودگی و اطمینان پیدا کرکے ان میں حب الوطنی کے ان
جذبات کو فروغ دے گی جو قوانین کے احترام اور جرائم کے خلاف جدوجہد کا باعث
بنتے ہیں اور جب عوام قانون کا حترام کرنے لگیں اور جرائم کے خلاف کمر کس
لیں تو پھر سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کے تحفظ کیلئے بھتہ مافیا ‘ لینڈ
مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کو خود سے دور کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں
اورجرائم پیشہ گروہ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے اس
طرح سیاست و جرم گٹھ جوڑ کا خاتمہ امن و خوشحالی کا باعث بن جاتا ہے اسلئے
تحریک انصاف اگر آغا وقار کی سرپرستی کرکے ان کے تیار کردہ پانی سے انجن
چلانے والی کٹ کو فروغ دے کرحکومت میں آئے بغیر نجی شعبے کے اشتراک سے عوام
کو سستی بجلی وافر مقدار میں مہیا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو انقلاب
نہیں تو اور کیا ہوگا ۔
مگر سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ہی یہ مشورہ یا ان سے ہی
یہ مطالبہ کیوں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں ہر شعبے پر ایک مافیا کا قبضہ ہے اور
یہی مافیا حکومت اور سیاسی جماعتوں میں بھی براجمان ہے اسلئے وہ ایسا کوئی
کام نہیں ہونے دیتی جس سے ان کے مفاد کو نقصان پہنچے اسلئے ان مافیاز کے
ہاتھوں بلیک میل ہونے والی کوئی بھی سیاسی جماعت یا حکومت ایسا ہرگز نہیں
کرپائے گی اب دوہی سیاسی جماعتیں ہیں جو جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں اور
گنہگاروں سے محفوظ ہیں ایک متحدہ قومی موومنٹ کیلئے حکومت کا حصہ رہتے ہوئے
ایسا کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عالمی سطح
پر اتنی پذیرائی رکھتے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں
مدعو کرکے اس قسم کی صنعتیں لگاکر ان پراجیکٹس کو قابل عمل بناسکتے ہیں
جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور پاکستان کو امداد دینے والی تنظیموں سے
بھی عمران خان کے اتنے روابط ہیں کہ وہ توانائی بحران کے خاتمے اور عوام کو
سہولیات کی فراہمی کے نام پر ان سے اربوں ڈالرز کے فنڈز حاصل کرکے انتخابات
سے قبل معاشی انقلاب کے ذریعے سیاسی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں !
رہی بات انتخابات کی تواگر عمران خان نے اس مفید مشورے پر عمل کرکے
انتخابات سے قبل انقلاب کی بنیاد رکھنے کی بجائے انتخابات میں مقدر آزمائی
کی کوشش کی تو اسے اقتدار میں آنے کیلئے جماعت اسلامی اور متحدہ قومی
موومنٹ کے درمیان اختلافات کا خاتمہ کرانا ہوگا کیونکہ انتخابات کے بعد
بننے والی سیاسی فضا میں کسی ایک جماعت کیلئے مستحکم حکومت بنانا ممکن نہیں
ہوگا اور تحریک انصاف ‘ متحدہ قومی موومنٹ ‘ جماعت اسلامی اور سندھ و
بلوچستا ن کے قوم پرستوں کی مددسے حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے جبکہ
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے نکالے گئے افراد کی تحریک انصاف میں شمولیت اس
کی عوامی مقبولیت کیلئے مضر اثرات کا باعث بن رہی ہے جبکہ انتخابات میں
یقینی کامیابی کیلئے تحریک انصاف کو متحدہ قومی موومنٹ ‘ جماعت اسلامی اور
سندھ و بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان موجود خلیج کو دور کرکے ان کے
اتحاد سے قومی الائنس تشکیل دے کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت انتخاب لڑنا ہوگا
تو تحریک انصاف اقتدار پر قابض دوبڑی سیاسی جماعتوں کے چنگل سے عوام کو
بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگی مگر انقلاب پھر بھی اس وقت تک نہیں ائے گا جب
تک قومی پالیسیوں کو اشرافیہ کے مفادات سے آزاد نہیں کرایا جائے اور اس
کیلئے یک جماعتی مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جس کے آثار مستقبل قریب میں تو
کجا مستقبل بعید میں بھی دور دورتک دکھائی نہیں دیتے ! |