بعض لوگ جھوٹ بول نہیں سکتے
کیونکہ ان کا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے ضمیر سے بغاوت کر
بھی جائیں تو ان کی آنکھیں ان کے افعال اُن کے قول کا ساتھ نہیں دیتے اور
وہ پکڑے جاتے ہیں۔اور بعض لوگ اس قدر مہارت سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کے منہ
سے سچ عجیب سا لگتا ہے۔اور کوئی بھی ان کے سچ کا یقین نہیں کرتا۔ملک کے
بیشتر سیاستدان بھی اسی ضمرے میں آتے ہیں کہ ان کی زبان جھوٹ کی اس قدر
عادی ہے کہ اس سے سچ سننا ناممکن ہے۔خود پاکستان کے ایک معروف قانون دان
اور سیاستدان بابر اعوان نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ سیاست کا مطلب ہی
جھوٹ بولنا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا
ہے۔بابر صاحب کے اس بیان کو میں تو جھٹلانا چاہتا تھا۔مگر ایک عالم دین سے
جھوٹے کے متعلق پوچھا تو وہ بولے کہ جو بھی جھوٹ بولتا ہے اس میں ایک اضافی
عنصر بھی ہوتا ہے جسے مُنافقت کہتے ہیں۔اس اعتبار سے تو ملک کے اکثر سیاست
دان ایک ہی جماعت میں گنے جا سکتے ہیں۔میاں برادران نے آج کل ایک نیا
فارمولا تشکیل دے رکھا ہے جیسے وہ کہاوت تھی کہ نوسو چوہے کھا کر بلی حج کو
چلی اب نہ تو میری مراد ہے کہ وہ بلیاں ہیں اور نہ ہی میں ان پر حرام کھانے
کا کوئی الزام لگا رہا ہوں مثال سے ثابت یہ کرنا تھا کہ جو فارمولے وہ اب
حکومت کو مشورئہ مفت کی صورت میں دے رہے ہیں وہ عرصئہ یارانہ میں کیوں نہ
دیے ۔تب تو مل جل کر بانٹا بلکہ بندر بانٹ کے مزے لیے۔اور پھر عوام کو
دکھانے کی خاطر ان کو وفاق دے کر ان سے پنجاب لے لیا۔بظاہر تو وہ حکومت میں
ہیں مگر میرے نزدیک یہ ٹی وی پر چلنے والے ایک ڈرامے سے ذیادہ مزاحیہ ہے کہ
یہ بھی اپوزیشن ہیں۔اگر واقعی میں نواز لیگ اپوزیشن میں ہوتی اور ان کا
مطالبہ بھی جلد از جلد انتخابات ہیں۔خان صاحب بھی یہی چاہتے ہیں۔اور میدان
سے باہر بیٹھے اکثر تماشائی بھی یہی چاہتے ہیں تو پھر اس معاملے کا کوئی حل
کیوں نہیں نکلتا۔سیاستدانوں سے متعلق کوئی بھی بل پاس ہونا ہو تو اس پر سب
کے سب ایک ساتھ مل جاتے ہیں اسے منظور کرالیتے ہیں مگر جب باری عوام کی آتی
ہے تو ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں ۔ان کے قول و فعل میں تضاد کی یہ
مثال ان کی بد کرداری اور نااہلی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔محض حکومت مخالف
مظاہروں میں جاکر نعرے لگا لینا اور اندر سے حکومت کو مکمل وقت دینا اس بات
کی سمجھ مجھے تو کیا بڑے سمجھدار لوگوں کو بھی نہ آئی ۔میرے نزدیک پنجاب کے
بڑے مسائل میں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ ہے مگر اس پر کبھی کوئی لانگ مارچ کی
دعوت نہ دی گئی نہ ہی کوئی بندہ مہنگائی پر گول میز کانفرنس بلاتا ہے ایسے
حالات میں بے ساختہ میں سچ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی
ہی اصل میں نواز لیگ کے ووٹر ہیں ۔اگر وہ اس مسلے کو حل کرنے کی ٹھان لیں
تو اس کے حل میں کوئی دیر نہیں۔ آج ایک لانگ مارچ بلائیں ۔آج ملک گیر ہڑتال
کی کال دیں۔اگر تیسری بار وزیر اعظم بننے کی اجازت لے سکتے ہیں قانون میں
تبدیلی کرکے اسلام کے قوانین کے منافی ایک توہین عدالت کیس بنا لیتے ہیں جس
میں اسلام کے برابری کے بنیادی اصول کی بھی خلاف ورزی ہے۔نیٹو سپلائی پھر
اسے طرح سے بحال ہوگئی سب چپ ہیں۔ڈرون پر کبھی نوا صاحب نہ بولے۔ اگر اپنے
مطلب کے تمام تر کام یہ مل کر یا پھر لڑکر منظور کرالیتے ہیں تو ہمارے کیوں
نہیں ۔یہ چاہیں تو مسئلے حل ہو جائیں ۔مگر ایسا نہیں کریں گے۔خاص کر پنجاب
والے اس جرم کے مرتکب نہ ہوں گے کیونکہ اس مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پر انہوں
نے سیاست کرنی ہے اور اسی کی بنیاد پر انہوں نے عوام سے حکومت مخالف ووٹ
بھی لینے ہیں ۔مگر میری طالبعلمانہ سوچ میں نواز لیگ کو ان کی اس حرکت کی
وجہ سے نہ صرف بڑا دھچکا لگے گا بلکہ ان کی ساخت انتہائی کمزور ہوجائے
گی۔خاص کر وہ چند چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جو دراصل چند لوگوں کا گروہ ہیں اور
اپنے مفاد کی خاطر عوام کو بے وقوف بنا کر موجودہ حکومت کا دل کھول کر ساتھ
دے رہی ہیں ان کا نتیجہ بھی نواز لیگ سے اچھا نہ ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ عوام اپنی بنیادی ذمہ داری کو سمجھے اورحالات واقعات کے علاوہ حقائق کی
بنا پر فیصلہ کرے ۔کیونکہ الیکشن قریب آتے ہی نہ صرف بجلی واپس آنے والی
بلکہ اس ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی کم ہونے والی ہیں جو کہ محض
اتنے ہی وقت کے لیے کم ہوں گی جتنے وقت کے لیے NA 151 کے الیکشن کے وقت
گیلانی صاحب کے ایک الزام یافتہ بیٹے کو نااہلی کی بنیاد پر چھوڑی گئی سیٹ
جتوانے کے لیے قیمتیں گریں۔تاہم مجھے ملک کے مختلف شہروں سے نواز لیگ کے
چند یقینی ایم این اے اور ایم پی اے جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں جسکا سب سے بڑا
سبب ان کی منافقت پر مبنی سیاست ہے۔لیکن سیاست میں سب جائز ہے اگر بازار لگ
گیا تو بہت کچھ بکے گا اور میرے نزدیک آنے والا الیکشن پاکستان کا مہنگا
ترین الیکشن ہوگا جس میں بہت کُچھ خریدا اور بیچا جائے گا ۔اور اس میں
توقعات اور خواہشات سے ہٹ کر بہت سے فیصلے لیے جائیں گے جو کئی لوگوں کو
ہرگز قابل قبول نہ ہوں گے۔ |