ملک کی یکتا، اتحاد اور قار کے
تحفظ کے لئے پورے ملک میں ایک رسم الخط ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ آزادی کے
بعد سے مسلسل اس خیال کا اظہار سننے میں آ رہا ہے جس سے اپنے مادری زبان کے
تحت بعض لوگوں کی محبت کا تو ثبوت ملتا ہے لیکن یہ وہی نقطہ نظر ہے جس کی
وکالت برسوں سے ہند و پاک کے لوگ کر رہے ہیں۔
راقم کا نظریہ ہے کہ آزادی سے قبل اور بعد میں ملک میں جتنے بھی فرقہ
وارانہ فسادات ہوئے ہیں ان میں سے اکثر تو بڑے اور سنگین نوعیت کے ہیں۔
فرقہ وارانہ فسادات کی بنیادی وجہ مذہبی نہیں، بلکہ سیاسی ہے۔ آزادی سے قبل
ہندو مسلم فسادات نے جنم لیا، اور اس کے بعد مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھوں سے
گیا اس معرکے میں بھی بے تحاشہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور لے دے کر
ہمارے پاس ہمارا اپنا پاکستان بچ گیا ہے مگر ناعاقبت اندیش عناصر اس کے
ٹکڑے کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ خاکم بہ دہن میرے منہ میں خاک جو حالات آج
بلوچستان میں ہے اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، کراچی کے حالات آپ سب کے
سامنے ہی ہیں ، کوئی دن ، کوئی رات، کوئی صبح، کوئی شام ایسا نہیں گزرتا ہے
جب کسی کا شوہر، کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوکر اپنے
آخری آرام گاہ میں نہ سوتا ہو۔سندھ میں سندھو دیش کا نعرہ بھی لگایا گیا یہ
سب کیا ہے ، یہ سب صورتحال کا اگر تدارک نہ کیا گیا تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ
پاکستان کس طرف بڑھ رہا ہے۔
پاکستان رہے ، اس کو استحکام حاصل ہو ، یہ تو ملک کے ہر شہری کی خواہش ہے
لیکن یہ استحکام اور ہم آہنگی کس طرح حاصل کی جائے اس پر شدید اختلافات
موجود ہیں۔ ویسے تو یہ سوچنا ہمارے سیاستدانوں کا کام ہے ، تو سوچیں جناب!
کب سوچیں گے جب وقت ہمارے اور آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اب بھی وقت ہے
تمام اربابِ اختیار جن کے کاندھوں پر ملک کی باگ دوڑ کی ذمہ داری ہے وہ
اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر صرف اور صرف ایک نکتہ ، پاکستان کی بقاءکے
بارے میں سوچیں اور اس کا فوری حل تلاش کریں ، یہ سب جب ہی ممکن ہو گا جب
یہ تمام لوگ ایک میز کے گرد بیٹھ کر اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر
پاکستان کے لئے سوچیں گے۔ امید کی کرن لیئے یہ پاکستانی عوام آج بھی آپ
لوگوں ہی کے بھروسے پر بیٹھی ہے کہ خدا انہیں ہدایت دے اور جلد از جلد اس
مسئلے کا سدِ باب ہو جائے۔
ماہرین کے ایک طبقہ کا یہ نظریہ ہے کہ یہ سارے فرقہ وارانہ فسادات بظاہر
تصادم کہلائے جاتے ہیں، لیکن ان فرقہ وارانہ و لسانی عصبیت کے نام پر
فسادات کی بنیادی وجہ سیاست ہے۔ ماہرین کے مطابق ان فرقہ وارانہ فسادات کو
دو قوموں اور دو مذاہب کا ٹکراﺅ نہیں ، بلکہ وہ سیاست دانوں کے مفادات کا
ٹکراﺅ کہا جا سکتا ہے۔ یہاں پر کئی سوال سر اٹھائے کھڑا ہے مگر ایک جو
لازمی جُز ہے وہ یہ کہ کیا سماج ان مفاد پرست سیاست دانوں ، آزاد میڈیا اور
مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے آگے مجبور ہے، کیا ہمارا جمہوری نظام ،
ہماری گورنمنٹ، ہماری پولیس، ہماری رینجرز، انتظامیہ اور کریمنل جسٹس سسٹم
فرقہ وارانہ فسادات کو اپنے مفادات کا ذریعہ بنانے والے سیاست دانوں کا
کھلونا ہے؟ افسوس ناک امر یہ ہے کہ نفرت کی سوداگری کے ذریعے سیاست میں
اپنا کریئر کے گراف کو تو اونچا اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر کیا ان
تمام افراد کو سزائیں ملیں گی جو ان تمام معاملات میں ملوث ہیں۔ آج تک تو
پاکستان میں ایسا نہیں ہوا ، اگر یہ کارہائے نمایاں ہو جاتا تو یہ ملک بھی
آج اپنے پیروں پر کھڑا نظر آتا۔
پاکستان کا معاشی حب، پاکستان کا دل، منی پاکستان کراچی میں اتنے لوگ اب تک
مارے جا چکے ہیں ، گھر جلائے جا چکے ہیں، لوٹ مار کی جا چکی ہیں بلکہ یہ
امر آج تک جاری ہے ، بڑے پیمانے پر نسل کشی بھی کرنے کی مضمون سازشیں تمام
میڈیا ، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہیں
لیکن جناب آج تک نہ کوئی خاطر خواہ گرفتاری ہوئی نہ کسی شخص کو سزا ملی۔ یہ
سوال ہے قوم کے جوانوں کا ؟ یہ سوال ہے قوم کے ماﺅں بہنوں کا ؟ یہ سوال ہے
قوم کے باضمیر بزرگوں کا؟ کہ آخر کب تک یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔ کب
ہمارے ملک میں بھی امن و امان کا راج ہوگا، کب ہماری عوام بنیادی ضرورتوں
سے مستفید ہوگی، کب ہم لوگ پاکستانی بن کر جینا سکیھیں گے۔ مغربی ملکوں نے
جو بیج بونے کی کوشش کی ہے وہ اپنے اس مذموم کوشش میں اپنے آپ کو کافی حد
تک کامیاب تصور کر رہے ہیں مگر ہماری آنکھیں پھر بھی بند ہیں۔
ہماری گہری نظر سے اگر پاکستانی عوام کچھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے تو
انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا، کراچی کی ایک جماعت
پر لسانی ہونے کے بے تحاشہ الزامات لگتے رہتے ہیں مگر حقیقتاً دیکھا جائے
تو پاکستان میں ہر سیاسی جماعت ہی لسانی بنیاد پر ووٹ لیتی رہی ہے۔پنجاب کی
جماعت پنجابی بنیاد پر ووٹ لیتا ہے ، سندھ کی جماعت سندھی زبان کی بنیاد پر
ووٹ لیتا ہے، خیبر پختونخواہ کی جماعت پختون زبان کی بنیاد پر اور بلوچستان
والے بلوچی زبان کی بنیاد پر ووٹ لیتے رہے ہیں اور ہماری قوم انہیں ووٹ سے
نوازتی رہی ہے۔ تو تجزیئے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ یہاں سب ہی نسل، زبان کی
بنیاد پر سیاست کرتے ہیں۔ بھائی کہنا یہ ہے کہ ہم پاکستان اور پاکستانی کی
بنیاد پر کب سوچیں گے؟
آج برما میں مسلمانوں کی جو نسل کشی کی جا رہی ہے ، اس پر کوئی آواز اٹھانے
والا نہیں، مغربی ملکوں کو یہ دہشت گردی نظر نہیں آ رہی ہے جہاں بچوں کو
زندہ جلایا جا رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ایک ہفتے میں برما
میں بیس ہزار لوگوں کو مار ا جا چکا ہے۔ اس سے پہلے بوسنیائی مسلمانوں کے
ساتھ بھی یہی عمل کیا جاتا رہا ہے، یہ تمام تاریخی حقائق ہیں جن کا سدِّباب
ضروری ہے، اس کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مگر سوال پھر وہی
آتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کا کون؟
ہمارے ملک کے حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ مغلوں کی سلطنت کا آخری
ایّام ہو، ظاہر ہے کہ میں نے وہ وقت تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن تاریخ کے
اوراق یہ بتاتے ہیں کہ مغلوں کے زوال کے اسباب ہمارے موجودہ اسباب سے کافی
ملتے جلتے ہیں۔ جہاں شاہی خاندان کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیاتھا
،شاہی لوگ اپنی من مانیاں کر رہے تھے، رعایا اپنے رب کے رحم و کرم پر تھی،
شاہی خاندان کے امراءکا یہ عالم تھا کہ عاملوں ، نوسر بازوں، جادوگروں پر
خزانہ لٹا رہے تھے۔ ریاستوں کے رجواڑے خود مختار ہونے کا اعلان کرنے میں
کوئی دقیقہ فرو گزشت نہیں کر رہے تھے۔ خام بہ دہن (میرے منہ میں خاک) آج
پاکستان میں بھی یہی سب کچھ کیا جا رہا ہے۔
جگہ جگہ بم دھماکے ہو رہے ہیں جن میں خونِ ناحق بہایا جا رہا ہے، امن و
امان کی صورتحال دگر گوں ہے، پورے پاکستان میں افرا تفری کا سماں ہے، اغوا
برائے تاوان زوروں پر ہے، تاوان نہ ملے تو بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ
اتار دیا جاتا ہے، کوئی غریب کتنی تگ و دو کے بعد ایک موٹر سائیکل قسطوں پر
لیتا ہے اور دوسرے ہی دن اس سے اس کی چیز نوکِ اسلحہ پر چھین لیا جاتا ہے،
یہ سارے کھیل اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنے طرح کے اور واردات روز افزوں ہو
رہے ہیں، مگر کوئی داد رسی کرنے والا نہیں ہے۔
خدارا یہ تماشا اب ختم کریں اور ملکِ پاکستان کے عوام الناس کو وہ سب کچھ
دینے کا سوچیں جس کے نہ ہونے کی وجہ سے احساسِ کمتری کا عنصر نمایاں نظر آ
رہا ہے۔ پاکستان کی ترقی کا سوچیں تاکہ یہاں کے لوگ بنیادی ضرورتوں سے
مستفید ہو سکیں۔ پاکستان کیلئے ایسا کار گزاری دکھائیں کہ ہم اور ہمارا
پاکستان بھی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔ وہ کہتے ہیں نا
کہ امید پر دنیا قائم ہے تو ہماری قوم بھی امید پر ہی جی رہی ہے اب دیکھنا
یہ ہے کہ ان کی یہ امید کب بَر آتی ہے۔ اس شعر پر اختتام کروں گا کہ کاش!
نگاہِ قہر سے دیکھا یہی غنیمت ہے
مجھے تو آپ سے اُمید اس قدر بھی نہ تھی |