طالبان کی قید میں 6

’’تو پھر میں اپنا چھوٹا نکون کیمرہ کیوں لے جا رہی ہوں؟ مگر یہ تو بہت چھوٹا ہے ، شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔‘‘ میں نے خود کو مطمئن کرتے ہوئے کہا۔

میں نے طالبان کے رائج کردہ قوانین کے بارے میں جوکچھ پڑھا،ان قوانین پر سوچ بچار کے بعد مجھے بارڈر پر بے حد محتاط رہنے کی ضرورت تھی کیونکہ میں غالباً دس منٹ کے اندر ان میں سے بیشتر کی خلاف ورزی کر ڈالتی۔ سارا مغرب ان کی حکومت کا جابرانہ سمجھتا تھا۔ کیونکہ ان سے متعلق اسے جتنی روایتیں پہنچی تھیں ان میں دو باتیں خاص طور پر قابلِ ذکر تھیں. ایک بات عورت کی مظلومی کی داستانیں اور دوسری بات نسلی اقلیتوں پر جبر وستم کی کہانیاں ۔

پھر میں ایک اور ویب سائٹ میں گئی کہ یہ دیکھوں کہ طالبان کیسے وجود میں آئے ؟

انہیں ایک مذہبی سکالر ملا محمد عمر اخوند نے منظم کیا تھا جس کی عمر اس وقت 43سال تھی۔ اس نے قندھار کے ایک گائوں میں دینی علوم کے چالیس پچاس طلبائ کو اکٹھا کرکے انہیں اپنے مشن سے آگاہ کیا اورسب کو گرویدہ بنا لیا۔ ’’ایشا ویک‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ طلبائ پاکستان کے پشتون بیلٹ کے مذہبی مدرسوں اور مہاجر کیمپوں سے تعلق رکھتے تھے جو صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان سے آئے تھے۔ ان کے سپاہیوں میں زیادہ تر درانی قبیلے کے پشتون تھے۔ایشیا ویک کا کہنا ہے کہ ملا عمر اور اس کے ساتھیوں کو سب سے زیادہ غصہ مجاہدین کے ان گروپوں پر تھا جو باری باری اقتدار میں آ رہے تھے اور ان میں ساری برائیاں سرایت کر گئی تھیں۔ پھر انہوں نے آپس میں علاقے بانٹ لئے ان میں زبردست کشمکش شروع ہو گئی، نتیجتاً ملک میں لاقانونیت پھیل گئی۔ شاہراہوں پر لوٹ مار ہو رہی تھی۔ ڈکیتیاں اور زنا بالجبر جیسے واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے۔ جولائی 1994ئ کی دہائی میں قندھار کے ایک فوجی کمانڈر نے تین عورتوں کی جبری عصمت دری کی اور بعد ازاں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔یہ واقعہ مشہور ہونے کے بعد ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ملا عمر اور طالبان فوراً حرکت میں آگئے۔ اس کمانڈر کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس کے آدمیوں نے ملا عمر کی اطاعت قبول کر لی اور اس کے سفید پرچم تلے لڑنے کا اعلان کر دیا۔ ایسے فوری انصاف نے لوگوں کے دل جیت لیے اور طالبان کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔
میرا کسی ’’طالب‘‘ سے ملنے یا اس سے ’’چیٹنگ‘‘ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میرا ہدف عام افغان تھے، میں ان کے عام آدمیوں کے جذبات و احساسات سے باخبر ہونا چاہتی تھی۔ مجھے امیدتھی کہ مجھ پر کوئی شبہ نہیں کیا جا ئے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میرا کھوج لگا لیا گیا تو میری زندگی شدید خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا۔

اب مجھے بھوک لگ رہی تھی، اس لئے میں سیدھی ہوٹل کے نیچے بوفے کے لئے چلی گئی جو بہت مزیدار تھا۔ میں نے اس رات واقعی سؤر کی طرح ٹھونس کر کھایا، دوبارہ کھانے پر ہلہ بولا تھا۔ کیونکہ پتہ نہیں کہ اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ میں نے یہ بات ریسٹورنٹ منیجر سے مذاق کرتے ہوئے کہی، جس نے مجھے ایک بار پھر کھانے کی دعوت دی تھی۔میں نے اتنا کھایا، اتنا کھایا کہ میرے لیے ہلنا مشکل ہو گیا۔ اس دوران اقوام متحدہ کا ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر میرے پاس آگیا۔ جس سے میں اس ہفتے کے شروع میں ملی تھی۔ وہ بڑی دلکش شخصیت کا مالک تھا ۔ اس نے بتایا کہ اسے کابل سے نکال دیا گیا ہے۔اور اسے اقوام متحدہ کے دفاتر، ہسپتال اور پیچھے رہ گئے طبی آلات کے بارے میں بہت تشویش ہے اور اسے سب سے زیادہ فکر وہاں کے لوگوں کے بارے میں ہے۔میں نے اسے اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے پروگرام سے بھی مطلع کر دیا۔ اس پر اس نے بڑے وثوق سے کہا کہ میں برقعے میں رہی تو ضرور محفوظ رہوں گی۔ میں نے اسے اپنے بالوں کے رنگے ہونے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اسی لئے میں نے ڈنر کے دوران سرخ فیراری بیس بال ٹوپی پہن رکھی ہے۔

اپنے کمرے میں واپس آکر میں نے تھوڑی دیر سی این این دیکھنے کے بعد ٹی وی کابٹن بند کر دیا کیونکہ اس مصنوعی جنگ کے مناظر دیکھ دیکھ کر میں اکتا چکی تھی۔ کئی ماہرین نے آئندہ ہونے والی جنگ سے متعلق پیشن گوئیاں کی تھیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جنگ ایک ناقابل پیشگوئی بزنس ہوتا ہے، تاہم ایک چیز جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے، یہ ہے اس جنگ میں انسانی جانوں کا بہت بڑے پیمانے پر ضیائع ہوگا۔ لیکن مغرب کا اندازہ بتا رہا تھا کہ وہ امدادی ایجنسیوں کی جانب سے ظاہر کردہ خدشات کو کوڑا کرکٹ سمجھ کر قالین کے نیچے چھپا رہا تھا۔

پاشا تقریباً آٹھ بجے شام ہوٹل پہنچا اورہم دارالحکومت کے مضافات میں ایک مکان میں پہنچے ۔جہاں میرا تعارف ایک ہنس مکھ عورت، اس کے دو بیٹوں اور بہت سے دیگر رشتہ داروں سے کرایا گیا۔ وہ اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔ میں نے ان کا حوصلہ بندھاتے ہوئے کہا کہ تمہاری انگلش میری اردوسے بہتر ہے۔

پاشا نے کہا کہ مجھے اب پاکستان کا روایتی لباس پہن لینا چاہئے ،کیونکہ ہم فوراً قبائلی علاقے کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ قبل اس کے کہ یہاں کے لوگ ایک مغربی عورت کو اپنے علاقے میں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع کردیں اور کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے، ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہئے۔ چنانچہ اس کی بیوی نے مجھے میرا اصل روپ چھپانے کیلئے اپنا روایتی لباس دے دیا۔میں ایک کمرے میں گئی اور ہلکے نارنجی رنگ کی شلوار اور سبزی مائل نیلی قمیض پہنی اور ہلکے سبز رنگ کی شال اوڑھ لی، جس نے میرے سر کے بیشتر حصے کو ڈھانپ دیا۔ میں نے اپنے بالوں کو رنگنے کے علاوہ انہیں پیچھے لے جا کر گوندھ لیا تھا اور اپنے ہاتھوں اور بازئووں کو سانولے کرنے کیلئے رنگ لگا دیا تھا۔

پاشا کی بیوی نے پیار سے مجھے گلے لگا لیا اور پاشا نے کہا:
’’میڈیم میری بیوی کوآپ کی بہت فکر ہے اورسب خاندان والے آپ کی خیریت کیلئے دعا ئیں کر رہے ہیں۔‘‘
میں سب کا شکریہ ادا کرنے کیلئے پیچھے مڑی ۔پھرمیں اپنے رہبر مسکین سے ملی اور تیزی سے اس کی کارمیں سوار ہوگئی جسے وہی چلا رہا تھا۔ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ اس کی ڈرائیونگ بڑی خوفناک تھی۔ میں ڈر کر سہم گئی اور سوچنے لگی کہ افغانستان میں داخل ہونا تو ایک طرف رہا. پتہ نہیں میں اس گاڑی میں سے زندہ باہر نکل سکوں گی یا نہیں؟

مین روڈ سے پشاور جاتے ہوئے پولیس نے ہمیں کئی جگہ روکا اور نیم دلانہ انداز میں کار کی تلاشی لی۔ میرے بہروپ نے انہیں مطمئن کر دیا ،مگر انہیں دراصل کسی اور چیز کی ضرورت تھی۔ انہیں روپوں کی ضرورت تھی۔ پولیس کی ظاہری تنخواہ بہت کم ہے اور وہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنے طور پر غیر سرکاری ’’روڈٹیکس‘‘ وصول کرتے رہتے ہیں۔

شمال مغربی سرحد کی طرف سفر کے دوران ، ہماری ملاقات دوسرے افراد سے ہوگئی۔ وہ بھی بظاہر بارڈر کی طرف ہی جا رہے تھے۔ میں نے پاشا سے کہا کہ میں کسی الجھن میں نہیں پڑنا چاہتی،اس لیے وہ سفرکے انتظامات بہت زیادہ نہ بڑھائے۔ اس نے مجھے مطمئن رہنے کی تلقین کرنے کے بعد ایک شخص ’’جان‘‘ سے تعارف کرایا۔’’جان‘‘ انگریزی بول سکتا تھااورآئندہ کے سفر میں میرے دورہبروں میں سے ایک تھا۔

آدھی رات گزر چکی تھی کہ ہم ایک گائوں میں پہنچے، ہم نے گاڑی عقبی راستے پر ڈال دی۔ ایک خوفناک کتا بھونک رہا تھا۔ پاکستان میں کتے بہت کمزور، غصیلے اور بدمزاج دکھائی دیتے ہیں۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس کے بھونکنے سے میں ڈر گئی تھی ۔ ایک دروازے پر دستک دی گئی، پھر کئی بار کی دستک اور انتظار کے بعد اندر روشنی جلائی گئی۔ بالآخر ایک عورت نے دروازہ کھولا جس کی عمر ساٹھ سال کی ہو گی۔وہ ہمیں خاموشی اور احترام سے اندر لے گئی ۔ اس نے مجھے بوسہ دیا اور گلے لگالیا۔ وہ بے حد انکساری سے پیش آ رہی تھی ۔ اگرچہ اسے انگریزی نہ آتی تھی، لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے جذبات ہم تک اور ہمارے اس تک بخوبی پہنچ رہے ہیں۔

مرد باہر کھلے آسمان تلے چارپائیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور چاند آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ سب لوگ تمباکو نوشی کے ساتھ ساتھ چائے کی بھی چسکیاں لے رہے تھے۔ میرا جی بھی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے پاس جا بیٹھوں لیکن مجھے ایک بڑے بیڈ روم میں پہنچا دیا گیا، جہاں کم از کم آٹھ دوسری عورتیں اور متعدد بچے گہری نیند سو رہے تھے۔

چھت کا پنکھا، فراٹے بھر رہا تھا جس سے گرمی اور گھٹن میں کچھ کمی واقع ہو رہی تھی۔ اس منظر سے مجھے وائلڈ لائف کے بارے میں اپنی ایک پسندیدہ فلم یاد آگئی جو دریائی بلے کے پیار بھرے خاندان کی زندگی پر تھی۔ وہ ہر کام مل جل کر کرتے ہیں، جو بہترین ٹیم ورک کا مظاہر ہوتا ہے اور پھر جب دن ختم ہوتا ہے تو سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر سو جاتے ہیں۔مجھے ایک چارپائی دے دی گئی جس پر بڑا سخت قسم کا تکیہ رکھا ہوا تھا۔ اس طرح میں چند گھنٹوں کیلئے نیند کے آغوش میں چلی گئی۔ جب میں اٹھی تو چند لمحوں کیلئے مجھے اپنے ہوش وحواس اکھڑے ہوئے محسوس ہوئے ۔ پھر معاً یاد آیا کہ میں کہاں ہوں؟.میں تو سرحدی علاقے میں کسی گھرانے میںتھی۔ اپنے ارد گرد دیکھا ۔سب میٹھی نیند سو رہے تھے۔ مجھے دوبارہ دریائی بلے کا خاندان یاد آگیا۔ڈیزی بھی اسی طرح پر سکون سو رہی ہوگی اور کتنی پیاری لگ رہی ہوگی۔ وہ چھوئی موئی سی ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی ٹھہریں، خواہ کتنے ہی بیڈز اور بیڈرومز ہوں وہ ہمیشہ رینگتی ہوئی میرے ساتھ آ سوتی ہے۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166607 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More