ملوکیت کا سب سے بڑا عیب یہ ہے
کہ اس میں شاہی خاندان کے افراد کو اقتداروراثت میں منتقل ہو جاتا ہے ۔
اقتدار کے حصول میں ان کے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کا کوئی کردار نہیں
ہوتا اور نہ ہی ان کی نااہلی اس راہ میں حائل ہوتی ہے ۔ جمہوریت کا دعویٰ
ہے کہ اس کے یہاں یہ کمزوری نہیں پائی جاتی ۔ نظری سطح پر اگر یہ بات درست
بھی ہو تب بھی عملاً اس میں کس قدر سچائی ہے یہ تحقیق طلب موضوع ہے ۔ مثلاً
پاکستانی جمہوریت کے اندربعد از انتخاب اکثریتی جماعت کا ایک بدنام ِ زمانہ
بدعنوان شخص محض اپنی رشتہ داری کے باعث صدارت کے عہدہ پر فائز ہوگیا ۔اب
اسے بچانے کی خاطر عوام کاایک منتخب شدہ وزیر اعظم بلی کا بکرا بن گیا اور
دوسرا مذبح خانے کی جانب ہانکا جارہا ہے لیکن اس بدعنوان صدر کے آگے
جمہوری نظام بے دست و پا ہے ۔ جمہوریت نواز یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کیا
جانے جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے ؟ وہاں کا جمہوری نظام ناقص ہے اس لئے اس
کی مثال دینا مناسب نہیں ہے ۔ چلئے مان لیا ہندوستان تشریف لائیے جسے دنیا
کی سب سے بڑی جمہوریت ہونےپر فخر ہے ۔
سارے جہاں سے اچھے ہندوستان کے اندر ابھی حال میں صدارتی انتخاب کا انعقاد
ہوا جس میں حزب اختلاف کے کئی ارکان نے اپنے امیدوار پی اےسنگما کے خلاف
پرنب مکرجی کو ووٹ دیا ۔ اب اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ایسا ضمیر کی
آواز پر کیا گیا تو اس بیچارے کو یہ نہیں پتہ کہ ہمارے سیاست دانوں کا
ضمیرکب کا مر چکا ہے ۔اب جس چیز کا وجود ہی نہ ہو اس کی آواز اگر آئے بھی
تو کیسے ؟اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر کیا جانے والایہ
انفرادی فیصلہ ہے تو وہ نہیں جانتا کہ نظریاتی حیثیت سے پرنب اور سنگما کے
درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا نیز جن سیاستدانوں کو دولت کے علاوہ کوئی
چیز نظر ہی نہیں آتی ہو ان سے نظریات کی پاسداری چہ معنی دارد ۔ان دونوں
متبادل کے بعد وہی ایک وجہ باقی رہ جاتی ہے جو کہ اصل حقیقت ہے ۔ ان لوگوں
نے اپنے ووٹ کو نوٹ کے بدلے فروخت کر دیا ۔ جس ملک میں عوام کے نمائندے
اپنی رائے بیچنے سے گریز نہیں کرتے وہاں عام آدمی اگر ایسا کرتا ہے تو اس
میں کون سی بڑی بات ہے ۔نیز جس رائے عامہ کو زر خرید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ
بدل دیا جاتا ہو اورعوام و خواص کی حمایت کو روپیوں کے عوض خرید لیا جاتاہو
اسے سرمایہ داری تو کہا جاسکتا ہے لیکن جمہوریت نہیں یہ اور بات ہے کہ فی
الحال ان دونوں نے مل جل کر اپنا گھر بسا لیا ہے۔
پرنب داکے صدرِ مملکت بن جانے سے ان کا اپناایک فائدہ تو یہ ہوا کہ تمام
بدعنوانی کے الزامات سے تحفظ حاصل ہو گیا اور اسی کے ساتھ جمہوری نظام کے
اندر موجود عدم مساوات کا راز بھی فاش ہوگیا اور تو اور انا ہزارے نے بھی
جو بدعنوانی کے خلاف تاحیات بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں پرنب مکرجی کو نہ
صرف کلین چِٹ بلکہ مبارکباد کا پیغام بھی دے دیا ۔ اگر پرنب یوپی اے اور
این ڈی اے کے مشترکہ امیدوار ہوتے تو شاید یہ بات اروند کیجریوال کے گلے سے
اتر جاتی لیکن چونکہ بی جے پی نے ان کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کر دیا تھا
اس لئے یہ مسئلہ انا جی کی ٹیم کے اندر اختلاف کا سبب بن گیا ۔پرنب دا جب
تک وزیر خزانہ رہےانہوں نے وزیر اعظم کو لوک پال سے ماوراء رکھنے کی بھرپور
وکالت کی اور جاتے جاتے مخالفین میں پھوٹ ڈالکر ان کا بھلا کر گئے ۔
پرنب مکرجی کے صدر بن جانے کے بعدراہل گاندھی کے راستہ کی ایک رکاوٹ دور
ہوگئی اور اب دگوجئے سنگھ نے ان کو بڑی ذمہ داری دینے کی خبریں ذرائع ابلاغ
میں پھیلارہے ہیں ۔ فی الحال کانگریس پارٹی کا سب سے بڑا بھوپوںسنگھ کے
علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔پرنب مکرجی ویسے تو ملک کے وزیر خزانہ تھے لیکن
پارلیمان کے اندر حکومت کا دفاع اور باہر مخالفین سے پنجہ آزمائی ان کی
اہم ذمہ داریاں تھیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں محاذپربڑی خوبی سےانہوں
نے اپنے کام سر انجام دیا ۔وہ ایوان زیریں میں کانگریس کےرہنما کی حیثیت سے
نااہل وزیر پارلیمانی امور اور باہر بد عنوان وزیر داخلہ کا متبادل بنے رہے
۔پرنب کی بہترین کارکردگی کے انعام میں انہیں ربر اٖسٹامپ بنادیا گیااوران
کے اہم ترین قلمدان کو جس انداز میں پُر کیا گیا اس سے جمہوریت کی جانب سے
کئے جانے والے صلاحیت اور اہلیت کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھل گئی ۔
شمالی و مشرقی ہنددنیا کے سب سے بڑا بجلی سانحہ کی زدمیںتھا ۔ ۲۲ ریاستوں
کے۳۳ کروڈ عوام کو اس نےپریشان کر رکھا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا جس وزیر
توانائی کےزیرِ نگرانی یہ سنگین صورتحال رونما ہوئی اس سے فی الفور استعفیٰ
طلب کرلیا جاتا بلکہ اس کی نااہلی کے باعث عوام کو ہونے والی دشواریوں کے
پیشِ نظر اسے جیل بھیج دیا جاتا لیکن بد قسمتی سے سشیل کمار شندے کا شمار
فی الحال گاندھی خاندان کے سب سے زیادہ وفادار لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ان کا
تعلق دلت ذات سے ہے اور کانگریس کویہ غلط فہمی ہے کہ وہ دلت ووٹرس کومایا
وتی سے توڑ کانگریس کی جھولی میں لے آئیں گے اس لئے انہیں ترقی دے کر وزیر
داخلہ بنا دیا گیا گویا حکومت میں دوسرے نمبر کی سب سے اہم ذمہ داری پر ایک
ایسے شخص کو فائز کیا گیا جس کی نااہلی کا سورج بڑی شان سے چمک رہا تھا اور
ملک کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔وزارتِ توانائی میں ہوتے ہوئےجو
شخص اجالا نہیں پھیلا سکا وہ وزیر داخلہ بن جانے کے بعد ملک میں کس قدر
تاریکی پھیلائے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان کی ۱۲۰ کروڈ عوام میں ایک آدمی بھی شندے سے
زیادہ اہل نہیں ہے اور اگر ہے تو یہ اہلیت کا دعویدار نظام اس کو کیوں نظر
انداز کرتا ہے ؟
سیاست کی معمولی شد بد رکھنے والا شخصبھی جانتا ہے کہ وزیر داخلہ کا قلمدان
وزیر خزانہ سے زیادہ اہم ہے۔اس کے باوجود آخرچدمبرم نے اعلیٰ کو چھوڑ کر
ادنیٰ پر اکتفا کیوں کیا؟ اگر یہ ان کی نااہلی کی سزا ہے تو بہت کم ہے
۔آسام میں جس قدر حفاظتی دستوں کی ضرورت تھی اس کی عدم فراہمی کا اعتراف
خود کانگریسی وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے کیا ہے ۔اس کوتاہی کیلئے براہِ
راست وزیر داخلہ ذمہ دار ہے ۔اسی لئے چدمبرم کے دورۂ آسام کے دوران مختلف
کیمپوں میں ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی ۔یہ شیو راج پاٹل سے بڑی نااہلی
تھی اس لئے انہیں بھی گھر بھیج دیا جانا چاہئے تھا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے
کہ آسام میں ۵۶ معصوموں کی ہلاکت اور ۴ لاکھ لوگوں کے امدادی کیمپوں میں
پناہ گزین ہونے کا اعتراف جس روز چدمبرم نے کیا اسی روز قومی خزانے کی
کنجیاں ان کے حوالے کر دی گئیں ۔ کیا یہی اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد ہر ذمہ
داریوں کی تقسیم کا طریقۂ کارہے ؟
چدمبرم جیسا نااہل اور خر دماغ وزیر داخلہ ہندوستان کی تاریخ میں کوئی اور
نہیں گزرا ہوگا ۔ مسلمانوں کے ساتھ جس بے اعتنائی کا رویہ اس شخص نے اختیار
کیا ایسا تو شاید اڈوانی نے بھی اپنے دورِ وزارت میں نہیں کیا ہوگا ۔ وہ
لوگ کم از کم دکھاوے کی خاطرمروت کا اظہار کر دیتے تھے لیکن یہ تو اپنے کبر
وغرور کے نشہ میں کچھ سننے کا روادار نہیں تھا ۔ خود اپنی جماعت کی جانب
سےمدعو مسلم رہنماؤں کے وفد سے جو شخص یہ کہتا ہے آپ کس کی نمائندگی کرتے
ہیں میں نہیں جانتا وہ عام مسلمانوں سےکیسا رویہ اختیار کرتا ہوگا اس کا
نادزہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے ۔جو اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتا کہ
مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تحٖفظ ہے اورمعصوم مسلم نوجوانوں کوبیجا
گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں وہ بھلا ان گرفتاریوں کو کیسے روکے گا اور ملت
کو تحفظ کیونکر مہیا کرے گا ؟ لیکن بہر حال مشیت نے اسے مجبور کیا کہ وہ
ازخود وزارت داخلہ کے اہم ترین قلمدان سے دستبردار ہوجائے ۔
چدمبرم اگر چاہتے تو سونیا گاندھی سے کہہ کر اپنا قلمدان محفوظ رکھوا سکتے
تھے ۔ اس صورت میں سشیل کمار شندے کو وزیر خزانہ بنا دیا جاتا ۔ شندے کیلئے
وزارتِ خزانہ بھی فائدے ہی کا سودا تھا اور وہ اسے بخوشی قبول کر لیتے لیکن
اپنے بدعنوانی کے معاملات پر قابو پانے کیلئے چدمبرم پرانے شعبہ میں واپس
لوٹنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ چدمبرم پر لگنے والے بدعنوانی کے سارے بڑے
الزامات اس دور کے ہیں جب وہ وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے ۔ وزارتِ خزانہ کی
فائلوں میں ایسے بے شمار ثبوت دفن ہیں جن کی بنیاد پر چدمبرم کو اےراجہ کے
ساتھ تہاڑ جیل میں چکی پیسنے کیلئے جانا پڑسکتا ہے ۔ کرپشن میں نہ صرف وہ
بلکہ ان کا لڑکا کارتک بھی ملوث پایا گیا ہے ۔ اپنے خلاف شواہد کو مٹانے کی
خاطر چدمبرم نے بادلِ ناخواستہ ایک پائیدان نیچے اترنے کی رسوائی گوارہ
کرلی ہے۔
چدمبرم کے وزیر خزانہ بن جانے سے عوام میں کوئی جوش و خروش دکھلائی نہیں
دیا اس لئے کہ وہ حکومت کی جانب سے کسی بھی خیر و فلاح کی توقع نہیں رکھتے
۔ لیکن صنعت و حرفت کی دنیا میں خوشی کی لہر ضرور دوڑ گئی اس لئے کہ ان کا
وہ پرانا دوست لوٹ آیا جسے کھلا پلا کر قومی خزانے کو جی بھر کے لوٹا
جاسکتا ہے ۔چدمبرم اور ان کے بیٹے کارتک پر نہ صرف مواصلاتی گھپلوں میں
بلکہ اسلحہ کی دلالی میں ملوث ہیں بلکہ سیوا گنگا میں اپنے آپ کو کامیاب
کروانے کیلئے وزیر داخلہ کی حیثیت سے نتائج پر اثرانداز ہونے کی انتخابی
بدعنوانی کابھی ان پر الزام ہے ۔
ملک میں فی الحال لوک پال کے حوالے سے بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک چلرہی ہے
ایسے میں انڈیا اگینسٹ کرپشن نامی تنظیم نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں
وزیر اعظم منموہن سنگھ کی وزارت میں شامل ۱۵ وزراء کے خلاف سنگین بدعنوانی
کے معاملات کی تفصیل درج ہے ۔ ان وزراء میں خود منموہن سنگھ اور پرنب مکرجی
کا نام بھی شامل ہے جو اب صدرِ مملکت ہیں ۔ یہ کوئی اناہزارے یا بابا رام
دیو کا جذباتی بیان نہیں ہے بلکہ بڑی تفتیش و تحقیق کے بعد تیار کی گئی ایک
۷۹ صٖفحات پر مشتمل رپورٹ ہے جس میں ہربات ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ درج ہے
۔ان میں اخباری تراشوں یا سیاسی بیان بازی کے بجائے سرکاری مراسلت کو بنیاد
بنایا گیا ہے ۔ دلچسپ بات یہ کہ اس دستاویز میں سب سے زیادہ۲۵ صفحات چدمبرم
کیلئے مختص ہیں اور دوسرے نمبر پر سشیل کمار شندے ہیں جن کے الزامات ۱۲
صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔اور انہیں دونوں کو اہم ترین وزارتوں سے نواز کر
حکومت نہ صرف صلاحیت اور صالحیت کے بارے اپنا موقف واضح کردیابلکہ بدعنوانی
اس کے نزدیک کسقدر غیر اہم ہے یہ بھی جتا دیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر مختلف نظر آنے کے باوجود یہ سارے باطل
نظامہائے سیاست مثلاً ملوکیت ،آمریت اور جمہوریت عملاً کیوں ایک جیسے ہو
جاتے ہیں اور دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سی شہ ہے جو خلافت کو ان سے
ممتاز کرتی ہے ؟ اس بابت اگر علامہ اقبال سے رجوع کیا جائے جواب ملے گا فقر
۔ عام طور پر فقر کو رہبانیت کے ہم معنی ٰ سمجھا جاتا ہے لیکن بقول حکیم
الامت ؎
کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و راہبانی
سکوں پرستیٔ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طُغیانی
اقبال نے اپنی فارسی شاعری میں اس موضوع پر بڑا کلام کیا ہے ایک جگہ وہ
کہتے ہیں کافر کا فقر جنگل اور بیابان میں نکل جانا یعنی رہبانیت ہے مگر
مومن کا فقر بحرو بر پر لرزہ طاری کر دیتا ہے، مومن کا سکون جنگل میں نہیں
ہے بلکہ اس کیلئے پروقارشہادت کی موت زندگی کا دوسرا نام ہے،کافرترک بدن کر
کے خدا کو ڈھونڈتا ہے وہ خودی کو مارتا جلاتا ہے جبکہ مومن اپنی خودی کو حق
کی سان پر چڑھاکرچراغ کی مانند روشن کرتا ہے ۔اقبال کی نظر میںمومن کا فقر
کائنات کو مسخر کرنے کے ہم معنی ٰٰہےوہ فقرِ کافر اور فقرِ مومن میں اس طرح
فرق کرتے ہیں کہ ؎
اِک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہاں گیری
فقر و اقتدار ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں اگرفقر کو
اقتدار سے محروم کر دیا جائے تو وہ رہبانیت بن جاتا ہے اور اگر اقتدار میں
سےفقر کو کم کر دیا جائے تو وہ باطل نظام ِ سیاست کی مختلف شکلوں میں سے
کوئی ایک صورت اختیار کر لیتا ہے جن میں جمہوریت بھی شامل ہے لیکن اگر
اقتدار کے ساتھ فقر کو یکجا کر دیا جائے تو خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا قیام
عمل میں آتا ہے ۔ سارے باطل سیاسی نظاموں کے اندر مشترک یہی فقر کا عدمِ
وجود ہے جو ہوسِ دنیا کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اس کے برعکس خلافت کے دامن
میں فقر کی موجودگی اسے دنیا سے بے نیاز کر کے اللہ کا نیاز مند بنا دیتی
ہے بقول اقبال ؎
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ
فقرمقام نظر ، علم مقام خبر
رسول اکرم ؐنے فرمایا’’مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا
مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے’’استغنا بھی دل میں ہوتاہے اور فقر بھی دل ہی
میں ہوتاہے‘‘حضرت علیؓ کا قول ہے ’’غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو‘‘
بد قسمتی سے دیگر نظامہائے باطل کی طرح جمہوری نظام ِ سیاست بھی اس عنصر سے
یکسر محروم ہے ۔اسی لئے اس نظام میں بھی عوام غریب سے غریب ترین اور ان کے
نمائندے امیر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر امت مسلمہ اپنے
آپ کو ذلت و رسوائی سے نکال کر عظمت و بلندی پر فائز کرنا چاہتی ہے تو یہ
مقصد جلیل کسی باطل نظام ِحیات کو اپنانے یا فروغ دینے سے حاصل نہیں ہو سکے
گا بلکہ اس کیلئے ہمیں اپنےبازو میں حیدرکا زور،دل میں ابوذر کا فقر اور
زبان کوسلمان کےصدق سے متصف کرنا ہوگا اس لئے کہ یہی وہ صفات ہیں جو
استبدادی قوّتوں کے چنگل سے انسانوں کو آزاد کراسکتی ہیں اوراسی سے حریّت ،
اخوّت اور مساوات پر مبنی عالمگیر معاشرہ کا قیام عمل میں آسکتا ہے؎
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلمانی
|