پاکستان میں ڈرون حملوں کی ابتدا
2004ءمیں ڈمہ ڈولہ پرایک مدرسے پر حملے سے ہوئی جس میں 83طلباءشہید ہوئے اس
کے بعد یہ حملے وقتاََ فوقتاََ جاری رہے اس وقت ملک پر پرویزمشرف کی حکومت
تھی اس وقت اِن حملوں پر تمام تر سیاسی پارٹیوں نے شدید تنقید کی تھی اور
ان کی تمام تر ذمہ داری پرویزمشرف پر ڈالتے ہوئے انہیں بدترین ڈکٹیٹر اور
عوام کا قاتل قراردیابے شک پرویزمشرف ایک ڈکٹیٹر تھا جس کی بعض پالیسیوں نے
ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آج وہی
سیاسی پارٹیاں اقتدارکے اعلیٰ ایوانوں میں براجمان ہوکر بھی نہ صرف ان ڈرون
حملوں کوروکنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ عہدِپرویزی کے مقابلے میں اِن حملوں
کی تعداد میں بھی خوفناک حدتک اضافہ ہوگیا ہے جن میں ہزاروں سویلین اور
فوجی ہلاکتیں ہماری آزادی و خودمختاری کا منہ چڑارہی ہیں لیکن ہمارے اربابِ
اختیار کی آنکھیں اورکان بے گناہ پاکستانیوں کی خاک و خون میں لپٹی لاشوں
کو دیکھنے ،ہزاروں شہداءکے لواحقین کی آہ و پکار سننے اورکروڑوں عوام کے
احتجاج کی بجائے صرف وائٹ ہاؤس کی خوشنودی حاصل کرنے اور ڈالروں کی جھنکار
سننے کے عادی ہوچکے ہیں دوسری جانب ایمنٹسی انٹرنیشنل اور ہیومن رائیٹس واچ
سمیت کئی تنظیمیں بھی ان حملوں پر چیخ رہی ہیںاوران حملوں کو امریکہ کی
کھلی بدمعاشی قراردیتے ہوئے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرچکی ہیں لیکن
امریکہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کیوں کہ جہاں امریکہ کے اپنے
مفادات ہوتے ہیں وہاں دنیاکا کوئی قانون موم کی ناک سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا ان عالمی تنظیموں کے علاوہ بھی دنیامیں ایسے حق گو افرادکی بھی کمی
نہیں جو ان ظالمانہ حملوں پر امریکہ کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور ان حملوں میں ہونیوالی ہلاکتوں
کاذمہ دارامریکی صدراوبامہ کو ٹھہرارہے ہیں ۔ایسا ہی ایک بیان گزشتہ دنوں
ڈنمارک کے ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے منظرعام پرآیا جن کے
مطابق''صدراوباما کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف ڈرون حملے انتہائی دہشتناک
ہیں ،ڈرون حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں جن کاحق اوباماکو ہرگزحاصل
نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہاکہ بش کے مقابلے میں اوباما کے دہشتگردوں کے
خلاف اقدامات انتہائی قابل مذمت ہیںبش کے مقابلے میں اوباما کادورڈرون کے
حوالے سے زیادہ خوفناک ہے جس کااندازہ اس سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ
بش کے آٹھ سالہ دور میں 45ڈرون حملے ہوئے لیکن اوباما کے محض چارسالہ دور
میں اب تک261ڈرون حملے ہزاروں افراد کی جان لے چکے ہیں ''ابھی اس بیان کی
بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ اس نام نہادwar against terrorismمیں امریکہ کے
قریبی ساتھی برطانیہ کے 12ارکان ِ پارلیمنٹ نے امریکہ سے مطالبہ کردیاکہ''
امریکہ پاکستان میں ڈرون حملے فوری طورپر بندکردے کیوںکہ ان حملوں سے
انتہاپسندوں اوردہشتگروں کو انتقامی حملوں کاجوازمل جاتاہے یہ حملے پاکستان
کے عوام میں مغربی دنیاکیلئے بے پناہ نفرت کا باعث بن رہے ہیںجبکہ انہی
حملوں کے باعث برطانیہ کوکئی مرتبہ دہشتگردی کاسامناکرناپڑاہے لہٰذا امریکہ
فی الفوراِن غیرقانونی اور غیراخلاقی حملوں کو بندکرے ''ڈرون حملوں پریہ
ردعمل اُن ممالک کی جانب سے سامنے آیا ہے جو خود کسی نہ کسی صورت میں
امریکی اتحادی رہے ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نتیجے میں ہونیوالی پر ہلاکتوں
پرآخرکار وہاں کے لوگ بھی چیخ اٹھے ہیں اورہمارے ہاں جہاں آئے روز یہ ڈرونز
درجنوں پاکستانیوں کو خاک و خون میں نہلاجاتے ہیںمگر ہمارے سربراہانِ مملکت
کی طرف سے اب ان حملوں پر رسمی بیان بھی کبھی جاری نہیں ہوتا یہاں پرمیں آپ
کو اس دلچسپ واقعہ سے بھی آگاہ کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ 30ستمبر2011ءکو یمن
میں ہونیوالے ایک ڈرون حملے میں دوامریکی شہریوں انورالاولاتی اورسمیرخان
کے مارے جانے پراُن کے ورثاءنے اوبامہ انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم
کردیاہے جس میں یہ موقف اختیارکیاگیاہے کہ ''امریکہ اوریمن میں نہ
توباقاعدہ جنگ ہورہی ہے اور نہ ہی انورالاولاتی اورسمیرخان کسی قسم کی
دہشتگردی میں ملوث تھے لہٰذا ان دونوں کا ماراجانا امریکی و عالمی قوانین
کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ''اس اہم ترین
مقدمے نے امریکہ میں ڈرون حملوں کے جواز کے حوالے سے جو نئی بحث چھیڑی ہے
اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن یہاں سوال سواکروڑ کا یہ ہے کہ کیاپاکستان
میںانسانی حقوق کا راگ الاپنے والی سینکڑوں تنظیمیں ،ادارے یا عوام کے غم
میں مرے جانے کا تاثردینے والی کوئی سیاسی جماعت ڈرون حملوں کے خلاف اس طرز
کا کوئی مقدمہ امریکی انتظامیہ کے خلاف دائرکرنے کی سکت رکھتی ہے ؟ |