حکومت کو” پھبکی “ نوازشریف کو
تھپکی
امریکہ کی ڈبل گیم
سوات امن معاہدہ امریکی تحفظات اور پاکستان کا مستقبل
پاکستانی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے نیا امریکی منصوبہ
پاکستان کی جمہوری قوتوں کو باہم متصادم کرانے کی سازش
امریکہ کی جانب سے نواز شریف کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے اور وکلاء مارچ سے
دور رہنے کی امریکی تنبیہہ کے بعد بیشتر حلقوں کا خیال تھا کہ اب حکومت اور
مسلم لیگ میں جاری محاذ آرائی کا خاتمہ ہوجائے گا اور مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر
پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک و اتحاد کی سیاست کی جانب لوٹتے ہوئے حکومت کو
کمزور کرنے کی ہر قسم کی سرگرمی سے دور رہے گی اور تجزیہ نگاروں کے اس تجزیے
میں اس وقت حقیقت کا رنگ دکھائی دینے لگا جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماﺅں
نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مرکز اور صوبے کے درمیان تعلقات کار میں مزید بہتری
لانے کی ضرورت ہے۔ اس ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ پنجاب حکومت آزادی سے اپنا
کام کرے اور کسی قسم کی فکر مندی کا شکار نہ ہو جبکہ پنجاب نے سرحدی مقامات کی
نگرانی کے لئے وفاق سے مدد بھی مانگی !۔ ہم روز اول سے اس بات کے حامی ہیں
اوراس کا پرچارکر رہے ہیں کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی ایک
نئی ابتداء ہونی چاہیے تاکہ جمہوری قدریں مضبوط ہوں اور آمریت سے ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے جان چھوٹ جائے ۔ ہم نے جب بھی مرکز اور پنجاب کے درمیان رسہ کشی کو
محسوس کیا تو فریقین کو تحمل اور برداشت کی تلقین کی اور اس بات پر سختی سے زور
دیا کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مرکزی اور پنجاب حکومت کے درمیان گفتگو کا
سلسلہ نہیں ٹوٹنا چاہیے کیونکہ جب ڈائیلاگ کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے تو کئی
شیطان صفت لوگ درمیان میں آکر غلط فہمیوں کو مستقل دشمنی میں بدل دیتے ہیں اور
اس کھینچا تانی کا تمام تر فائدہ غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی ہیں۔اس کے بعد تجزیہ
نگاروں کی اس رائے کو مزید تقویت اس وقت حاصل ہوئی جب یہ اطلاعات موصول ہونی
شروع ہوئیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت وکلا لانگ مارچ سے خود کو علیحدہ رکھنے کا
فیصلہ کررہی ہے جس پر جماعت اسلامی اور عمران خان کی جانب سے خاصے سخت قسم کے
بیانات بھی سامنے آئے حتیٰ کہ وکلا قیادت نے تو یہ تک کہہ دیا کہ کسی ایک جماعت
کے دھرنے میں شریک نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ تجزیہ نگاروں کی رائے
پر اس وقت مہر تصدیق ثبت ہوگئی جب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے متحدہ قومی
موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ملاقات کر
کے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو نیک خواہشات کا پیغام بھیجا جس نے قوم کو یہ
عندیہ دیا کہ 12مئی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے متحدہ قومی موومنٹ کےلئے موجود
تحفظات کی برف نے پگھلنا شروع کردیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ سے کبھی کوئی
سیاسی رابطہ نہ رکھنے کا اعلان کرنے والے نوازشریف اب شاید حکومت میں شامل
سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے رکھنے کی کوشش ضرور رکھیں گے ۔ابھی تجزیہ نگاروں
کی اس صائب رائے نے عملی صورت اختیار کرنی شروع ہی کی تھی کہ موجودہ حکومت میں
شامل اتحادی جماعت کی سرحد حکومت نے مالاکنڈ اور سوات میں قیام امن کےلئے
عسکریت پسندوں سے مذاکرات میں کامیابی کے حصول کےلئے نظام عدل و امن معاہدہ کیا
جس کے بعد جہاں ایک جانب سوات اور مالا کنڈ میں ایک طویل عرصہ بعد امن و سکون
دکھائی دیا اور عوام نے خوشی کے شادیانے بجائے وہیں مغربی قوتوں ‘ امریکہ اور
بھارت کی جانب سے تحفظات کے گیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دورہ پاکستان و
بھارت سے واپسی کے بعد واشنگٹن پہنچنے والے امریکی صدر کے خصوصی ا یلچی برائے
افغانستان و پاکستان رچرڈ ہالبروک نے یہ کہہ کر پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل
پیدا کردی کہ نائن الیون‘ ممبئی حملے اور سوات پر قبضہ کرنے والوں کی جڑیں ایک
ہی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ علاقہ برے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے‘ انہوں
نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہیں بڑھ گئی ہیں
جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ سوات امن معاہدے اور مالاکنڈ نظام عدل کے
معاملے پر پاکستان کی موجودہ قیادت سے مکمل طور پر خائف ہوچکا ہے مگر دوسری
جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ موجودہ حالات میں پاکستان کے سیاسی سیٹ اپ میں
کسی بھی قسم کی تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کے پاس موجودہ سیاسی حکومت
کے تحفظ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لیکن اگر امریکہ کسی معاملے پر شکست
مان لے تو پھر وہ دنیا کی سپر پاور کیوں کہلائے اس لئے اس نے موجودہ حکومت کو
”پھبکی “ دینے کےلئے مسلم لیگ (ن) کو تھپکی دے دی ہے جس کا ثبوت گزشتہ روز رائے
ونڈ کے جنرل ورکرز اجلاس میں میاں نواز شریف کے خطاب سے ملتا ہے جس میں انہوں
نے موجودہ حکومت اور آصف زرداری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدر
آصف زرداری تین نومبر کے اقدامات پر توثیق چاہتے تھے اور میری جانب سے انکار کی
صورت میں اب وہ مجھے اور شہباز شریف کو نااہل قرار دینے کی سازش کررہے ہیں ‘
انہوں نے وکلاء تحریک کو کامیاب بنانے اور ان کے دھرنے میں بھرپور شرکت کا
اعلان کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر دھرنے سے بھی جج بحال نہ ہوئے تو اس سے بھی
ایک قدم آگے بڑھا جائے گا جبکہ اپنی تقریر میں میاں نواز شریف نے بار بار اپنی
اور بل کلنٹن کی دوستی اور ماضی کے ان تعلقات کا حوالہ دیا جو 2000ءسے قبل میاں
صاحب اور بل کلنٹن کے درمیان قائم تھے ۔ انہوں نے اس تقریر میں اس بات کا دعویٰ
کیا کہ ان کے سابقہ تعلقات آج بھی پہلے کی طرح برقرار ہیں ۔
میاں نوازشریف نے اپنی پوری تقریر میں ڈھکے چھپے انداز سے اس بات کا اشارہ دینے
کی کوشش کی کہ انہیں امریکہ کی آشیرباد و حمایت حاصل ہوچکی ہے جس کے بل بوتے پر
وہ وکلا تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو رخصت کرانے یا اپنے مطالبات منوانے میں
کامیاب ہوجائیں گے ۔
میاں صاحب کی تقریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سوات امن معاہدے پر موجودہ حکومت
سے ناراض ہونے والے امریکہ نے ”ڈبل گیم “ کھیلنے کا منصوبہ بنالیا ہے جس کےلئے
اس بار وہ میاں صاحب کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کی تکمیل کےلئے اس
نے ”تھپکی “ دے کر میاںصاحب کو میدان عمل میں اتاردیا ہے تاکہ 12مارچ کو ہونے
والے وکلا دھرنے میں عوام کا ایک وسیع سمندر اکھٹا ہوجائے اور پیپلز پارٹی کی
حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کے وہ مطالبات بھی ماننے پڑ
جائیں جن کے ایجاب و قبول سے وہ ابھی تک ”انکاری “ ہے ۔
امریکہ کی اس ڈبل گیم کا اگلا ہدف وکلا دھرنے میں تخریب کاری بھی ہوسکتا ہے
جیسا کہ اندیشہ ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ”را“ نے وکلاء دھرنے کے موقع پر بڑی
تخریب کاری کے ذریعے لاہور کو ”قبرستان“ بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس سے
جہاں ایک جانب طالبان کے سوات سے نکل کر پاکستان کے بڑے شہروں میں پھیلنے کا
ثبوت فراہم کرکے حکومت کو امن معاہدے پر نظر ثانی یا اس کے خاتمے کےلئے مجبور
کیا جاسکتا ہے وہیں وکلا دھرنے میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کے نتیجے میں
وکلاء تحریک کو تشدد کا رنگ دے کر اس پر امن تحریک کو ایک سازش کے ذریعے حکومت
اور وکلا کے درمیان پر تشدد محاذ آرائی بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی تاکہ وطن
عزیز میں خانہ جنگی اور ”لا اینڈ آرڈر “ کا مسئلہ پیدا کرکے حکومت کو ”ڈو مور “
کے لئے مجبور کیا جاسکے جبکہ طالبان کے پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیل جانے کو
ثابت کر کے ڈرو ن حملوں کے دائرہ کار کو بڑھانے میں بھی مدد مل سکے جس کا عندیہ
امریکہ پہلے ہی دے چکا ہے کہ طالبان کی موجودگی کی اطلاع پر ہر علاقے میں جاسوس
طیاروں کے حملے کئے جائیں گے ۔
میاں نوازشریف کو امریکہ کی موجودہ ”تھپکی “ سے کچھ وقت کےلئے ”سیاسی بازار “
گرم کرنے کا موقع تو ضرور ملے گا مگر قرائن بتارہے ہیں کہ ابھی اقتداران سے
میلوں کی مسافت پر ہے جس کےلئے انہیں ابھی چھ سے آٹھ ماہ کا انتظار کرنا ہوگا
البتہ ان کی سیاسی گرمی یا سرگرمی امریکی مفادات کے حصول کےلئے حکومت کو بلےک
میل کرنے کا ”وسیلہ “ ضرور بنے گی جو کسی بھی طور ملک و قوم اور جمہوریت کے
مفاد میں نہیں ہوگا ۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ کی ”ڈبل گیم “ اور بھارتی انٹیلی
جنس ” را “ کی منصوبہ بندی سے وکلاء دھرنے کا پر امن انعقاد بھی خطرے میں
دکھائی دے رہا ہے کیونکہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی
دہشت گرد اس موقع پر وکلاء اجتماع کو خود کش حملوں کا نشانہ بناکر بڑے پیمانے
پر جانی نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کریں گے تاکہ وکلا کے پرامن احتجاج کو تشدد
میں ڈھال کر امریکی و سامراجی مفادات کا حصول ممکن بنایا جاسکے جبکہ لاہور سے
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ”را “ کے کئی ایجنٹوں کی گرفتاریاں اس خدشے کو تقویت دے
رہی ہیں ‘ اسلئے جہاں ایک جانب امن و امان کو یقینی بنانا حکومت اور متعلقہ
اداروں کی ذمہ داری ہے وہیں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی موجودہ حالات اور وطن
عزیز کے خلاف سامراجی سازشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دانشمندی کا مظاہرہ کرنا
ہوگا اور سیاسی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی بصورت دیگر امریکہ
بھارت اور اسرائیلی کمانڈوز کی مدد سے پاکستان کے گرد اپنا آخری شکنجہ کسنے کی
تیاریاں مکمل کرچکا ہے اب اس شکنجے کے کسے جانے میں کون کیا کردار اداکرے گا اس
کا اظہار تو آنے والے وقت سے ہی ہوگا لیکن ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ ہماری تمام
قیادتوں کو اتحادو اتفاق اور دانشمندی سے ملک و قوم کی خدمت کرنے میں کامیاب
بنائے اور وطن عزیز کو آنے والے ہر برے وقت سے محفوظ فرمائے ۔ آمین |