ایوان ریڈلی (افغانستان کے بارڈر پر )7

جمعرات 27 ستمبر کو صبح کے قریباً پانچ بجے. ہم اس عظیم پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ جسے کوہِ ہندوکش کہا جاتا ہے، بارڈر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مسکین نے مجھے بذریعہ پاشا بتایا کہ اس روڈ پر ڈاکو گروہ در گروہ پھرتے ہیں۔ صبح پھوٹنے سے پہلے اس پر سفر کرنا محفوظ نہیں ہوتا ہے۔

ہم پاکستان کی ہی حدود کے اندر تقریباً آخر میں ایک ڈیرے ﴿فارم ہائوس﴾ میں پہنچ گئے۔ ایک عورت نے جس کی عمر چالیس سال تھی، دروازہ کھول کر ایک وسیع صحن میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ مرد لوگ کہیں چلے گئے اور اس عورت نے مجھے ایک چھوٹے سے بیڈروم میں پہنچا دیا ،جس کے فرش پر پتھر لگا ہوا تھا۔ اس نے مجھے یہاں سو جانے کی ہدایت کی اور خودکمرے سے باہرچلی گئی۔میں لیٹی اور فوراً سوگئی ۔ مگرپھر اچانک ہربڑا کر اٹھ بیٹھی کیونکہ مجھے اپنی انگلیوں میں چاقو چبھوئے جانے کا احساس ہوا ، یہ ایک چوزے کی کارستانی تھی جو صحن میں گھومتا پھرتا ہوا اندر چلا آیا تھا اور میری انگلیوں پر چونچیں مار نے لگا تھا۔ پتہ نہیں اس نے میری انگلیوں کو لذیذ نوالے سمجھا تھایا مجھے جگا کر کچھ غذا مانگ رہا تھا۔
عورت دوبارہ اندر آئی اور اور اس نے مسکراتے ہوئے، صوفے پرپڑے ہوئے روایتی افغان لباس اور نیلے ریشمی برقعے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے لباس تبدیل کر لیا اوراس کے بعد ہم کارمیں بیٹھ کروہاں سے روانہ ہوگئے۔

ہم درہّ خیبر میں سے گزرنے والی سٹرک پر ہولئے۔ اب ہمارے پاس دو کاریں تھیں اور ہم نے ایک عورت ،اس کے دو بچوں اور اس کے شوہر کو ساتھ بٹھارکھا تھا، ان میں سے کوئی بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔ اس لئے مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟

کچھ آگے چل کر کاریں رکیں اور مرد ایک سڑک ہوٹل میں جاداخل ہوئے اور مجھے اس عورت اور دو بچوں کو پچھلی نشست میں بیٹھے رہنے دیا۔کھڑکیاں بند تھیں، مجھے برقعے کی گھنی جالی میں سے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔برقع اب پریشر ککر کی طرح محسوس ہونے لگا تھا، سر بھاری لگتا تھا اور اس میں سے نکلتا ہوا پسینہ میری پشت کی طرف سرک رہا تھا۔اگر میں انگلینڈ میں ایک کتاب ہوتی تو کوئی نہ کوئی ’’ادارہ انسداد بے رحمی حیوانات کو فون کر دیتا یا کھڑکی پر اینٹ دے مارتا۔میں زیر لب خود کو مطعون کر رہی تھی اور جو بھی بے ادبی کے کلمات ذہن میں آرہے تھے ادا کر رہی تھی۔ مرد لوگ ہمیں آدھے گھنٹے کے لئے اس لعین کار میں جلنے بھننے کیلئے چھوڑ گئے تھے اور میں لفظوں کے ذریعے دل کی بھڑاس نکلا رہی تھی۔ میر ا جی چاہتا تھا کہ چھلانگ لگا کر باہر کو د پڑوں اور مردوں سے جاکر پوچھوں کہ یہ کیا بے ہودگی ہو رہی ہے؟ مگر ایسا کرتی تو میرا سارا پردہ فاش ہو جاتا، پھر مجھے طالبان کا وہ آتش بار حکم یاد آیاجومیں نے انٹرنیٹ پرپڑھاتھا. ’’اونچی آواز کبھی نہ نکالنا‘‘

اسی اثنا میں مرد لوٹ آئے اور ہم دوبارہ چل پڑے۔ میں نے اپنے دانت پیستے ہوئے پاشا سے کہا: ’’ہمارے ہمرا ہی کہاں کے عجوبے ہیں، ہمیں انہیں ساتھ رکھنے کی کیا ضرورت تھی، کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم سارے انتظامات کو سادہ رکھیں گے؟‘‘

ا س نے جواب دیا: ’’میڈم پریشان نہ ہوں، اب آپ شادی میں شرکت کے لے افغانستان جانے والے ایک خاندان کا حصہ ہیں، یہ بے حد محفوظ طریقہ ہے۔‘‘

پاشانے دراصل ان الفاظ میں مجھے بتایا تھاکہ میں کس حیثیت سے افغانستان جارہی ہوں؟.اگلے چندمنٹوں میں ہم طورخم بارڈ ر پر تھے۔

ہم کار سے اترے، میں نے اپنا برقع اٹھا کر اسے راہبوں کی عبا کی شکل دیتے ہوئے پاشا سے کہا: ’’مجھے تو یہ طریقہ پسند نہیں، ہم نے جو منصوبہ بنایا تھا وہ یہ نہیں تھا.‘‘

لیکن اس نے مجھے فقرہ مکمل نہیں کرنے دیا اور تلخی سے کہا: ’’منہ بند کرو، چہرے کو ڈھانپ لو. وہ دیکھو. ایک طالب سیدھا ادھر آ رہا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی میں خوف سے جم کر رہ گئی اور وہی کیا جو مجھے کہا گیا تھا۔ پھر میری ہمراہی عورت نے اپنا ایک بچہ مجھے پکڑایا اور شفقت بھرے انداز میں مجھے پاک افغان سرحد کی طرف لے کر چلنے لگی۔ میں خوف سے مفلوج ہو رہی تھی اور ڈگمگاتی ہوئی طالبان چیک پوسٹ کی جانب جا رہی تھی.اچانک ایک شخص نے پشتو میں شور مچاتے ہوئے مجھے کچھ کہا۔

میں نے سوچا کہ میں ابھی افغانستان میں داخل بھی نہیں ہوئی کہ انہوں نے مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا ہے۔ میں آرام سے پیچھے مڑی۔ یہ ایک میڈیکل چیک پوائنٹ تھا ،جہاں پر بچوں کو ملک میں داخل ہونے سے پہلے اقوام متحدہ کی بھیجی ہوئی ویکسین دی جا رہی تھی۔ ممکن ہے کہ یہ چیچک یا کسی اور مرض کے انسداد کے سلسلے میں تھی۔یہ تواچھاہواکہ عورت اپنے بچے سمیت آگے بڑھ گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے ہولی۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے مبہم انداز میں سر ہلادیا اور اس نے ویکسین کے چند قطرے میرے ہاتھ میں اٹھائے ہوئے بچے کے منہ میں ڈال دئیے۔ پھر ہم مردوں کی طرف واپس آگئے اور سرحد عبور کرنے لگے۔

میں نے پہلا امتحان بخوبی پاس کر لیا لیکن دل میں ڈر پھر بھی موجود تھا۔

اب ہماری کہانی تبدیل ہونے لگی۔ پاشا میرے ہمراہ نہیں رہا تھا،وہ سرحد کے اُس پارہی رُک گیاتھا۔ میں اب بھی گونگی بہری تھی اور میرا نام شمیم رکھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت میں شادی کی تقریب میں جا رہی تھی ۔میں نے دل میں کہاکہ میں کیسے مضحکہ خیزحالات سے گزر رہی ہوں۔ مگر اس کے سوا کوئی چارۂ کار بھی نہ تھا۔ میں کسی اور طریقے سے یہاں سے بچ کر نہیں جا سکتی تھی۔ کیونکہ طالبان کے سپاہی جو نیم خود کار اسلحہ اور کلاشنکوفوں سے مسلح ہیں، قانون کی خلاف ورزی پر مجھے کم از کم کوڑے ضرور لگاتے. یا پتہ نہیں اور کیا کر ڈالتے؟

چنانچہ آج میں. یعنی ’’ایون ریڈلی‘‘. دو ممالک کے درمیان ایک ان دیکھی لائن کو عبور کر رہی تھی اور دل خوف سے لرزاں تھا۔میرا جی چاہتا تھا کہ شور مچانا شروع کر دوں اور بھاگتی ہوئی واپس پاشا کے پاس جا پہنچوں، لیکن میں ایک افغان عورت کے بھیس میں تھی اور خاموشی کی دنیامیں پھنسی ہوئی تھی، جہاں میرا منہ کھولنا مجھے موت کے منہ میں پہنچاسکتا تھا۔

یہ علاقہ پھلوں کے بے شمار سٹالوں اور گودام نما دکانوں سے اٹا ہوا تھا جن میں موٹر آئل اور سیکنڈ ہینڈ کاروں کے فالتو پرزے فروخت ہو رہے تھے۔ پیلی اور سفید ٹیکسیوں کی ایک لمبی قطار تھی ،جو نئے مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں۔ پھٹے ہوئے کپڑوں والے درجنوں لڑکے ادھر ادھر پھررہے تھے جو بوٹ پالش کرتے اور اور کاروں کو چمکاتے ہیں تاکہ اپنے پیٹ کی بھوک دور کر سکیں۔چند مہاجرین بھی تھے جو اپنا سامان اٹھائے افغانستان سے باہر جا رہے تھے، مگر جانے والوں کی بہ نسبت آنے والے کہیں زیادہ تعداد میں تھے ۔ زیادہ تر صحتمند نوجوان تھے جو ایک مقصد لے کر طور خم آ رہے تھے تاکہ طالبان کے دوش بدوش لڑیں۔

میں اپنے دونوں رہبروں کے پیچھے پیچھے ایک تابع فرمان عورت کی طرح چل رہی تھی لیکن برقعے کی وجہ سے چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس کی جالی میری نظر سے ٹکراتی اور سامنے کی چیزوں کو ٹھیک سے نہیں دیکھنے دیتی تھی۔ دل میں دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں گر پڑی یا برقع سے میل نہ کھاتی ہوئی کوئی حرکت کر بیٹھی تو پکڑی جائوں گی۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154776 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More