ایک کار ورکشاپ پر کام سیکھنے
والے دو شاگرد چار سے پانچ ماہ میں ہی اپنے آپ کو مکمل کاریگر سمجھنے لگے
اور دونوں نے ملکر اپنی ذاتی کار ورکشاپ بنانے کا بھی فیصلہ کرلیا کیونکہ
ان کا یہ سوچنا تھا کہ سارا دن سخت محنت تو وہ کرتے ہیں اور شام کو پیسوں
سے جیب ورکشاپ کا مالک بھر کر لے جاتا ہے حالانکہ اسی ورکشاپ میں دوسرے کام
سیکھنے والے ورکرز دو سے تین سال کا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی اس قابل
نہیں ہوئے تھے کہ اپنی الگ ورکشاپ بنا نے کا سوچ بھی سکیں لیکن ان دونوں کا
سوچنا تھا کہ وہ اب مکمل کاریگر بن چکے ہیں انہوں نے ادھر اُدھر سے پیسوں
کا انتظام کیا اور ایک گاﺅں میں اپنی ذاتی کار ورکشاپ بناڈالی اب ہوا یوں
کہ ایک غریب کی برُی قسمت کہ وہ اپنی گاڑی ٹھیک کروانے اُن ناتجربہ کار کار
مکینکوں کے چنگل میں آپھنسا دونوں نے اپنی ورکشاپ میں آنے والے پہلے کسٹمر
کو خوب پرٹوکول دیا اور اُسے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ گاڑی کا
کام تسلی بخش اور مارکیٹ سے کم ریٹ پر کریں گے خیر کسٹمر ان کی میٹھی میٹھی
باتوں میں پھنس گیا اور اپنی گاڑی اُن کے حوالے کر دی۔ اب انہوں نے گاڑی
ٹھیک کرنے کے لیے اس کی خرابی کو جانچنا شروع کیا لیکن بچاروں کو پتہ تو
کچھ تھا نہیں کیونکہ جہاں وہ کام سیکھتے تھے وہاں پر ایک ا ستاد گاڑی چیک
کرتا تھا اور پھر ان کو بتا تا تھا کہ فلاں چیز کھول کر فلاں چیز لگا دو
یعنی وہ گاڑی کے پارٹس کو کھولنے اور لگانے کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے لہذا
انہوں نے گاڑی کا نقص جانچنے کے لیے ایک ایک کر کے پوری گاڑی کو ہی کھول
ڈالا لیکن یہ پتہ نہ لگا سکے کہ آخر گاڑی میں خرابی کیا ہے اسی طر ح ایک
ہفتہ گزر گیا جب گاڑی کا مالک گاڑی لینے ورکشاپ پہنچا تو وہ اپنی گاڑی کی
حالت دیکھ کر اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھا کیونکہ گاڑی میں صر ف carburetor
کا پرابلم تھا اس میں کچر ا آجاتا تھا اس نے یہی بات اُن کو بتائی اور غصے
کا اظہار کیا کہ صر ف ایک carburetor کا کام کرنے کے لیے تم لوگوں نے میری
پوری گاڑی کھول کر رکھ دی ہے۔جب دونوں نے کار کے مالک کے منہ سے یہ بات
سُنی تو اند ر ہی اندر شرمندگی محسوس کرنے لگے کہ خرابی تو صر ف carburetor
کی تھی اور ہم نے پوری کار کھول کر رکھ دی ہے اب کسٹمر کو غصے میں دیکھ کر
اُن میں سے ایک بڑے مہذبانہ انداز میں بولا! دیکھئے جناب ہم جانتے تھے کہ
پرابلم صر ف carburetorکا تھا اور وہ تو ہم نے پہلے ہی روز ٹھیک کر دیا تھا
لیکن ہم نے سوچا کہ ہماری نئی ورکشاپ ہے اور آپ ہمارے پہلے کسٹمر ہیں اس
لیے بغیر معاوضے کے ہم نے آپ کی فل گاڑی کی سروس کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ
فکر نہ کریں اب تو پوری گاڑی کی سروس ہوچکی ہے آپ کل یا پھر پرسوں آکر اپنی
گاڑی واپس لے جا سکتے ہیں اس طرح بچارہ کار کا مالک ایک بار پھر انکی کی
باتوں میں آگیا اور واپس چلا گیا اب اُس کے جانے کے بعد دونوں نے بڑی ہی
سپیڈ سے کار کو واپس جوڑنا شروع کیا لیکن تین دن تک ہر طرح کی کوشش کرنے کے
باوجود بھی وہ کار کو دوبارہ کار کی شکل نہ دے سکے اور ادھر اُن کے وعدے
کاتیسرادن بھی ختم ہونے کو تھاکہ کار کا مالک ورکشاپ آپہنچا لیکن کار اُسی
طرح ٹکڑوں میں تقسم تھی اب وہ سیدھا اُنکے کے پاس گیا اور غصے سے کہا بس
بہت ہو گیا مجھے میری کار واپس چاہیے جس حالت میں بھی ہے بس بہت ہوگیا مجھے
میر ی کار واپس چاہیے جس حالت میں بھی ہے نہیں کروانا مجھے اپنی گاڑی کا
کام آپ لوگوں سے اب جعلی مکینک تو پہلے ہی سے کوئی راستہ ڈھونڈ رہے تھے کہ
کسی طرح اس مصیبت سے جان چھوٹے جو ان کے گلے پڑ گئی ہے اس لیے جیسے ہی
انہوں کار مالک سے یہ سُنا کہ مجھے میر ی کار واپس چاہیے ابھی کہ ابھی تو
بس اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے تو پھر ٹھیک ہے جناب اگر آپ کو زیادہ
جلدی ہے اور آپ انتظار نہیں کرسکتے تو پھر لے جائیے اپنی کا ر اسی حالت میں
اور کسی اور سے بنوا لیں کیونکہ ہم کام دوسروں کی طرح یونہی رفعہ دفعہ نہیں
کرتے ٹھیک ہے ہم دیرلگاتے ہیں لیکن ہمارا کا م پائیدار اور دیر پا ہوتا ہے
لیکن لگتا ہے آپ کو جلدی کچھ زیادہ ہی ہے اس لیے لے جائیے اپنی کار کیونکہ
ہم جلد بازی کے کام کو کرنا ویسے ہی پسند نہیں کرتے اب کار کا مالک بڑے
تعجب اور غصے بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتا ہوا بغیر کچھ بولے ورکشاپ سے
باہر نکل جاتاہے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد ایک گدھا گاڑی کے ساتھ وہ ورکشاپ
میں داخل ہوتا ہے بڑی ہی بے بسی کے ساتھ ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے اپنی گاڑی
کے ایک ایک پرزے کو اُٹھا کر گدھا گاڑی پر رکھتا ہے اور پھر خود بھی اُسی
گدھا گاڑی پر سوار ہوکر شدید رنج وغم اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے ورکشاپ سے
باہر نکل جاتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسے ناتجربہ کار
،جعلی،اورنااہل لوگوںسے محفوظ رکھے جو اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو نقصان
اور تکلیف دیتے ہیں انسان کو اصولً کام وہی کرنا چاہیے جس کا وہ تجربہ
رکھتا ہو ورنہ جاہل او ر نا تجربہ کار لوگ ایسا ہی کرتے ہیں جیسے دو
ناتجربہ کار مکینکوں نے ایک غریب کی گاڑی کے ساتھ کیا اور اصل میں میرا صل
مقصد اس کہانی کے ذریعے عوام کو آگاہ کرنا ہے کہ آج یہی نااہلی اورناتجربہ
کاری ہی ہمارے ملک پاکستان کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہے
پاکسان کی موجودہ صورتحال اس کہانی سے مختلف نہیں ہے جہاں دھوکہ دہی سے
ہمارے اوپر نااہل ،ناتجر بہ کار اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے حکمرانوں کی
حکومت مسلط کی گئی ہے یہ پاکستانی قوم کی بدنصیبی نہیںتو اور کیا ہے کہ
جہاں ایک ایسے شخص کو ہیلتھ کا منسٹر بنا دیا جاتا ہے جو خود سب سے بڑا
نفسیاتی اور دماغی مریض ہوتا ہے اور جس کی بی اے کی ڈگری کا اصلی یا جعلی
ہونا تو رہی دور کی بات میٹرک کی ڈگری بھی اصل نہیں ہوتی وہ شخص ہمارے ملک
میں تعلیم کا منسٹر ہوتا ہے اور جو شخص کھلم کھلا کرپشن اور قبضہ مافیا
گروپوں کی سربراہی کرتا ہے اور قانون کو پامال کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا
ہو ایسا شخص پاکستان میں وزیر قانون ہوتا ہے اگر ہم موجودہ اسمبلی کی پوری
کابینہ پر نظر دہرائیں تو پتہ چلے گا کہ صدر پاکستان سے لیکر چھوٹے سے
چھوٹے منسٹر کا عہدہ بھی اس کی پرسنیلٹی ،تعلیم اور کریکٹر کے مناسبت سے
نہیں ہے جیسا کہ بی بی کی اچانک شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی جھولی
میںصدر پاکستان کا عہدہ آن پڑا حالانکہ وہ اس قابل نہیں تھے کہ پاکستان
جیسے ملک کے ان گنت مسائل کا صیح ادراک کرسکیں یا ان کے حل کے لیے کوئی
خاطر خواہ حکمت عملی واضحع کرسکیں اور پھر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
جنہیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے ناکام ترین وزیر اعظم تصور کیا جاتاہے اور
ان کی رخصتی کے بعد ان سے بھی زیاد ہ سست اور نااہل شخص کو وزیر اعظم
پاکستان بنا دیا گیا جو منسٹر بننے کے بھی قابل نہ تھا جی ہاں یہ بجلی اور
پانی کے سابق وزیر راجہ پرویز اشرف صاحب ہی ہیں جو ایک وزارت کو تو چلا نہ
سکے لیکن آج پورے پاکستان کے نظام کو چلانے کے لیے صدر زرداری صاحب نے
معصوم عوام پر اُسے وزیر اعظم مسلط کر دیاہے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے
سیاہ ترین دور سے گزر رہاہے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کا مقدر اور
مستقبل نہائیت نا اہل اور نا تجربہ کار لوگوں کے ہاتھوںمیں ہے اور ان سے
پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی آس لگانا سوائے پاگل پن ہے اور کچھ
نہیںکیونکہ یہ بے حس حکمران اپنی نااہلی کی وجہ سے ہمارے پیارے پاکستان کو
ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اگر اب بھی ہم عوام غفلت کی
نیند سے بیدار نہ ہوئے اور مفاد پرست حکمرانوں سے چُھٹکارہ حاصل نہ کیا تو
پاکستان اتنے ٹکڑوں میں بٹ جائے گا کہ جس کو جوڑنا پھرشایدنا ممکن ہو
جائے۔کیونکہ یہاں بات اب صر ف ایک گاڑی کی نہیں بلکہ پاکستان کے اٹھارہ
کروڑ عوام کے مستقبل کی ہے۔ |