بالآخر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں
نواز شریف نے وکلاء تحریک کی جانب سے مارچ میں کئے جانے والے لانگ مارچ اور
دھرنے میں بھرپور شمولیت کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان انہوں نے وکلاء کے ایک اعلیٰ
سطحی نمائندہ وفد سے ملاقات کے بعد جاری کیا۔ میاں نواز شریف کے اعلان سے یہ
بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ وہ اب موجودہ گورنمنٹ اور سیٹ اپ کو برداشت کرنے کے
حق میں نہیں ہیں اور معاملہ مڈٹرم الیکشن کے مطالبے کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔
جہاں ان کے اس چونکا دینے والے اعلان سے اندرون ملک اور بیرون ملک عوام میں ان
کی ساکھ مزید بہتر ہوئی ہے وہیں ان کا یہ فیصلہ ان قوتوں کے لئے قطعی طور پر
ناقابل قبول ہے جو موجودہ نظام اور اسٹیبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ لوگ
جو نہتے وکلاء کے لانگ مارچ اور دھرنے سے ہی پریشان دکھائی دیتے تھے، مسلم لیگ
کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے ہیں کیونکہ یہ بات اظہر من
الشمس ہے کہ مسلم لیگ کے پاس افرادی قوت اور متوالے بہرحال موجود ہیں جو اپنے
قائد کی آواز پر ضرور لبیک کہیں گے۔ میاں نواز شریف نے تو دھرنے سے بھی ایک قدم
آگے جانا کا برملا اظہار کردیا ہے۔ یہ ”ایک قدم“ کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ
حکومت اور اس کے حامیوں کو یقیناً ہوگیا ہوگا۔ دھرنے کے اعلان سے مسلم لیگ (ن)
پر فرینڈلی اپوزیشن کا داغ بھی دھل گیا ہے اور مسلم لیگ حقیقی معنوں میں
اپوزیشن نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ میاں نواز شریف کے اعلان نے جہاں وکلاءتحریک
میں ایک نئی جان ڈال دی وہیں حکومتی وزراء اور حامی اس فیصلے کو سیاسی نا عاقبت
اندیشی اور غلط فیصلے سے تعبیر کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے اس فیصلے کے پیچھے
جہاں مسلم لیگ کی ساکھ کا سوال تھا وہیں ان کی اور شہباز شریف کی نا اہلیت،
پنجاب حکومت کا مستقبل، پنجاب میں گورنر کی بڑھکیں اور دھمکیاں بھی شامل رہی
ہوں گی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) میں بھی ان ”لیڈروں“ کی کمی نہیں جو موجودہ نظام
کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں لیکن دھرنے میں شمولیت اور بھرپور شمولیت کے
اعلان سے میاں نواز شریف نے ان ”لیڈروں“ کو نہ صرف کارنر کردیا ہے بلکہ الیکشن
سے پہلے کئے جانے والے وعدے کو عملی صورت بھی دیدی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے
اراکین پارلیمنٹ 2 نومبر 2007 والی عدلیہ کی بحالی کے لئے بھرپور کوشش کریں گے۔
مسلم لیگ کی جانب سے دھرنے کے فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ میاں نواز شریف اب
اپنے کئے گئے وعدے کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جانے اور کوئی بھی قیمت چکانے
کو تیار ہیں اور اسی کا سہارا لے کر نئے الیکشن کی تیاری بھی شروع کر دی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء جن میں منظور وٹو، نبیل گبول ،خورشید شاہ وغیرہ اور
فرحت اللہ بابر بھی شامل ہیں، نے بیانات دیے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ ہے، نبیل
گبول کا بیان تو دھمکی آمیز ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گرد داخل ہونے والے ہیں
اور لانگ مارچ اور دھرنے کے وقت کوئی ”ناخوشگوار“ واقعہ بھی پیش آسکتا ہے۔ اس
بیان کا مقصد وکلاء اور عوام کو ڈرانے کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن شاید
گبول صاحب کے علم میں نہیں کہ کسی قسم کی دھمکی وکلاء کو اس تحریک سے نہ روک
سکی ہے اور نہ ہی روک سکے گی۔ شیخ رشید نے بھی کہا ہے کہ ججز بحال ہوں یا نہ
ہوں، مارچ میں کچھ ہوگا ضرور! ایک عجیب قسم کی کچھڑی پک رہی ہے جس کی کسی کو
سمجھ نہیں آرہی۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ پاکستان کے عوام، سیاسی جماعتیں،
خصوصاً وکلاء دوبارہ کسی بھی قسم کی فوجی آمریت یا طالع آزمائی کو برداشت کرنے
کو تیار نہیں اور فوج بھی بحیثیت ادارہ موجودہ حالات میں کسی مداخلت کے حق میں
ہرگز نہیں!
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سے از سر نو رابطے اور
اسفند یار ولی کی جانب سے حکومت چھوڑنے کے بیانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کی جمہوری قوتیں پارلیمنٹ کی بالا دستی اور سول
شخصی آمریت کے خاتمہ کے لئے آہستہ آہستہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے والی ہیں
اور عنقریب مڈٹرم الیکشن کی تیاری کرتی نظر آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اندر وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت رہنماﺅں کی اکثریت بھی پارلیمینٹ کی بالادستی پر
یقین رکھتی ہے اور موجودہ سیٹ اپ سے بےزار دکھائی دیتی ہے، جلتی پر تیل بیرسٹر
اعتزاز احسن کی رکنیت کی معطلی نے ڈالا ہے، جس کی پیپلز پارٹی سے وابستہ عوام
اور پورے ملک میں ان کے چاہنے والے لوگوں نے بھرپور مذمت کی ہے۔ عوام یہ سمجھتے
ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے وعدوں سے روگردانی پیپلز پارٹی پر قابض ایک شخص اور
اس کے ذریعہ مفاد حاصل کرنے والے گنتی کے چند لوگ کسی بیرونی ”حکم“ پر کررہے
ہیں۔ اور اس ایک وجہ سے پیپلز پارٹی کا گراف، جو بینظیر بھٹو کی شہادت پر بہت
اوپر چلا گیا تھا اب زمین کے ساتھ لگ چکا ہے، جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے
نہ صرف اپنے وعدے کا بھرم رکھا ہے بلکہ وہ اس ایک Issue پر بھرپور سیاست کررہی
ہے، یہاں تک کہ اس نے میاں برادران اہلیت کیس اور پنجاب حکومت بھی داﺅ پر لگا
دی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ حکومت میں
آنے کےلئے ایک اور شہید کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ حالات کیا کروٹ لیتے ہیں، یہ تو
آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اس وقت تک وکلاء تحریک کے
نہ صرف شانہ بشانہ کھڑی ہیں بلکہ دھرنے کے بھی حق میں ہیں۔ جماعت اسلامی تو
پہلے ہی دھرنوں کے معاملات میں شہرت کی حامل ہے اور دھرنا ایکسپرٹ سمجھی جاتی
ہے۔ سپریم کورٹ بار کے صدر اور وکلاء تحریک کے قائد علی احمد کرد ملک کی باقی
جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اگر وکلاء قیادت اسی طرح
پورے ملک کی جمہوریت پسند اور آزاد عدلیہ کی حامی قوتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں
کامیاب ہوگئی، جس کی امید بھی کی جارہی ہے اور دھرنے کے حوالے سے باقاعدہ
پلاننگ کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئی تو کوئی وجہ نظر نہیں
آتی کہ وکلاء تحریک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اگر سوچ
سمجھ کر، سب ساتھیوں کو اعتماد میں لے کر پلاننگ کی جائے اور اس پر عمل بھی
کرایا جائے تو وکلاء تحریک دنیا کی سیاسی تحریکوں میں شاید سب سے کامیاب تحریک
ثابت ہوجائے۔ دوسری جانب حکومت لانگ مارچ کی حد تک تو کسی طرح برداشت کرنے کو
تیار تھی لیکن دھرنا اس کے لئے قطعاً ناقابل برداشت ہے۔ اگر صرف وکلاﺀ، مسلم
لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی افرادی قوت پر بھی انحصار کیا جائے
تو ایک محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ سے تین لاکھ افراد کا اسلام آباد میں
اکٹھا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔ حکومت کے پاس کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت
اسلام آباد میں کم سے کم لوگوں کو پہنچنے دیا جائے اور اکثریت کو روک دیا جائے
جبکہ پنجاب میں حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کی ہو؟ پہلا طریقہ تو دہشت گردی کا خطرہ
یا کوئی عملی کوشش، دوسرا طریقہ طاقت کا استعمال اور تیسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے
کہ کسی بیرونی اثر کے تحت مسلم لیگ (ن) کو دھرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے
جس طرح الیکشن سے پہلے مسلم لیگ (ن) سے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس کروایا گیا تھا،
کیونکہ حکومتی زعماء کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کی عدم شمولیت سے بہت بڑے اجتماع
کا خطرہ ٹالا جا سکے گا۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ راولپنڈی شہر کا لانگ مارچ
اور دھرنے میں ایک کلیدی کردار نظر آرہا ہے اور وہاں کے عوام کی اکثریت مسلم
لیگ نواز کی حامی بھی ہے اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا بھی اچھا خاصا
اثر ہے۔ پہلے دونوں طریق ہائے کار اگر استعمال میں لائے گئے تو تحریک کم ہونے
کی بجائے مزید تیز ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی قسم کی دہشت گردی
ہوئی تو وہ حکومت کی جانب سے تصور ہوگی اور طاقت کا استعمال تو ہوگا ہی حکومت
کی طرف سے۔ اگر تیسرا طریقہ کامیاب ہوتا ہے تو دھرنے میں وکلاﺀ، جماعت اسلامی
اور تحریک انصاف جبکہ اے پی ڈی ایم میں شامل بعض چھوٹی جماعتیں رہ جاتی ہیں جو
اگر دلجمعی ، ہمت اور حوصلے سے کام لےکر دھرنا دیں تو بھی اچھے نتائج نکل سکتے
ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اپنے دھرنے کے فیصلے سے
پیچھے ہٹ سکتی ہے؟ کیا وہ ایک بار پھر کسی وعدے یا گارنٹی کو قبول کر کے اپنی
ساکھ اور اپنے گراف کو ملیا میٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ جواب یقیناً نفی میں ہے۔
مسلم لےگ (ن) اب دوبارہ فیصلہ بدلنے والے ”رسم و رواج“ پر عمل پیرا ہوکر اپنے
پیروں پر کلہاڑی نہیں چلاسکتی خصوصاً اس وقت جب میاں برادران کی اہلیت کا کیس
بھی نتیجہ خیز ہونے والا ہے اور نظر یہی آرہا ہے کہ انہیں نا اہل قرار دلوا دیا
جائے گا اور پنجاب میں بھی جوڑ پڑنے کا قوی امکان ہے۔
عدلیہ بحالی تحریک اصل میں کسی ایک جج یا شخصیت کے لئے نہیں بلکہ پسے ہوئے، دبے
ہوئے اور دھنسے ہوئے عوام اور اس ملک کی آنے والی نسلوں کے لئے ہے، انصاف کی
ضرورت سب سے زیادہ غریبوں کو ہوتی ہے یا انویسٹرز کو ۔ غریبوں کو اپنے سے امیر
اور فیوڈلز کے خلاف اور انویسٹرز کو حکومت کے خلاف۔ اگر انصاف فراہم کرنے والے
ادارے کمزور اور ناتواں ہوں گے، اگر وہ انصاف کرنے میں ناکام ہوں گے تو عام
آدمی دو طرح سے پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔ امیر آدمی اس کا حق چھین لیتا ہے اور
انویسٹرز کے نہ آنے سے اس کو روزگار نہیں ملتا۔ غریب آدمی کا لائق بچہ بھی کہیں
داخلہ نہیں لے سکتا اور امیر کا نالائق بچہ کسی بھی طریقہ سے نمبر بڑھوا کر اس
سے آگے نکل جاتا ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کو ججز کی بحالی سے ختم نہیں ہونا چاہئے
بلکہ اس کو اس وقت تک جاری رہنا چاہئے جب تک کہ اس ملک میں واقعتاً عدل و انصاف
قائم نہ ہوجائے۔ کیونکہ عدل و انصاف سے ہی قوموں کی بقاء ہوتی ہے اور عروج حاصل
ہوتا ہے۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وکلاء اور
سیاسی جماعتوں میں کالی بھیڑوں کو نہ صرف فیصلہ سازی سے باہر رکھا جائے بلکہ
انہیں کسی بھی طرح عدلیہ بحالی اور 3 نومبر 2007 کے سیاہ اقدامات کی نفی کے اس
مقصد میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اگر اس بار بھی کسی ”اپنے“ یا
”بیگانے“کے کسی تنہا فیصلے سے معاملات کو چلانے کی کوشش کی گئی اور خدانخواستہ
لانگ مارچ اور دھرنا کامیاب نہ ہوسکے تو شائد اگلے اکسٹھ برس بھی ایسے ہی گزر
جائیں، اور رہ جائے بزدل اور بے حمیت عدلیہ، لولی لنگڑی جمہوریت اور بے یار و
مددگار عوام |