ایوان ریڈلی( افغانستان میں)طالبان کی قید میں 5

اس کام کے بعد ہم لوگ درّہ آدم خیل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں کے سائے میں دکھائی دینے والا یہ ایک ایسا چھوٹا سا گائوں تھا جہاں بہت سی گنیں اور گولہ بارود تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں اسلحہ کی بہت سی غیر قانونی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں اور گودام ہیں۔ جن میں آٹھ آٹھ سال کے بچے اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔

درّہ آدم خیل میں میں نے ان گوداموں اور اسلحہ فیکٹریوں کی کئی تصویریں بھی لیں اور انہیں اپنے اخبار کیلئے لندن روانہ کر دیا۔ جِم مرے غیر قانونی اسلحہ فیکٹریوں کے بارے میں بھیجی ہوئیں تصویریںدیکھ کر بہت خوش ہوا اورمجھ سے کہا کہ میں پشاور میں ہونے والے وہ مظاہرے ضرور دیکھوں جو افغانستان کے حق میں اور امریکہ کی مخالفت میں ہور ہے ہیں۔ایسے مظاہروں کی رپورٹنگ کیلئے میں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد سے پشاور روانہ ہوئی۔

اس بار اسلام آباد نکلنے کے بعد ہم پہلے آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ جنرل حمید گل جو طالبان سے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں، نے طالبان کا بڑے جوش وخروش سے ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے ہیں۔جنرل گل نے طالبان کی فوجی طاقت کا تذکرہ کر تے ہوئے ان کے زیرِاستعمال ٹینکوں، میزائلوں، اور بموں کے بارے میں بتایا۔ جنرل نے کہا کہ نوجوان طالبان یہ تصور کرکے اپنی ہتھیلیاں رگڑتے ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب امریکی اور برطانوی افواج ان کے ملک پر حملہ آور ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ افغان زبردست لڑاکا قوت ہیں۔ جو پچھلی صدی میں دو دفعہ برطانوی فوج سے کامیاب جنگیں لڑ چکے ہیں اور روسیوں کو بھی انہوں نے دس سال تک روکے رکھا ہے۔
جنرل حمید گل سے ملاقات کے بعد ہم پشاور پہنچے تو اسلام آباد کی طرح یہاں بھی سارے ہوٹل پُرتھے اور عارضی رہائش گاہوںکے کرائے بھی چارگنا بڑھ چکے تھے۔میں نے کسی کو رشوت دے کر پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا۔

سفرکاآغاز

تقریباً آدھی رات گذر چکی تھی اور میں آئندہ چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں افغانستان پہنچنے والی تھی۔ میں نے دوستوں اور افرادِ خاندان سے فرداً فرداً مختصر سی گفتگو کر لی تھی اور میری آخری کال اپنی بیٹی ڈیزی کو تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے تم سے بہت محبت ہے ۔
میں نے اپنی بیٹی سے کہا:
’’ہمیشہ یاد رکھو! اگر مجھے چاہتی ہو یا تمہیں میری ضرورت محسوس ہو تو اپنی آنکھیں بند کر کے امی کے بارے میں سوچنا شروع کر دینا، میں فوراً پہنچ جائوں گی۔ کہو کیا یہ بات تمہیں یاد رہے گی، کہوناں، کیوں ڈیزی! ایسا ہی ہے ناں؟ میں چاہتی ہوں کہ تم یہ باتیں ہمیشہ یاد رکھو اور اچھی طرح یاد رکھنا۔‘‘
میری بیٹی نے جواب دیا:
’’جو کچھ بھی ہوگا، امی! کیاآپ میری سالگرہ تو نہیں بھولیں ، کیا بھول گئیں؟ یہ بدھ کو ہے۔ اچھا تو اب میں چلتی ہوں، ہم اس وقت کھیل رہے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی لائن کٹ ہو گئی۔
میری اس رات کی نیند بے سکونی کی تھی۔ لیکن میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں جب بھی میرے ذہن پر کوئی دھن سوار ہو، میری رات کروٹوں میں ہی گزرتی ہے۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں چاہوں تو اس منصوبے کا ’’پلگ‘‘ اب بھی باہر کھینچ سکتی ہوں۔ اگر میں نے خود کو زیادہ مغموم پایا تو یقیناً یہی کروں گی۔
صبح ہوئی تومیں ناشتے کیلئے نچلی منزل پر اتری اور حسبِ معمول فرائیڈ انڈوں اور مصالحہ دار کڑی کا ناشتہ کیا۔ پھر جم مرے کو یہ ای میل بھیجی:
’’ میری مہم پرروانگی کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں، یہ ایسی تیاریاں ہیں کہ میں نے اس سے پہلے ایسی کبھی نہیں کیں، اگر میں کامیاب ہو گئی تو میں جانتی ہوں کہ مجھے پیٹھ پر بہت تھپکیاں ملیں گی، اور ناکام ہو گئی تو ناعاقبت اندیش اور پرلے درجے کی احمق کہلائوں گی۔اس دنیا میں کوئی بھی ایسا کام نہیں جسے مکمل طور پر محفوظ اور خطرات سے پاک کہا جا سکتا ہو۔ یہ حقیقت ہزاروں اہل نیویارک پر گیارہ ستمبر کو واضح ہو گئی تھی۔ تاہم طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں کوئی بھی مغربی صحافی موجود نہیں اور ہمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ وہاں اندر کیا ہو رہا ہے ؟خواہ ایک آدھ فوٹو ہی کیو ں نہ ہو!مجھے پورا یقین ہے کہ میں بخیریت رہوں گی۔ اور بھی کئی لوگ یہ خطرہ مول لے رہے ہیں، لہٰذا میں بالکل اکیلی نہیں ہوں۔ مسکین نامی ایک شخص میرا گائیڈ ہے، ا س کا تعلق صوبہ سرحد کے قبائلی علاقے سے ہے۔ہم کوہِ بندوکش میں سے ایک قدیم روایتی روٹ اختیار کریں گے۔ یہ راستہ پاکستان کی سرحدی چوکیوں سے ہٹ کر جاتا ہے اور ہم اسے چار پہیوں والی گاڑی کے ذریعے طے کرینگے۔ پھر تقریباً دس کلو میٹر پیدل چلنے کے بعد جلال آباد کے نواح تک گھوڑوں پر جائیں گے، جہاں اُسامہ بن لادن کا ایک اڈہ ہے۔ اگرچہ ہم اس سے کافی دور سے گزریں گے۔ وہیں کہیں رات ٹھہرنے کے بعد پیچھے ہٹ جائیں گے اور میں جمعہ کے سہہ پہر کو ساراسفرنامہ لکھ کربھیج دوں گی۔‘‘

’’میں نے ہر ممکن احتیاط کرلی ہے۔ بال رنگ لیے ہیں اور جلد بھی رنگدار کر لی ہے، کپڑے بھی پرانے اور افغان وضع کے ہیں اور جوتے بھی روایتی پہنوں گی۔ مسکین لوگوں پر یہ ظاہر کرے گا کہ وہ اپنی بوڑھی ماں کو افغانستان سے لانے جا رہا ہے۔ اس کی بیوی ﴿یعنی میں ﴾گونگی ہے۔ ہمارے پاس نیم خود کار ہتھیار ہوں گے، بعض مقامات پر مسلح محافظ بھی ہمارے ساتھ ہونگے۔ ہمارے پاس جو شناخت ﴿شناختی کارڈاورپاسپورٹ وغیرہ﴾موجود ہے، وہ ہم بارڈر پر پاشا کے حوالے کر جائیں گے۔‘‘

’’میں اپنے اہلِ خاندان کو خطوط وغیرہ لکھنے والی تھی ، مگر اب یہ ارادہ ترک کر رہی ہوں۔ میں جمعہ کو سٹوری بھیجوں گی ا ور آپ سے جتنی بھی جلدی ہو سکا، رابطہ قائم کروں گی۔ کیا یہ سب مکمل ہونے پر مجھے دو ہزار ڈالر بھجوائے جا سکتے ہیں، ان رہبروں کے ساتھ یہی فیس طے پائی ہے۔ اس کام میں تعاون کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں جب تک بخیریت اسلام آباد واپس پہنچ نہ جائوں انہیں ایک پائی تک نہ ملے گی۔پشاور میں بعض دھوکہ باز لوگ بارہ سو ڈالر کے عوض افغانستان لے جانے کی پیشکش کرتے ہیں۔ مگر جانے والوں کو وہاں بمشکل پائوں رکھنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ یہ بہت بے ہودہ بات ہے۔ اگر اس سفر کے دوران ہماری طالبان سے مڈھ بھیڑ ہوگئی تو پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہو گا؟میں انتظار کر رہی ہوں کہ وہ وقت کب آتا ہے جب میں آپ کو ایک اچھا سامضمون اور صحیح خبریں بھیج سکوں۔‘‘

یہ پیغام بھیجنے کے بعدمیں کچھ دیر ہوٹل کے ارد گرد گھومتی رہی ۔کچھ دیر میں پاشا کی کال آئی جس میں اس نے بتایا کہ وہ شام کو مجھے لینے آئے گا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی کار کی سروس کر ا رہاہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ’’ کیا سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے اور کیا ہر کوئی اپنی جگہ خیریت سے ہے اور جو اکچھ انہوں نے کرنا ہے ، وہ بھی OKہے؟‘‘
جواب ملا: ’’ہاں! ہر کوئی ٹھیک جا رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد میں نے انٹرنیٹ پر طالبان کے بارے میں معلومات حاصل کرناشروع کر دیں۔ چند ایک ویب سائیٹس ہی دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ طالبان کا مقصد دنیا میں ایک قدامت پسند ترین اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ان کے ہاں سگریٹ نوشی ، سؤر کے گوشت، پتنگ بازی اور فوٹو گرافی کی سخت ممانعت ہے۔ قرآن کے بوسیدہ صفحات کی ری سائیکلنگ ممنوع تھی، جس کی بنا ئ ر کاغذ کے لفافوں پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ قرآنی صفحات کو اس ٹیکنالوجی کے ذریعے لفافوں میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154775 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More